Column

پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا بلوچستان میں انعقاد و اختتام

تحریر : طارق خان ترین
بلوچستان ادب و ثقافت سے بھر پور ایک صوبہ ہے۔ جہاں کے نوجوان زندگی دیگر شعبہ جات میں دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ فن و ثقافت اور ادب میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو ان شعبہ جات میں طرح طرح کے مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، مگر ان عزیمتوں کے باوجود بھی یہاں کے باسیوں کا فن و ادب اور اپنی ثقافت کی طرف رغبت صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ایک نیک شگون ہے۔ ادب ایک ایسا مشغلہ ہے کہ اس کے بدولت ہمارے معاشرتی اقدار کا صحیح سمت میں تعین ہوتا ہے جس سے ہماری ثقافت پروان چڑھتی ہے۔ اس شعبہ سے ہمارے دلوں کو وسعت ملتی ہے، رویوں کو معتدل رکھتا ہے، فکری طور پر ہمارے شعور کو بالیدگی بخشنے کے ساتھ ساتھ ادب کا مطالعہ ہمیں انسان بلکہ بہترین انسان بناتا ہے۔ انسان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے صدیوں کی تحقیق کے بعد اپنی ذات کو پہچاننے کا ذریعہ تلاش کر لیا اور اس کا نام ادب رکھا۔ ادب انسانی زندگی کو پہچاننے کا وسیلہ ہی نہیں بلکہ اس کی تشکیل و تزئین کا ذریعہ بھی ہے۔
قارئین کرام! آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب 15تا 16مئی کوئٹہ میں ’’ پاکستان لٹریچر فیسٹیول‘‘ بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز ( بیوٹمز) میں منعقد کیا گیا، فیسٹیول میں فنون لطیفہ، سیاست، ادب اور دیگر شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات نے شرکت کرتے ہوئے سماں باندھ دیا۔ میلے میں ادب و ثقافت، صحافت، سیاست، اقتصادیات سمیت مختلف موضوعات پر مکالمہ ہوا۔ فن پاروں کی نمائش، کتابوں کی رونمائی اور مشاعروں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ثقافتی سٹال بھی لگائے گئے۔ پہلے روز تین مختلف ہالوں میں ادب و ثقافت، گورننس، آثار قدیمہ، موسمیاتی تبدیلیوں سمیت مختلف موضوعات پر 14سیشن ہوئے۔ افتتاحی تقریب میں صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے استقبالیہ خطبہ دیا۔ مہمان خصوصی سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق خان اچکزئی نے کہا کہ یہ ادبی میلہ مصنفین، شاعر و دانشوروں کا اجتماع نہیں بلکہ انسانی روح کا جشن ہے جو اجتماعی دانش کی عکاسی کرتا ہے۔ وزیر ثقافت سندھ سید ذوالفقار علی شاہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ موہنجودڑو سندھ کی تاریخ 5ہزار سال پرانی ہے، یہاں پر رہنے والے بلوچ ہوں یا پختون ان کا ایک قدیم تعلق ہے، بلوچستان کی محبتیں پورے پاکستان کے لیی ہیں، مجھے یقین ہے کہ بلوچستان کے نوجوان پاکستان میں تبدیلی لاکر پورے ملک کو اکٹھا کریں گے۔ سینئر صحافی و تجزیہ نگار مظہر عباس نے کہا کہ آج اس ہال میں ہزاروں طلبا کو دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ بلوچستان پاکستان کو بدلے گا، بلوچستان کی ثقافت، موسیقی اور صحافیوں میں بہت طاقت ہے، یہاں کے طلبا میں سیاسی شعور ہے۔
یونیورسٹی کا ارفع کریم ایکسپو سینٹر ہال لوگوں بالخصوص نوجوانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بڑی تعداد میں نوجوانوں نے کھڑے ہو کر اپنی پسندیدہ مہمانوں اور مزاح نگار کو سنا۔ معروف ادیب و دانشور کی زندگی کے سفر پر مبنی ’’ انور مقصود: زندگی کی باتیں‘‘ کے عنوان سے نشست کے میزبان معروف اداکار عدنان صدیقی تھے۔ انور مقصود نے اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی و سماجی مسائل، حالات کی تلخی کو اپنے مخصوص انداز میں مزاح کی زبان میں بیان کیا اور شرکاء کے چہروں پر خوب مسکراہٹیں بکھیریں۔ انور مقصود نے کہا کہ ایسا ہجوم انہوں نے اسلام آباد، کراچی اور نہ لاہور کے کسی ادبی میلے میں دیکھا جس پر بلوچستان والے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بلوچستان اور یہاں کے لوگوں سے محبت کا اظہار انہوں نے کچھ یوں کہہ کر کیا کہ ’ طبیعت ٹھیک نہیں اگر یہ فیسٹیول پنجاب سندھ یا خیبر پختونخوا میں ہوتا تو وہ شاید نہ جاتے‘۔
