Editorial

پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ کا آج انتخاب

عام انتخابات کے بعد جہاں ملکی سیاست میں دھاندلی دھاندلی کا شور مچا ہوا ہے، احتجاجی سلسلے جاری ہیں، الزامات کی بوچھاڑ ہے، وہیں صوبائی سطحوں پر حکومت سازی کے مراحل بھی آگے بڑھتے دِکھائی رہے ہیں۔ جمہوریت کے تسلسل کے لیے اس کی ضرورت بھی ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد کو 18روز ہوچکے ہیں، لیکن دھاندلی کے الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مینڈیٹ چھین لینے کے الزامات دھرے جارہے ہیں۔ حالانکہ عام انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکی کہ تنہا حکومت بناسکے، اس لیے اتحادی حکومت کا قیام ہی عمل میں آسکتا ہے اور اس حوالے سے پی پی اور مسلم لیگ ن میں معاملات طے پاچکے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان میں عام انتخابات کو پُرامن اور شفاف قرار دے چکے ہیں۔ ایسے میں ’’میں نہ مانوں’’ اور اپنی ضد پر اڑے رہنے کی روش مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ اس وقت حالات حکومت بنانے والوں اور اپوزیشن میں جانے والوں، دونوں حلقوں کی جانب سے سیاسی دانش مندی، بردباری اور تدبر کا تقاضا کررہے ہیں۔ ملک و قوم کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں، جن سے نبردآزما ہونا آسان نہیں۔ اور ملک مزید کسی بحرانی کیفیت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں اپوزیشن کو اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بجائے دھاندلی کا شور مچانے کے انتخابی نتائج کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔ دوسری جانب پنجاب اور سندھ میں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان حلف اُٹھاچکے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب عمل میں آچکا، آج وزرائے اعلیٰ کا انتخاب متوقع ہے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ کے لیے مریم نواز مسلم لیگ ن کی امیدوار ہیں جب کہ سندھ کے وزیراعلیٰ کے لیے دو بار صوبائی حکومت کے سربراہ رہنے والے مُراد علی شاہ پی پی کے امیدوار ہیں۔ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کیلئے ن لیگ کے ملک محمد احمد خان کا مقابلہ سنی اتحاد کونسل کے احمد خان بھچر سے تھا۔ پنجاب اسمبلی میں اسپیکر کے انتخاب کیلئے 3 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے۔ ن لیگ کے ملک احمد خان اسپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہوگئے اور انہوں نے 224 ووٹ لیے۔ سنی اتحاد کونسل کے احمد خان بھچر نے 96 ووٹ حاصل کیے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے انتخاب میں 322 ارکان نے ووٹ کا حق استعمال کیا جبکہ 2 ووٹ مسترد ہوئے۔ ملک محمد احمد خان نے بطور اسپیکرپنجاب اسمبلی اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا اور سبطین خان نے ان سے عہدے کا حلف لیا۔ نومنتخب اسپیکر نے حلف اٹھانے کے بعد ایوان کی باقی کارروائی جاری رکھی اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کروایا۔ بعد ازاں مسلم لیگ ن کے ظہیر اقبال چنڑ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئے۔ انہوں نے ڈپٹی اسپیکر کیلئے 220 ووٹ حاصل کیے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے معین ریاض 103 ووٹ حاصل کر سکے۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے انتخاب میں 323 ارکان نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ ڈپٹی اسپیکرپنجاب اسمبلی ظہیر اقبال چنڑ نیاپنے عہدے کا حلف اٹھالیا اور اسپیکر ملک احمد خان نے ان سے عہدے کا حلف لیا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب آج (پیر 26 فروری) کو ہو گا جبکہ کاغذات نامزدگی کل بروز اتوار شام 5 بجے تک جمع کرائے جائیں گے۔ اسی طرح سندھ میں وزیراعلیٰ کا انتخاب آج متوقع ہے۔دوسری جانب اچھی اطلاعات بلوچستان اور خیبرپختون خوا سے آئی ہیں جہاں اسمبلی اجلاسوں کو 28 فروری کو طلب کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے نگران وزیراعلیٰ کی جانب سے موصول سمری پر دستخط کردئیے۔ گورنر حاجی غلام علی نے کہا کہ اسلام آباد میں تھا، گورنر ہائوس پہنچتے ہی وقت ضائع کیے بغیر سمری پر دستخط کردئیے۔ 28 فروری کو 11 بجے نو منتخب اراکین صوبائی اسمبلی اجلاس میں حلف اٹھائیں گے۔ دوسری جانب گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑ نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 28 فروری سہ پہر 3 بجے طلب کیا گیا ہے، جس میں نومنتخب ارکان حلف اٹھائیں گے۔ جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اسپیکر جان محمد جمالی نئے ارکان سے حلف لیں گے، جس کے بعد اجلاس کے سیشن میں نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا بھی انتخاب کیا جائے گا۔ یہ اطلاعات خوش آئند ہیں۔ معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔ خدا کرے کہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے انجام کو پہنچیں۔ صوبائی حکومتوں کا قیام احسن انداز میں عمل میں آئے۔ خوش کُن امر یہ کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار خاتون وزیراعلیٰ کا انتخاب عمل میں آنے کا امکان ہے۔ یہ بڑا اعزاز مسلم لیگ ن کی رہنما اور نامزد امیدوار وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو حاصل ہونے کی امید ہے۔ وہ صوبے اور اُس کے عوام کی بہتری کے لیے اپنے نیک عزائم کا اظہار کرچکی ہیں۔ وہ صوبے اور اس کے عوام کو ترقی اور خوش حالی سے ہمکنار کرنا چاہتی ہیں۔ اË کرے ایسا ہی ہو۔ اسی طرح سندھ میں وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ تیسری بار وزیراعلیٰ بننے جارہے ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین منتظم رہے ہیں۔ اسی لیے پی پی قیادت کا اوّلین انتخاب قرار پائے ہیں۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ دونوں صوبوں کے سربراہ حکومت کے انتخاب کے بعد یہ اپنے صوبے اور عوام کی بہترین کے لیے مصروفِ عمل رہیں گے۔ عوام کو خوش حالی اور ترقی کے بھرپور ثمرات پہنچائیں گے۔ عوامی مسائل کے خاتمے میں اپنا احسن کردار نبھائیں گے۔ آئندہ دنوں میں وفاقی حکومت کا قیام بھی عمل میں آئے گا۔ ان شاء اللہ حالات بہتر رُخ اختیار کریں گے۔ یہ ٹاسک مشکل ضرور ہے، لیکن مسلسل محنت اور لگن اور نیک نیتی سے کیے گئے ادامات کے ان شاء اللہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیاء ضروریہ
کی مہنگے داموں فروخت
تین دہائی قبل یوٹیلیٹی اسٹورز کا قیام غریب عوام کو مارکیٹ کی نسبت سستے داموں اشیاء ضروریہ کی دستیابی کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ ادارہ عرصہ دراز سے غریبوں کی اشک شوئی کا باعث ثابت ہوتا رہا ہے کہ یہاں عام بازاروں سے خاصے کم داموں میں اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔ آٹا، چینی، دالیں اور چاول وغیرہ سبسڈائز ریٹ پر عوام کو ملتے تھے اور اُن کو بڑی سہولت میسر آتی تھی۔ پورے ملک میں یوٹیلیٹی اسٹورز کا نیٹ ورک قائم ہے، انتہائی بڑی تعداد میں خلق خدا ان سے مستفید ہوتی چلی آئی ہے۔ اس سے اُنہیں مہنگائی سے مقابلہ کرنے کی طاقت ملتی تھی، لیکن اب یہاں اشیاء ضروریہ کے دام مارکیٹ سے بھی زائد وصول کیے جارہے ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیاء ضروریہ آٹا، چینی اور چاول عام مارکیٹ سے مہنگے داموں فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس حوالے سے نجی ٹی وی کا کہنا ہے کہ سرکاری دستاویزات کے مطابق یوٹیلیٹی اسٹورز پر 20 کلو آٹے کا تھیلا 2840 روپے میں فروخت کیا جارہا جب کہ عام مارکیٹ میں 20 کلو آٹا 2792 روپے میں دستیاب ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق سیلا چاول عام مارکیٹ کی نسبت یوٹیلیٹی اسٹورز پر 53.40 روپے مہنگا ہے، عام مارکیٹ میں سیلا چاول 317 روپے فی کلو دستیاب ہے جب کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر فی کلو سیلا چاول 370 روپے کا ہے۔ سفید چنے بھی عام مارکیٹ کی نسبت یوٹیلیٹی اسٹورز پر 13.53 روپے مہنگے فروخت کیے جارہے ہیں، مارکیٹ میں سفید چنا 391 روپے فی کلو ہے جب کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر سفید چنا 405 روپے میں دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی بھی عام مارکیٹ کی نسبت 9 روپے مہنگی بیچی جارہی ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی کی قیمت 155 روپے فی کلو ہے جو مارکیٹ میں 146 روپے کلو کے حساب سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اشیاء ضروریہ کے اتنی زائد قیمتوں پر فروخت یقیناً تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکر بھی ہے۔ اب عوام کی اشک شوئی کا باعث بننے والی سہولت بھی چھین لی گئی ہے۔ یہ غریب عوام کے ساتھ سراسر ظلم ہے، جو موجودہ مہنگائی کی صورت حال میں بہ مشکل تمام روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ اُن کے لیے ہر نیا دن کسی کٹھن امتحان سے کم نہیں۔ پچھلے پانچ، چھ برسوں کی ہولناک مہنگائی نے اُن کا سب کچھ چھین لیا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز ایسے میں بڑا سہارا تھے، اب وہ بھی چھین لیا گیا ہے۔ ضروری ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر مارکیٹ سے کم قیمتوں پر اشیاء ضروریہ کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔

جواب دیں

Back to top button