سپیشل رپورٹ

انڈین کمپنی ٹاٹا کی مالیت پاکستان کی جی ڈی پی سے بھی زیادہ کیسے ہوئی؟

بچپن میں ایک کہاوت سنی تھی کہ انسانوں میں ناٹا، جوتوں میں باٹا اور سامان میں ٹاٹا بہت مضبوط ہیں۔

اس میں کتنی صداقت ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن گذشتہ دنوں انڈین میڈیا میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹاٹا گروپ آف کمپنیز کی کل مالیت 365 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جو کہ اسے انڈیا کی سب سے طاقتور کمپنی تو بناتی ہی ہے ساتھ ساتھ اس کی مالیت پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) سے کہیں زیادہ ہے۔

آپ آئے دن یہ سنتے آ رہے ہوں گے کہ ریلائنس گروپ کے سربراہ مکیش امبانی دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہو گئے یا پھر ارب پتی تاجر گوتم ادانی نے ان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ لیکن ان میں آپ کو ٹاٹا کا ذکر سننے میں نہیں آتا ہے۔

ٹیٹلی چائے سے لے کر جیگوار لینڈ روور کار اور نمک بنانے سے لے کر طیارہ اڑانے اور ہوٹلوں کا گروپ قائم کرنے تک زندگی کے مختلف شعبوں میں ٹاٹا کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔

انڈین میڈیا کے مطابق ٹاٹا گروپ کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن فروری سنہ 2024 میں تقریبا 365 ارب ڈالر رہی جبکہ حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کی جی ڈی پی کا تخمینہ تقریباً 341 ارب ڈالر لگایا ہے۔

اگر صرف ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کی بات کی جائے تو اس کی مالیت 170 ارب امریکی ڈالر ہے جو کہ انڈیا کی دوسری سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اس کی مالیت پاکستان کی معیشت کا تقریباً نصف ہے۔

بہر حال یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا ہے۔ اس کے لیے ڈیڑھ سو سال سے زیادہ کا عرصہ لگا لیکن یہ کئی شعبہ ہائے زندگی میں ہندوستان کی پہلی کمپنی رہی ہے۔

8 فروری سنہ 1911 میں لوناوالا ڈیم کا سنگ بنیاد ڈالتے ہوئے اس وقت کے ٹاٹا گروپ کے سربراہ سر دوراب جی ٹاٹا نے اپنے والد جمشید جی ٹاٹا کے نظریات کے بارے میں بات کی تھی جنھوں نے سنہ 1868 میں اس کمپنی کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ اب دس ورٹیکلز کے ساتھ 30 کمپنیوں کا گروپ ہے اور چھ بر اعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہے۔

دوراب جی ٹاٹا نے کہا تھا: ’میرے والد کے لیے دولت کا حصول صرف ایک ثانوی چیز تھی۔ وہ اس ملک کے لوگوں کی صنعتی اور فکری حالت کو بہتر بنانے کو اولیت دیتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں وقتاً فوقتاً جن مختلف اداروں کو شروع کیا، ان کا بنیادی مقصد ہندوستان کی ان اہم پہلوؤں میں ترقی تھا۔‘

کمپنی کی ویب سائٹ پر ان کے مشن کے طور پر یہ درج ہے کہ ان کمپنیوں کا قیام دنیا بھر میں ’مختلف برادریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔‘

کہا جاتا ہے کہ انیسویں صدی کے آخر میں ٹاٹا کے بانی جمشید جی ٹاٹا کو ممبئی کے ایک مہنگے ہوٹل میں ان کی رنگت کی وجہ سے داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

جمشید جی پر اس واقعے کا بہت گہرا اثر ہوا اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ہوٹل سے بہتر ہوٹل بنائیں گے جس میں ہندوستانی شہریوں کو بھی آنے کی اجازت ہو گی۔

