CM RizwanColumn

آئی ایم ایف کا بجٹ، سچ بولو

 

سی ایم رضوان
گزشتہ روز پیش کئے جانے والے ملک کے وفاقی بجٹ کو اگر آئی ایم ایف کا بجٹ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا بلکہ یہ کہنا، سمجھنا اور تسلیم کرنا اس امر کی ضمانت ہو گا کہ پاکستان کم از کم اگلے ایک سال تک ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ جب گھنگھرو ڈال لئے تو پردہ کیسا؟ جب یہ تسلیم کر لیا کہ یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے تو اب دیکھنا یہ ہو گا کہ پاکستان کے اس نئے بجٹ پر آئی ایم ایف کی شرائط کس طرح اثر انداز ہوں گی اور عام پاکستانی ان سے کیسے متاثر ہو گا۔
آٹھ فروری 2024کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی موجودہ حکومت کا یہ پہلوٹھی کا بجٹ ہے اور ملک کے منفرد وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے یہ بجٹ پیش کیا ہے۔ یہ بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب ملک آئی ایم ایف سے ایک بڑے قرض پروگرام کے لئے مذاکرات کر رہا ہے، جس کی مالیت آٹھ ارب ڈالر متوقع ہے۔ اگرچہ پاکستان کے ماضی میں پیش کیے جانے والے اکثر بجٹ بھی آئی ایم ایف پروگرام میں رہ کر ہی پیش کیے گئے لیکن پچھلے ادوار میں پاکستان کے معاشی حالات اس قدر خراب نہ تھے جس طرح کہ اس وقت ہیں جس میں ملک کی کم معاشی گروتھ، بڑھتے ہوئے ملکی و غیر ملکی قرضے، غربت، مہنگائی کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری کی کم آمد اور برآمدات میں کمی شامل ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایک لاڈلی سیاسی پارٹی اور اس کے ہم خیال ہتھوڑا گروپ نے ملک میں سیاسی تنا کی ایسی کیفیت پیدا کر دی ہے جو ملکی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان ادائیگی کے عدم توازن جیسی خراب صورتحال کا شکار ہے اور اسے بیرونی ادائیگیوں کے لئے آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہے تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے نئے پروگرام کے لئے شرائط بھی عائد کی گئی ہیں جس کے بعد یہ وفاقی بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان پروگراموں کے امور کا جائزہ لینے والے اور حکومت پاکستان کے نمائندوں کے بیانات کا سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ آئی ایم ایف نے گزشتہ مہینے پاکستان سے متعلق جو رپورٹ جاری کی تھی اس میں پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں میں بہتری کے لئے تجاویز تھیں اور اس کے ساتھ مالی خسارے کو کم کرنے کے لئے اہداف کا تعین بھی کیا گیا تھا۔ ان اہداف کی روشنی میں یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان ایک ایسا بجٹ پیش کر سکے جو پاکستانی حکومت کی منشا کے مطابق ہو کیونکہ پاکستان اور آئی ایم ایف پروگرام کے امور کی گزشتہ کئی سالوں کی خصوصیات بتاتی ہیں کہ کئی سال ہوئے وہ گنجائش ختم ہو چکی جس کے تحت پاکستان کے اقتصادی اصلاح کار اور معیشت دان کچھ اپنی رائے یا اپنے عوام کی سہولت اور بچت کی حامل تجاویز بھی شامل کر لیتے تھے۔ وہ وقت لد گیا جب ہماری حکومتیں کچھ ونڈو ڈریسنگ کر لیتی تھیں لیکن اب ایسا کچھ کرنے کی گنجائش بھی نہیں بچی۔ یہاں تک کہ اب ہم آئی ایم ایف کو روک بھی نہیں سکتے اور ہم اس میں ان کی مرضی کے بغیر کوئی چیز نہیں ڈال سکتے لہٰذا اب یہ کہنا مناسب ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط پر نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی جانب سے بنا کر دیا گیا ہے جسے پاکستانی حکومت نے صرف پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ اس کا ثبوت ان معاشی اشاریوں سے ملتا ہے جو آئی ایم ایف کی جانب سے دیئے جاتے ہیں اور اسے پاکستانی حکومت کی جانب سے معاشی اہداف بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں وہی پاکستان کے اگلے مالی سال کے اہداف ہوں گے۔ اس سلسلے میں جب آئی ایم ایف رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے لئے آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال کے لئے جی ڈی پی کے جو اعداد و شمار پیش کیے ان کے مطابق اس نے 3.5فیصد سے بڑھنا اور ملک میں مہنگائی کی شرح 12.7فیصد تک بڑھنے کا بتایا ہے۔