’’ خوشحال بلوچستان، مستحکم پاکستان‘‘ کا انعقاد ارفع کریم رندھاوا ایکسپو سینٹر میں کیا گیا۔ جس میں فواد حسن فواد، سینئر صحافی و تجزیہ نگار سلیم صافی، شمس الدین احمد شیخ اور حفیظ جمالی نے موضوع سے متعلق سیر حاصل گفتگو کی۔ سابق بیورو کریٹ فواد حسن فواد نے کہا کہ پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی ترقی کی راہ میں سول بیوروکریسی بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں درست فیصلے کرنا ہونگے۔ تجزیہ نگار سلیم صحافی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ بلوچستان کی ترقی کی راستے میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں وہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے بھی دشمن ہیں ان کے بارے میں ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے، بلوچستان کے حق کے لیے تمام زبانوں کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہیے۔ حفیظ جمالی نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت کو نظام میں تبدیلی لانا چاہیے پھر چاہے وہ این ایف سی ہو یا پی ایس ڈی پی۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم اور صحت کے مراکز میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ شمس الدین احمد شیخ نے کہا کہ بلوچستان کے پاس ہر طرح معدنی اور قدرتی وسائل موجود ہیں اس کے باوجود ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے، سیکیورٹی معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ ’’ موثر بلوچی، پشتو، براہوی اور ان کے رجحانات‘‘ پر مجلس میں وحید نور، نصیب اللہ سیماب اور وحید ظہیر نے اظہارِ خیال کیا۔ وحید نور نے کہا کہ بلوچ کی یہ خوش بختی ہے کہ اس کا شاعر اپنی شعری روایت سے جڑا ہوا ہے وہ آپ کو کہیں بھی جمالیات کا دامن چھوڑے نظر نہیں آتا احساس کی شدت کا بیان ڈیڑھ ہزار سال سے کرتے کرتے وہ جمالیات کو محفوظ کرنا سیکھ گیا ہے۔ ادبی میلے میں ’’ مہر گڑھ بلوچستان کا تاریکی اور تہذیبی ورثہ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سابق سینیٹر حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ ہماری تاریخ کھود کے بیچنے کے لیے نہیں، ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے تاکہ آئندہ نسلیں بھی ہمارے تاریخی عجائبات کو سمجھ سکیں۔ بلوچستان اور سندھ نے کئی تہذیبوں کو جنم دیا ہے۔ ماہر آثار قدیمہ اسماء ابراہیم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس جو تہذیب ہے وہ دنیا کی سب سے پرانی تہذیب ہے۔ ہم بلوچستان کی تہذیب کو محفوظ کرنے کے لیے ایک میوزیم بنا رہے ہیں۔ میوزیم میں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ بھی تشکیل دیا جائے گا۔ تاریخ پر متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر فاروق بلوچ نے کہا کہ مہر گڑھ کی جو تاریخی حیثیت ہے ہم اس سے ویسے استفادہ نہیں کر رہے جو اس کا حق ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے دیگر زبانوں کے اساتذہ کو نکالنے کے ساتھ ہی صوبہ زوال کا شکار ہوا۔ اگر ہم اپنے اساتذہ کے ساتھ ایسا سلوک کرینگے تو ہم کیسے ترقی کر پائینگے؟ انہوں نے ڈائیلاگ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں دہشتگردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لئے ایک موثر راستہ اگر ہے تو وہ مفاہمت کا ہے۔ ہمارے نوجوان ہم سے نالاں ہیں، ڈائیلاگ کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کو لایا جاسکتا ہے۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ نوجوانوں نے جس طرح پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں خواتین کا احترام کیا جس پر بحیثیت پاکستانی مجھے آپ پر فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بلوچستان میں رہنے والے ہر شہری کا تحفظ چاہتا ہوں، بلوچستان کی حکومت بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالنا چاہتی ہے، ہمیں حکومت اور نوجوانوں کے درمیان فاصلہ کم کرنا ہوگا، بلوچ کو حقوق بندوق سے نہیں ملیں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ادب، آرٹ، شوبز اور صحافت سے وابستہ لوگوں کو کوئٹہ لے کر آئے۔ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کوئٹہ میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے انعقاد پر حکومت بلوچستان اور بیوٹمز یونیورسٹی کے وائس چانسلر خالد حفیظ اور تمام سیکیورٹی اہلکاروں کا شکر یہ ادا کیا۔
صوبہ بلوچستان میں جہاں نوجوانوں کو کبھی ذات پات کی شکل میں، تو کبھی سیاست کی شکل میں، کبھی قوم پرستی تو کبھی تعصب کی شکل تقسیم در تقسیم کر دیا ہے تو ایسے میں بلوچستان کی سرزمین پر پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد ہونا اور اس طرف نوجوانوں کا جم غفیر امڈ آنا اس بات پر دلیل ہے کہ یہ نوجوان موجودہ سیاسی نظام جس نے معاشرتی نظام کے نقشے بگاڑ کر رکھ دیئے، سے اب تنگ آچکے ہیں، نہ صرف بلکہ اپنی زندگیوں میں ایک مثبت اور تعمیری تبدیلی چاہتے ہیں۔ اسی لئے اس طرح کے فیسٹیول ضرور ہونے چاہئیں مگر ان فیسٹولز میں ہمیں اسلامی شعائر کا بھر پور خیال و احترام رکھنا چاہئے۔ اسلام کے سنہرے اصول اور ہمارے اکابرین کے احسن جدوجہد پر مبنی ناقابل فراموش تاریخ کو بھی نوجوانوں سے روشناس کرایا جائے تاکہ ہمارے روشن ماضی کی طرح مستقبل بھی روشن رہے اور ہمارے نوجوان جو اس وقت تقسیم کے شکار ہیں، کو متحد، منظم اور متحرک رکھا جاسکے۔

جواب دیں

Back to top button