اس طرح سنہ 1903 میں ممبئی کے ساحل پر تاج ہوٹل کا قیام عمل میں آیا۔ یہ شہر کی پہلی عمارت تھی جس میں بجلی، امریکن پنکھے اور جرمن لفٹوں جیسی سہولیات فراہم کی گئی تھیں اور اس میں انگریز خانسامے کام کرتے تھے۔ اب اس کی شاخیں انڈیا، امریکہ اور برطانیہ سمیت نو ممالک میں ہیں۔

جمشید جی سنہ 1839 میں ایک پارسی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد میں کئی زرتشت مذہب کے مذہبی پیشوا تھے۔

انھوں نے کپاس، چائے، تانبے، پیتل اور افیون (جس کا کاروبار اس وقت غیر قانونی نہیں تھا) میں خوب پیسہ بنایا۔

وہ ایک جہاں گرد شخص تھے اور نئی ایجادات سے کافی متاثر ہوتے تھے۔

برطانیہ کے ایک دورے کے دوران لنکاشائر میں کپاس کی مِلوں کے مشاہدے سے انھیں یہ احساس ہوا کہ ہندوستان اس کاروبار میں اپنے نوآبادیاتی آقاؤں کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے۔

لہٰذا سنہ 1877 میں جمشید جی نے ’مہارانی ملز‘ کے نام سے ملک کی پہلی ٹیکسٹائل مل کھولی۔ مہارانی مل کا افتتاح اسی روز ہوا جس دن ملکہ وکٹوریا کی ہندوستان میں ملکہ کے طور پر تاج پوشی ہوئی تھی۔

جمشید جی کے ہندوستان کی ترقی کے لیے نظریے کو ہندی لفظ ’سودیشی‘ سے سمجھا جا سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ’اپنے ملک میں بنا ہوا‘ ہے اور یہی خیال انیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا حصہ تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’کسی قوم کی ترقی کے لیے کمزور ترین اور سب سے زیادہ بے بس لوگوں کو سہارا دینے کے بجائے ضروری ہے کہ سب سے زیادہ لائق اور خداداد قابلیت کے حامل لوگوں کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے ملک کی خدمت کر سکیں۔‘

ان کا سب سے بڑا خواب سٹیل کا کارخانہ بنانا تھا لیکن وہ اس خواب کی تعبیر سے پہلے ہی وفات پاگئے لیکن پھر ان کے بیٹے داروب جی نے ان کی وفات کے بعد اپنے والد کا خواب پورا کیا اور سنہ 1907 میں ’ٹاٹا سٹیل‘ نے پیداوار شروع کر دی۔ اور اس طرح ہندوستان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا جہاں سٹیل کا کارخانہ تھا۔

اس کارخانے کے گرد ایک شہر آباد ہوا جسے جمشیدپور کا نام دیا گیا اور یہ آج انڈیا کی سٹیل سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جمشید جی نے اپنے بیٹے دوراب کو خط کے ذریعے ایک صنعتی شہر آباد کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ’اس شہر کی سٹرکیں کشادہ ہونی چاہییں، اس میں درخت، کھیلوں کے میدان، پارک اور مذہبی عبادت گاہوں کے لیے بھی جگہ مخصوص ہونی چاہیے۔’

ٹاٹا نے کسی قانونی پابندی کے بغیر خود ہی اپنے ملازمین کی بہبود کے لیے پالیسیاں متعارف کرائیں جن میں 1877 میں پینشن، 1912 میں آٹھ گھنٹے کام کے اوقات اور 1921 میں ماں بنے والی خواتین کے لیے مراعات شامل ہیں۔

ٹاٹا خاندان کے ایک اور فرد جہانگیر ٹاٹا سنہ 1938 میں 34 سال کی عمر میں کمپنی کے چیئرمین بنے اور تقریبا نصف صدی تک اس عہدے پر فائز رہے۔

انھیں صنعت کار بننے سے زیادہ پائلٹ بننے کا شوق تھا جو انھیں ’لوئیس بلو رائٹ‘ سے ملنے کے بعد پیدا ہوا تھا جو رودبارِ انگلستان کے اس پار پرواز کرنے والے پہلے پائلٹ تھے۔

