Column

ملک گیر ری ایکشن کا خطرہ

سیدہ عنبرین
ملک کے مختلف حصوں میں ژالہ باری ہوئی اور چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی سیاسی ژالہ باری جاری ہے اور موسموں سے بے نیاز ہو کر تمام سال جاری رہے گی۔ عام انتخابات کے بعد شکست سے دوچار ہونے والے جلد یا بدیر اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سونے کی بجائے اپنے کام کاج میں لگ جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ ایسا نہ ہو گا مختلف فورمز پر احتجاج جاری رہے گا اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر لڑائیاں مارکٹایاں بھی دیکھنے میں آئیں گی آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں یہ سب کچھ تو ہوتا ہے اس مرتبہ انتخابات نسبتاً زیادہ آزادانہ تھے پھر ان سے جڑے کھیل تماشے زیادہ کیوں نہ ہوں۔
چاروں صوبوں میں وزرائے اعلیٰ اپنے عہدوں کا حلف اٹھا چکے حکومتوں کے خدوخال واضع ہو چکے وزیراعظم پاکستان کا انتخاب بھی ہو گیا، ایک ہفتے تک صدر پاکستان کا انتخاب بھی ہو جائے گا جس کے بعد صوبائی کابینائیں اور مرکزی کابینہ کی تشکیل ہو گی۔ جس کے بارے میں زیادہ خوش فہمیاں جلد دور ہو جائیں گی ابتداء میں چھوٹی کابینہ پھر اسی انداز میں بڑھتی پھیلتی اور پھولتی جائیں گی جس طرح بسیار خوری سے پیٹ بڑھتے پھیلتے اور پھولتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں پہنچنے والے افراد کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ہے کسی زمانے میں یہاں زمیندار جاگیردار طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ 1985ء کے انتخابات کے بعد کاروباری طبقے نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی آج وہ تعداد میں زمیندار طبقے جتنی عددی طاقت رکھتے ہیں آج قومی اسمبلی میں 112زمیندار جاگیردار پہنچے ہیں جبکہ تاجروں کی تعداد 103ہے ان میں ملوں کے مالک، امپورٹ ایکسپورٹ کرنے والے، ہائوسنگ سوسائٹیوں کے مالک، ہول سیل کا کام کرنے والے، گاڑیوں کے کام سے وابستہ افراد، شپ بریکنگ، الیکٹرانکس، کپڑا بنانے اور بیچنے والے، بجلی کے کارخانے چلانے والے، سڑکوں پلوں انڈر پاسز اور تعمیراتی کام کرنے والوں کے علاوہ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو خود کچھ نہیں کرتے لیکن اتنے بارسوخ ہیں کہ ہر شخص کا رکا ہوا پھنسا ہوا کام کراتے ہیں، ایوان میں 16شخصیات کا تعلق قانون کے پیشے سے ہے۔ 7افراد کا تعلق میڈیکل پروفیشن سے ہے وہ ڈاکٹر ہیں، 4انجینئر ہیں، 3درس و تدریس سے منسلک رہے ہیں، 3گدی نشین ہیں جبکہ 4شخصیات ایسی ہیں جنہیں آپ علماء کے فہرست میں شامل کر سکتے ہیں تعداد کے اعتبار سے دیکھیں تو دو طبقات ایوان پر چھائے نظر آئیں گے ایک زمیندار و جاگیردار دوسرا کاروباری طبقہ۔ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ان کے مفادات آپس میں جڑے ہیں ان کی منفعت اور نقصان ایک ہی ہے پس اب ابہام ختم ہوئے کہ اس ایوان سے کسی قسم کی پالیسیاں سامنے آئیں گی اور آنے والا بجٹ بالخصوص مالیاتی پالیسیاں کیا ہوں گی۔
دنیا بھر میں کاروباری طبقہ ملک کی معیشت بناتا سنوارتا ہے اہل علم و فن قانون سازی کرتے ہیں جبکہ عام آدمی مزدور، ہنر مند ملک کے نکھار میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ اساتذہ نئی نسل کی تربیت کرتے ہیں اور انہیں اس قابل بناتے ہیں کہ وہ مستقبل میں نظام کی باگ ڈور سنبھال سکیں، ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمارا معاملہ بالکل مختلف ہے کاروباری طبقہ اہمیت اختیار کر چکا ہے وہ کروڑوں کا الیکشن لڑ کر اسمبلیوں میں پہنچتا ہے یہ الیکشن اگر سو کروڑ کا ہو جائے گا تو بھی اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ اپنے مال کی قیمت بڑھا رہے گا اور اپنا خرچ پورا کر لے گا وہ کوئی پالیسی پاس نہیں ہونے دے گا جس میں اس کے کاروبار پر زد پڑنے کا اندیشہ ہو، اسے پہلے خبر ہو گی کہ حکومت کسی شعبے میں کیا کرنے جا رہی ہے پس وہ اپنے کاروبار کو اس انداز میں چلائے گا جس میں منافع پر آنچ نہ آئے۔
