ColumnRoshan Lal

شہری حقوق کا تحفظ کیسے؟

تحریر : روشن لعل
اردو، ہندی اور پنجابی کی ملتے جلتے لفظوں میں ایک ضرب المثل ہے ’’ جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہوگا‘‘۔ اس ضرب المثل کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ جتنی محنت کی جائے گی اتنا ہی اس کا پھل ملے گا۔ جس طرح زیادہ گڑ کو زیادہ میٹھے کے ساتھ اسی طرح شہریوں کے زیادہ فرائض کو ان کے زیادہ حقوق کے ساتھ جوڑا جاتا ہے ۔ وطن عزیز میں شہریوں کی بہت بڑی تعداد کا یہ رویہ ہے کہ وہ زیادہ گڑ ڈالے بغیر زیادہ سے زیادہ میٹھا، محنت کیے بغیر زیادہ سے زیادہ پھل اور کچھ بھی خرچ کیے بغیر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح یہاں واجب فرائض پورے کیے بغیر زیادہ سے زیادہ شہری حقوق کی تمنا بھی کی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں شہری حقوق کا براہ راست تعلق شہریوں کے فرائض سے جوڑا جاتا ہے۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ اگر شہریوں کی کثیر تعداد غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فرائض سے غافل رہے تو ریاست کے لیے انہیں شہری حقوق کی کما حقہ فراہمی ناممکن ہو جاتی ہے۔ شہریوں کے رویے غیر ذمہ دارانہ ہونے پر جو کام دنیا میں ناممکن تصور کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں اسے ہر صورت میں ممکن بنانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں عام لوگوں کے رویے ہمیشہ غیر ذمہ دارانہ نہیں تھے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے دیہی سماج میں ایک دوسرے کا احساس کرنے کا جذبہ کسی بھی دوسرے سماج کے لوگوں سے کم نہیں تھا۔ دیہی سماج میں صدیوں تک ایسا اخلاقی نظام رائج رہا جس میں ہر فرد کا غم سب کا غم اور ہر کسی کی خوشی سب کی خوشی ہوا کرتی تھی ۔ پہلے یہاں ہندوستان کی تقسیم کے وقت کئی ملین لوگوں کی ہجرت کی وجہ سے ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی ہوئی اور اس کے بعد دیہاتوں سے شہروں کی طرف لوگوں کی تیز رفتار نقل مکانی کا آغاز ہوا۔ لوگ کثیر تعداد میں خود تو دیہاتوں سے شہروں میں منتقل ہو گئے مگر دیہی سماج میں صدیوں سے رائج اخلاقی روایات کو ساتھ لانے کی بجائے اپنے آبائی علاقوں میں چھوڑ آئے۔ دیہی سماج کی سادہ زندگی میں جن چند سہولتوں کا انحصار امداد باہمی پر ہوتا ہے شہروں میں اسی نوعیت کی سہولتوں کی وسیع پیمانے پر فراہمی کی ذمہ داری سرکاری اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ دنیا کے اکثر ملکوں کے برعکس ہمارے شہروں میں دستیاب سہولتوں کی فراہمی میں کوئی ذاتی کردار ادا کیے بغیر زیادہ تر لوگ انہیں اجتماعی ملکیت کے تصور اور احساس سے عاری ہو کر استعمال کرتے ہیں۔ جس احساس سے عاری ہو کر ہمارے ہاں عام لوگ شہری سہولتیں استعمال کرتے ہیں اس کے لیے دنیا میں (Civic Sense)شہری تہذیب کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ سوک سینس کا تعلق ایسی اخلاقی قدروں سے ہے جن پر عمل سے جیو اور جینے دو جیسے جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔ جس علاقے کے لوگ جیو اور جینے دو کے اصول کے تحت زندگی گزارتے ہیں اس کا تشخص یوں بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں رہنے والے لوگوں کی سوک سینس کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ سوک سینس کے اعلیٰ معیار کا تقاضا ہے کہ شہری ریاستی قانون اور اس سے متعلق اخلاقی قدروں کا احترام کریں، خود پر عائد ہر قسم کا ٹیکس بروقت ادا کریں، ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے خود پر عائد ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں اور شائستگی کو ہر صورت میں اپنا شعار بنائیں۔