جے آر ڈی ممبئی فلائنگ کلب سے ہندوستان میں پائلٹ کی تربیت مکمل کرنے والے پہلے شخص تھے۔ ان کے ہوائی لائسنس کا نمبر 1 تھا جس پر ان کو بہت فخر تھا۔

انھوں نے ہندوستان کی پہلی ہوائی ڈاک سروس شروع کی اور اکثر ڈاک کے ساتھ مسافر کو بھی لے جاتے تھے۔

بعد میں یہ ہی ڈاک سروس انڈیا کی پہلی ایئر لائن ’ٹاٹا ایئرلائن‘ بن گئی جس کا کچھ عرصے بعد نام بدل کر ’ایئر انڈیا‘ کر دیا گیا۔

لیکن ایک بار پھر اس نے اس کمپنی کو حکومت سے خرید لیا ہے۔ ایئر انڈیا کے حصول کے بعد اب ’ٹاٹا سنز‘ کے پاس تین ایئر لائنز ہیں۔ ’ایئر وسٹارا‘ جس میں ان کی ’سنگاپور ایئر لائنز‘ کے ساتھ شراکت ہے اور وہ ’ایئر ایشیا‘ میں ملائیشیا کے ساتھ شراکت دار ہیں۔

ایئر انڈیا کے حصول پر ٹاٹا سنز کے چیئرمین این چندرشیکرن نے اکتوبر سنہ 2021 میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے اسے ایک ’تاریخی لمحہ‘ قرار دیا اور کہا کہ ملک کی نمایاں ایئر لائنز کا مالک ہونا فخر کی بات ہے۔

چندرشیکرن نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا: ’ہماری کوشش ہو گی کہ ایک عالمی معیار کی ایئرلائن چلائی جائے جس پر ہر انڈیا کو فخر ہو۔‘ انھوں نے کہا کہ ’مہاراجہ کی واپسی جے آر ڈی ٹاٹا کو حقیقی خراج تحسین ہو گی جنھوں نے ہندوستان میں ہوا بازی کا آغاز کیا۔‘

حکومت ہند نے اس سے قبل ٹاٹا گروپ کے سربراہ جے آر ڈی ٹاٹا کو ایئر انڈیا کا چیئرمین بنا دیا اور وہ 1978 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے بعد سے اس پر حکومت ہند کے عہدیداران فائز رہنے لگے۔

1968 میں انھوں نے اپنے خاندان کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسے کاروبار کا آغاز کیا جو ترقی یافتہ ممالک سے منسوب کیا جاتا تھا یعنی کمپیوٹر سے متعلقہ کاروبار۔

’ٹاٹا کینسلٹنسی سروسز‘ یا ’ٹی سی ایس‘ نامی یہ کمپنی دنیا بھر میں سافٹ ویئر سپلائی کرتی ہے، اور یہ اس وقت بھی ٹاٹا گروپ میں سب سے زیادہ منافح بخش کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

1991 میں ان کے ایک دور کے رشتہ دار رتن ٹاٹا نے کمپنی کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی قیادت میں ٹاٹا نے دنیا بھر میں اپنے کاروبار کو بڑھایا۔ ٹاٹا نے ٹیٹلی چائے، اے آئی جی انشورنس کمپنی، بوسٹن میں رٹز کارلٹن، ڈائیوو کی بھاری گاڑیاں بنانے والا یونٹ اور کورس سٹیل یورپ جیسی کمپنیاں خریدیں۔

ٹاٹا سنز ٹاٹا کمپنیوں کی بنیادی سرمایہ کاری ہولڈنگ کمپنی اور پروموٹر ہے۔ ٹاٹا سنز کے ایکویٹی شیئر کیپٹل کا 66 فیصد مخیر حضرات کے پاس ہے جو تعلیم، صحت، ذریعہ معاش پیدا کرنے اور فن و ثقافت کو سپورٹ کرتے ہیں۔

