Column

مہنگائی کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ!

ضیا الحق سرحدی
وطن عزیز کے عوام گزشتہ کئی برسوں سے گرانی کے عذاب کو بھگت رہے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مہنگائی میں مزید شدّت آتی چلی جا رہی ہے۔ ویسے تو ہر ماہ ہی گرانی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یوں عوام کے لیے زیست کو دُشوار بنا دیا گیا ہے۔ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات تو کئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا جوکہ افسوسناک امر ہے پشاور سمیت ملک بھر میں مہنگائی نے غریب عوام کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ انتظامیہ کے تمام تر دعووں کے باوجود سبزی اور گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر فعال ہونے کی وجہ سے اسسٹنٹ کمشنرز اور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرز کی جانب سے دھاپے بھی محض چند مقامات تک محدود ہیں جس کے باعث مہنگائی قابو میں نہیں آ رہی ہے جبکہ حکومت بار بار مجسٹریسی نظام لانے کا کہہ رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک حکومت اس میں بُری طرح نا کامیاب ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مجسٹریسی نظام کو ماضی کی طرح فعال کیا جائے، حالانکہ میں نے اپنے کالموں کی انہی سطور میں کئی بار مجسٹریسی نظام کو دوبارہ شروع کرنے کا ذکر کیا تھا۔ دکاندار اپنے من پسند نرخوں پر اشیاء خور و نوش فروخت کر رہے ہیں مہنگائی سے پریشان شہریوں نے انتظامیہ کی کارروائیوں اور جرمانے کے اعداد و شمار کو خانہ پوری قرار دیا ہے منافع خوروں کے سامنے پوری انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب غریب اور مڈل کلاس طبقے کیلئے سبزی خریدنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق ماہ جنوری میں مہنگائی میں 1.8فیصد اضافہ ہو گیا۔ سالانہ شرح 28.3فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2فیصد دیہی علاقوں میں 25.7فیصد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73فیصد رہی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں چکن 31.44فیصد مہنگا ہوا، ٹماٹر 28فیصد، پیاز 28فیصد اور انڈے 17 فیصد ملے ہوئے۔ ادارہ شماریات کے مطابق سبزیاں 8.31فیصد، دال چنا 7.63 فیصد، چائے 5فیصد مہنگی ہوئی، ٹرانسپورٹ کرایوں میں پندرہ فیصد، گارمنٹس میں6.84فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، بجلی 6.85فیصد مہنگی ہوئی۔ سالانہ بنیاد پر ٹماٹر 154فیصد، سگریٹس 98فیصد مہنگے ہوئے، ایک سال میں گیس کی قیمتوں میں 520فیصد اضافہ ہوا، اس دوران بجلی ٹیرف میں 70فیصد اضافہ ہوا، سالانہ بنیاد پر ٹرانسپورٹ کرائے 41 فیصد بڑھ گئے۔ وزیر اعظم اب بھی کہ رہے ہیں کہ’’ ہم عوام کی بھلائی کے لئے کام کرتے رہیں گے‘‘۔ کاش کوئی اس موقع پر سوال اٹھا تا اور وزیر اعظم سے پوچھتا کہ وہ کس ملک کے شہریوں کی بات کر رہے ہیں، کیونکہ پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لئے تو انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نگران تو اب اپنا ساز ور لگا کر چلتے بنے ، اب نئی آنے والی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے عوام کو مہنگائی سے نجات دلوائے اور مہنگائی کو کنٹرول کرے۔ مہنگائی کنٹرول کرنا اور معیشت کو سنبھالا دینا اگر کوئی چاہے تو کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں اشرافیہ کی 17ارب ڈالر کی عیاشیاں ختم کر دی جائیں تو آئی ایم ایف یا کسی بھی دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو متذکرہ مجموعی تناظر میں ایک ٹھوس میکنزم بنانے کی ضرورت ہے جس سے مہنگائی اور خوراک کے عدم تحفظ سے دو چار غریب طبقے کو دو وقت کی روٹی میسر آ سکے۔ اسی طرح مارکیٹ سے بعض ادویات کی قلت کی شکایات بھی ہیں، ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے۔ اس وقت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والا طبقہ معاشی طور پر جس ناگفتہ بہ صورت حال سے دوچار ہے اس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔ ان حالات میں حکومت اگر مہنگائی پر قابو نہ پاسکی تو انتہائی غریب لوگوں کے لئے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ مہنگائی کی اس لہر سے عوامی سطح پر پریشانی پیدا ہوگی اور پہلے سے کمزور قوت خرید رکھنے والے عوام کے لئے ضروریات زندگی کو پورا کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ عوام میں موجود بے چینی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے، اگر اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو خطرہ موجود ہے کہ حکومت اور حکومتی پارٹی کی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اس وقت ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی بھی ادارہ اور کوئی بھی ذمہ دار اپنے فرائض منصبی پوری دلجمعی کے ساتھ ادا نہیں کر رہا، ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی ہے اور  لاس د بری کار دے والا معاملہ ہے، جس کا جو جی چاہے وہ کر رہا ہے۔ عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ حکومتی سطح پر ان کی کوئی شنوائی نہیں اور نہ ہی کسی کو عوامی مسائل کی پرواہ دکھائی دیتی ہے، تمام سرکاری محکموں کابرا حال ہے،یہ سوچ ایک خطرناک رجحان اور عوام سے حکومتی ذمہ داران کے درمیان فاصلوں کو ظاہر کرتی ہے، جسے ختم نہ کیا گیا تو حکومت کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس سے ہر حال میں بچنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button