جن علاقوں کے لوگوں میں سوک سینس ہوتی ہے وہاں صرف ان کے ذاتی گھر ہی صاف ستھرے اور خوبصورت نظر نہیں آتے بلکہ گھر کے باہر کا ماحول بھی ہر قسم کی آلودگی سے پاک دکھائی دیتا ہے۔ جس سماج کے شہری اپنے پیدا کردہ کچرے کو مناسب جگہ ٹھکانے لگانے کی بجائے گلی میں یا کسی ایسی جگہ پھینکنے کے عادی ہوں جہاں ان جیسے لوگوں کے پہلے سے پھینکے ہوئے کچرے کے پہاڑ قائم ہو چکے ہوں ، کیا ایسے سماج کے متعلق سوچا جاسکتا ہے کہ وہاں سوک سینس نام کی کوئی شے موجود ہوگی۔ جہاں ہسپتالوں اور ایسی ہی دیگر عمارتوں میں واضح نظر آنے والے کوڑے دانوں کی موجودگی کے باوجود لوگ سیڑھیوں کے کونوں اور دوسری جگہوں پر پان کی پیک ، تھوک اور استعمال شدہ اشیا کے خالی پیکٹ پھینکنے کے عادی ہوں اس سماج کے لوگ سوک سینس سے کیسے آشنا ہو سکتے ہیں۔ سوک سینس رکھنے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ لوگ گندگی نہ پھیلائیں بلکہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کی ذاتی زندگی میں مداخلت سے اس حد تک گریز کیا جائے کہ انہیں کسی طرح بھی یہ نہ لگے کہ ان کی شخصی آزادیوں کا احترام نہیں کیا جارہا۔ جس طرح کسی پبلک پارک یا عوامی استعمال کی دیگر جگہوں پر کچرا پھینکنے سے گریز کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کے جانے کے بعد وہاں جو لوگ بھی آئیں، ان کی طبیعت ارد گرد پھیلی گندگی دیکھ کر مکدر نہ ہو اسی طرح کسی کے ذاتی معاملات میں مداخلت سے گریز سے یہ مراد ہے کہ ان کے لیے کسی قسم کی پریشانی یا اضطراب کے اسباب پیدا نہ کئے جائیں۔ ہمارے ہاں ماحول کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذاتی معاملات میں بلاوجہ مداخلت کر کے ان کی زندگیوں کو پراگندہ کرنے کے مظاہر بھی عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ المیہ یہ ہی کہ یہاں لوگ نہ صرف دھڑلے سے یہ غیر مہذب کام کرتے ہیں بلکہ انہیں کرنا اپنا ایسا حق سمجھتے ہیں جس پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکتا ہو۔ یہاں سوک سینس سے عاری لوگ قطار بنانے یا قطار میں کھڑا ہونے کو سب سے زیادہ ناپسند کرتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کا یہ رویہ ہے کہ وہ کسی قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے کو اپنی شان کے خلاف کام سمجھتے ہیں۔ دوسروں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے قطار میں کھڑے ہو کر جتنا وقت صرف ہوتا ہے ، ہمارے نوجوان اس سے زیادہ وقت قطار میں کھڑا ہونے سے بچنے کے لیے سفارشیں ڈھونڈنے میں ضائع کر دیتے ہیں۔
سوک سینس سے عاری جن غیر مہذب رویوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے حامل لوگ نہ صرف پہلے ہی یہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سوک سینس سے عاری لوگ اپنے رویوں میں تو کوئی تبدیلی نہیں لانا چاہتے مگر خواہش ان کی یہ ہے انہیں ہر حال میں یورپ اور امریکہ جیسی شہری سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس سے بھی المناک بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا کلچر اس حد تک فروغ پا چکا ہے کہ یہاں ہر کوئی اندھا دھند اس کی پیروی میں مصروف نظر آتا ہے۔ اگر یہ صورتحال اسی طرح برقرار رہی تو پھر اقربا پروری، رشوت اور سفارش کے بل پر بھی یہاں کسی کا کام ہونا ممکن نہیں رہے گا۔ ایسا ہونے سے پہلے اگر دوسروں کا حق غصب کرنے کا کلچر چھوڑ کر جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے حقوق کا مطالبہ کرنے کے ساتھ فرائض کی ادائیگی کو بھی اپنی ترجیح بنا لیا جائے تو ہم اپنے ان تمام تر شہری حقوق کا تحفظ ممکن بنا سکتے ہیں جن کا حصول زیادہ تر ہمارے اپنے رویوں کی وجہ سے ناممکن ہو تا جارہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button