ہم نے ٹاٹا کمپنی کارپوریٹ کمیونیکیشن سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہ ہو سکی۔ اگرچہ ٹاٹا کمپنی نے ابھی تک کمپنی کی مالیت کے اعداد و شمار پیش نہیں کیے ہیں لیکن 31 جولائی سنہ 2023 تک انھوں نے اپنی مالیت 300 ارب ڈالر بتائی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ کمپنی میں دنیا بھر میں دس لاکھ سے زیادہ ملازمین کام کرتے ہیں۔

کمپنی کے مطابق ہر ٹاٹا کمپنی یا انٹرپرائز اپنے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی رہنمائی اور نگرانی میں آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔

ہم نے ٹاٹا کی مثالی کامیابی کے بارے میں ماہر معاشیات شنکر ایير سے بات کی تو انھوں نے کہا امبانی یا اڈانی کا نام اس لیے آتا ہے کہ ان کی کمپنیاں شخصی ہیں جبکہ ٹاٹا مختلف کمپنیوں کا مجموعہ ہے اور ایک ٹرسٹ کے تحت چلتا ہے اس لیے اس کا ذکر اس انداز میں نہیں ہوتا ہے۔

انھوں نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ وہ کارپوریٹ دنیا میں اس طرح کے موازنے کو درست نہیں مانتے ہیں لیکن ٹاٹا کمپنی انڈیا میں کئی معاملوں میں روح رواں کی حیثیت رکھتی ہے۔

توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنی جی ای انڈیا میں آلسٹوم انڈیا کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر اور اب ہایوسنگ انڈیا لمیٹڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹ ناگیش تلوانی نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا: ’ٹاٹا کی ترقی کی بڑی وجہ اس کا اخلاقی، منصفانہ اور شفاف طرز عمل ہے جو ملازمین کے ساتھ مضبوط رابطہ پیدا کرتا ہے ان کے ساتھ عہد کو پورا کرتا ہے۔‘

پُونے سے فون پر بات کرتے ہوئے مسٹر تلوانی نے چند نکات کے ساتھ ٹاٹا کی خصوصیت بیان کی۔ ان کے مطابق ٹاٹا کا سرمایہ کاری کی طرف واضح نقطہ نظر اور واضح حکمت عملی ہے اور اس کی بہترین مثال سٹاربکس، کروما کانسیپٹ، جیگوار برانڈ وغیرہ کو حاصل کرنا ہے۔

وہ کسی ’بکواس‘ نقطہ نظر سے پرہیز کرتے ہیں اور ان کی خاموشی کے ساتھ بغیر کسی شور شرابے کے پوری توجہ سے کام کرنے کی کوشش رہتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے ذریعے برانڈ کی باشعور پوزیشننگ کی ہے جس کی وجہ سے ملک بھر کے صارفین ان سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ برانڈ قابل اعتماد اور ایماندار ہے۔‘

مسٹر تلوانی نے کہا کہ ان کی ترقی کا ’ایک اور اہم نکتہ جذباتی اور غیر معقول کاروباری فیصلوں سے بچنا اور خطرے کو متوازن کرنے کے لیے پورٹ فولیو میں تنوع اور انتہائی واضح گورننس کا عمل ہے۔‘

ان کے پاس سپلائی چین کا مؤثر نظام ہے اور وہ اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود کا پورا خیال کرتے ہیں۔

ٹاٹا پاور میں نئی دہلی کے پروجیکٹ مینجر وویک ناراین نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شروع میں جیگوار کو لینے کے فیصلے کو مارکیٹ میں اچھا فیصلہ قرار نہیں دیا جا رہا تھا لیکن بعد میں یہ بہت کامیاب ثابت ہوا۔‘ اسی طرح ابھی حال ہی میں ٹاٹا نے انڈین ایئرلائنز کو واپس حاصل کیا ہے لیکن ابھی اس کی سمت و رفتا کا خاکہ پیش کرنا مشکل ہے۔

انھوں نے کہا کہ ٹاٹا کی کامیابی کا ضامن اس کا متنوع ہونا ہے اور جس شعبے میں بھی وہ کام کرتا ہے اس میں مثبت ماحول لانے کی کوشش کرتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button