ColumnRoshan Lal

سیاسی عمل اور بلاول کا تعاون

روشن لعل
کسی بھی ملک میں جاری سیاسی عمل کی بنیاد وہاں کی سیاسی قیادت اور رائے عامہ میں تعامل ہوتا ہے۔ جمہوری ملکوں میں عام انتخابات کے انعقاد کو رائے عامہ کے اظہار کا سب سے بڑا موقع تصور کیا جاتا ہے۔ عام انتخابات کے دوران عوام اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ آنے والے ماہ و سال میں وہ کس سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کو اپنی ریاست کے معاملات سونپنا چاہتے ہیں۔ یوں عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے سیاستدانوں کو ریاستی امور نمٹانے کے لیے آئین میں طے شدہ مدت تک اقتدار سونپ دیا جاتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ آنے والے ماہ و سال میں پاکستانی عوام کس سیاسی رہنما یا جماعت کے ہاتھ میں ریاست کی باگ ڈور دینا چاہتے ہیں ، یہاں آٹھ فروری کو عام انتخابات منعقد ہوئے۔ آٹھ فروری کے عام انتخابات میں پاکستانی عوام نے مجموعی طور پر کسی ایک جماعت کے حق میں فیصلہ دینے کی بجائے منقسم رائے کا اظہار کیا۔ گو کہ ہیت مقتدرہ پر عوامی رائے میں ملاوٹ کرنے کا الزام لگ چکا ہے مگر پھر بھی ملاوٹ کا الزام لگانے والی تحریک انصاف اور دوسرے نمبر پر آنے والی مسلم لیگ ن نے عوام کی منقسم رائے کو اپنی اپنی جیت قرار دے کر ملک پر حکمرانی کی دعویداری کر دی۔ میڈیا کے کئی مبینہ جغادری صحافیوں نے مسلم لیگ ن کی حکمرانی کے دعوے کو پیپلز پارٹی کے ساتھ ملی بھگت کا نتیجہ قرار دے کر یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان آدھی آدھی مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ بانٹ کر اتحادی حکومت قائم کرنے کا معاہدہ طے پا چکا ہے ۔ اس قسم کے پراپیگنڈا کے دوران مختلف ٹی وی چینلوں نے بلاول بھٹو زرداری کی اپنی انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقریروں کے وہ کلپ نشر کرنا شروع کر دیئے جن میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے مسلم لیگ ن سے مل کر اتحادی حکومت قائم کرنے کو خارج ازامکان قرار دیا تھا۔ مختلف ٹی وی چینلوں پر نہ صرف بلاول کی تقریروں کے مذکورہ کلپ چلائے گئے بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ بلاول اب کس منہ سی مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحادی حکومت قائم کریں گے۔ کسی مصدقہ خبر کو بنیاد بنائے بغیر کئی مبصر اپنے تبصروں میں مذکورہ پراپیگنڈے پر اندھا دھند توانائیاں صرف کرنے میں مصروف تھے کہ بلاول نے پریس کانفرنس کر کے ان مبصروں کو بے جا زور آزمائی سے روک دیا۔ بلاول نے اپنی پریس کانفرنس میں مذکورہ پراپیگنڈا کرنے والوں پر واضح کیا کہ پی پی پی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلے کے مطابق پیپلز پارٹی کسی اتحادی حکومت میں وزارتیں نہیں لے گی بلکہ مسلم لیگ ن کی قیادت میں جو اتحادی حکومت بنے گی اسے ملک کے وسیع تر مفاد میں صرف اعتماد کا ووٹ دے گی۔
بلاول نے اپنی پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحادی حکومت کا حصہ نہ بننے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کہا جس پر ان سے کئی سوالات بھی کیے گئے جن میں سے کچھ بہت اہم تھے۔ اس پریس کانفرنس کے بعد میڈیا پر گرو بنے بیٹھے وہ لوگ جو ن لیگ اور پی پی پی کی اتحادی حکومت بننے کے مفروضے کو یقینی بنا کر پیش کر رہے تھے انہوں نے بلاول سے پوچھے گئے اہم سوالوں پر کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسائل میں گھرے ہوئے پاکستان کی تمام تر ذمہ داری مسلم لیگ ن کے کندھوں پر ڈال کر پیپلز پارٹی نے راہ فرار اختیار کر لی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ کیونکہ حالیہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو بلیک میلنگ کی پوزیشن حاصل ہو چکی ہے اس لیے وہ جب چاہے گی مسلم لیگ ن کی قیادت میں بننے والی اتحادی حکومت کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لے گی۔ گوکہ آنے والے وقت میں پیپلز پارٹی کی طرف سے مبینہ اتحادی حکومت کی حمایت سے دست برداری کو ناممکن قرار نہیں دیا جاسکتا مگر ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر جو لوگ ایسا ہونا ممکن قرار دے رہے انہیں عوام کو یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ ماضی میں جب بھی پی پی پی اور ن لیگ قریب آئے تو بعد ازاں ان کے دور ہونے کی کیا وجوہات تھیں اور کس سیاسی جماعت کی موقع پرستی اور بے اعتنایوں کی وجہ سے نزدیکیاں دوریوں میں تبدیل ہوتی رہیں۔ اس حوالے سے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 2008سے 2013تک قائم رہنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کو مسلم لیگ ن کی قیادت نے جس حد تک ممکن تھا نقصان پہنچایا لیکن بعد ازاں بننے والی نوازشریف کی حکومت جب عمران خان نے دھرنا دے کر غیرجمہوری طریقے سے گرانا چاہی تو پیپلز پارٹی نے ماضی کی تلخیاں فراموش کرتے ہوئے ن لیگ کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر غیر مشروط تعاون فراہم کیا ۔ اس کے بعد جب نواز حکومت نے اپنے قدم مضبوط ہونی پر آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کیس بنانے شروع کر دیئے تو پھر پانامہ پیپر سکینڈل کے دوران پیپلز پارٹی نے ن لیگ حکومت کو کندھا دینے کی بجائے اپنے ماضی کے برعکس رویہ اختیار کیا۔ اس کے بعد میاں نوازشریف اور ن لیگ کی بے اعتنایوں کے جواب میں پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری نے نہ صرف بلوچستان میں ن لیگ اور اس کی صوبائی حکومت کی شکست و ریخت میں حصہ لیا بلکہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں عمران خان کے ساتھ مل کر مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکست سے بھی دوچار کیا۔
ماضی کی مذکورہ مثال یہاں پیش کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ سیاسی عمل کے دوران کوئی بھی واقعہ بلاوجہ رونما نہیں ہوتا بلکہ اس کا کوئی نہ کوئی پس منظر ضرور ہوتا ہے۔ کوئی بھی مبصر کسی سیاسی پارٹی یا سیاسی شخصیت کے متعلق کسی بھی قسم کے خدشات ظاہر کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ اس حق کا استعمال کرتے ہوئے یہ احتیاط کرنا ضروری ہے کہ جب بھی کسی سیاسی شخصیت یا سیاسی جماعت کے متعلق کوئی خدشہ ظاہر کیا جائے تو ساتھ میں یہ بھی بتایا جائے کہ خدشے کی وجہ اس شخصیت یا جماعت کا ماضی میں ادا کیا گیا کونسا کردار ہے۔
پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کا ماضی یہ ہے کہ جب نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں 58ٹو بی ختم کرنے کے لیے 14ویں آئینی ترمیم پیش کی تو پیپلز پارٹی کے غیر مشروط تعاون کی وجہ سے اس ترمیم کی پارلیمان سے متفقہ منظوری ممکن ہوئی۔ اسی طرح مشرف دور میں پیپلز پارٹی نے دوسری اپوزیشن جماعتوں کے برعکس اسمبلی میں پیش کردہ تحفظ حقوق نسواں بل کی غیر مشروط حمایت کی۔ مشرف حکومت میں پیپلز پارٹی نے اس وقت کلثوم نواز کا ساتھ دیا جب مسلم لیگیوں کی اکثریت کے ساتھ چھوڑنے کی وجہ سے وہ تنہا احتجاج کرنے پر مجبور ہوئی تھیں۔ ہر سیاسی جماعت کی طرح ن لیگ کا بھی ایک ماضی ہے جو پیپلز پارٹی سے قدرے مختلف ہے۔
اس بات میں دو رائے نہیں کہ آنے والے دنوں میں صرف پیپلز پارٹی کے پاس یہ آپشن موجود ہوگا کہ وہ جب چاہے ن لیگ کی قیادت میں بننے والی مجوزہ اتحادی حکومت کی حمایت واپس لے کر اس کا خاتمہ کر دے مگر پیپلز پارٹی کے ماضی کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلاول نے سیاسی عمل جاری رکھنے کے لیے ن لیگ کو جس تعاون کی پیش کش کی ہے وہ اسے بلاوجہ واپس نہیں لیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button