مرکزی اور صوبائی وزارتوں کے حلف اٹھانے اور نئی دفتر و نئی گاڑیاں حاصل کرنے کے بعد پرانا راگ نئے میوزک کے ساتھ سننے کو ملے گا کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے لہٰذا سخت فیصلے کرنے پڑیں گے ستم بالائے ستم جنہوں نے روز و شب اور کئی برس کی محنت سے ملک کو نازک دور میں پہنچایا ہے وہی اس کے مستقبل کے فیصلے کرنے کے مجاز ٹھہرے۔ آج تک کوئی وزیر کوئی مشیر کوئی وزیراعظم کوئی صدر پاکستان دیوالیہ نہیں ہوا لیکن دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے ٹیکس در ٹیکس وصول کر کے بھی قرضوں کا سود ادا کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ سود ادا کرنے کیلئے قرض ادا کرنے کیلئے نیا قرض لیتے ہیں اور خوشی کی شامیانے بجاتے ہیں، آزمائے ہوئوں کو پھر آزمانے کا فیصلہ ہو چکا ہے، نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ دوسری طرف نو آموز مسلط کئے گئے ہیں وہ قوم کے ٹیکس کے پیسے سے تجربات کریں گے اور کام سیکھیں گے، ڈگری کے باوجود اپرنٹس شپ کئے بغیر انجینئر کو ہائوس جاب کئے بغیر ڈاکٹر کو گاڑی چلانے کی تربیت حاصل کئے بغیر ڈرائیونگ لائسنس نہیں ملتا لیکن بغیر کسی تربیت کے وزیر بن سکتا ہے، وزیراعلیٰ بن سکتا ہے وزیراعظم اور صدر پاکستان بھی بن سکتا ہے اگر ان سب کیلئے بھی 6ماہ کا تربیتی کورس لازم قرار دے دیا جائے گا تو شاید بہتری کی گنجائش پیدا ہو جائے، آدھا پاکستان اس کے حوالے کیا جا چکا ہے جیسے فائل اور سمری کی سمجھ آنے میں سیکھنے میں ایک سال لگے گا، صرف یہ بتانے کیلئے فائل کیا کہہ رہی ہے اس کے ساتھ دو وزیر بطور منکر نکیر لگائے گئے ہیں جو بوڑھی طوطی کو سمجھائیں گے نانی باجی کو سمجھائیں گے یوں نہیں یوں ذاتی اور خاندانی خواہشوں کی تکمیل سرکاری اور عوامی خرچ پر ہوتی رہے تو ملک دیوالیہ نہ ہو تو اور کیا ہو گا۔
کیا یہ مشکل فیصلے نہیں ہو سکتے کہ جنہوں نے ارب پتی ہونے کے باوجود اپنے قرضے معاف کرائے ان سے سود سمیت وہ قرض واپس لئے جائیں جنہیں اربوں روپے قیمت کے پلاٹ مفت میں ریوڑیوں کی طرح بانٹے گے وہ اوپن مارکیٹ میں نیلام کئے جائیں، لگژری گاڑیاں پروٹوکول مراعات اور بعد از ریٹائرمنٹ لاکھوں کی پنشن بند کی جائے اگر صرف سرکاری پروٹوکول اور مفت کا پٹرول بند کر دیا جائے تو 5ہزار ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے اس سے قرضے اتارے جائیں۔
پنجاب میں سستی روٹی تماشے پر 8ارب روپے قومی خزانے سے نکلے اور ہوا ہو گئے اب آٹا ڈرامہ شروع ہونے کو ہے یہ پیکیج ترجیحی بنیادوں پر خاص ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں جائے گا اور ملکی خزانے کو سو ارب کا ٹیکہ لگ جائے گا۔ اس سے بہتر ہے آٹے کی قیمت مارکیٹ میں کم کی جائے گھی اور چینی پر منافع کم کیا جائے تاکہ پورے پنجاب کو اس کا فائدہ ہو صرف لاہور پورا پنجاب یا پورا پاکستان نہیں، الیکشن کے نام پر بہت کچھ ہو چکا اب قوم مزید کسی المیہ ڈرامے کی متحمل نہیں ہو سکتی، ملک گیر ری ایکشن آ سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button