دوسری جانب وفاقی حکومت کی پلان کوارڈینیشن کمیٹی کی جانب سے بھی گزشتہ دنوں اگلے مالی سال کے لئے انہی اہداف کی منظوری دی گئی۔ پاکستان کے بجٹ کے آئی ایم ایف شرائط کے تحت بننے پر ماہرین معیشت نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے تحت بننے والا بجٹ ہے اور آئی ایم ایف پاکستان سے وہی کچھ چاہتا ہے کہ جس کے تحت وہ مزید قرض دے۔ آئی ایم ایف کی پاکستان سے متعلق رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان اس کی بنائی ہوءی سخت مالیاتی اور زرعی پالیسیوں کا نفاذ کرے اور ان پر ہر حال میں عملدرآمد کروائے اور انرجی کے شعبے میں بروقت ٹیرف ایڈجسمنٹ کرے یعنی بجلی گیس کے نرخ بڑھائے۔ مزید یہ کہ آئی ایم ایف کے مطالبات میں دو اہم شعبوں میں اصلاحات کا نفاذ ہے۔ جن میں ایک ملک کا بجٹ خسارہ ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان کا پرائمری بجٹ سرپلس ہو یعنی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے بعد جو بجٹ ہو وہ سرپلس ہو اس لئے وہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لئے کہہ رہا ہے اور اس کے ساتھ ریونیو بڑھانے کے لئے کہہ رہا ہے۔ دوسرا وہ زرعی پالیسی کو سخت کرنے کا کہہ رہا ہے یعنی ملک میں شرح سود زیادہ ہو۔ اس لئے ملک میں مہنگائی کی شرح کم ہونے کے باوجود یہ کم نہیں ہو رہا اور اس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کے خاتمے کے لئے کہتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی ایم ایف یہ مطالبات کیوں کر رہا ہے اس کے بارے میں ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ جب کوئی قرض لیتا ہے تو لازمی طور پر اس کے ساتھ شرائط بھی ہوتی ہیں کیونکہ ہم اپنے طور پر تو اصلاحات کر نہیں سکے اور نہ کرنا چاہتے ہیں اس کی وجہ سے آئی ایم ایف کہتا ہے کہ یہ اصلاحات کی جائیں کیونکہ جو قرض وہ دیتا ہے، اسے قرض واپس بھی لینا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ چاہتا ہے کہ قرض خواہ کی اتنی آمدن ہو کہ وہ قرض واپس کر سکے۔ ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف گن پوائنٹ پر تو قرض نہیں دیتا بلکہ ہم خود چاہتے ہیں کہ وہ بیشک اپنی شرائط پر ہی قرض دے تو پھر لازمی طور پر اس کی شرائط بھی ماننا پڑیں گی۔
اب موجودہ حکمرانوں کے اس دعوے کہ ملک معاشی طور پر ترقی کرے گا۔ کے تناظر میں یہ دیکھنا ہو گا کہ آئی ایم ایف کا یہ بجٹ ملکی معیشت میں بہتری لائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی معیشت کی شرح نمو گزشتہ دو مالی برسوں میں بہت کم رہی۔ خاص طور پر گزشتہ مالی سال میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 0.29فیصد ریکارڈ کی گئی جو اس سے ایک سال قبل 6.18پر موجود تھی جبکہ پلاننگ کوارڈینیشن کمیٹی کے مطابق ائندہ سال پاکستان کی جی ڈی پی شرح 2.6فیصد تک رہے گی۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح گزشتہ دو سال میں کافی سکڑ چکی ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جیسا کہ ملکی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق ملک کی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔ دوسری اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ملکی برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے جبکہ حکومت کو ملکی و غیر قرضوں کی آفرز کے لئے زیادہ آمدنی چاہیے۔ اب زیادہ آمدن والا کوئی بھی منصوبہ یا ذریعہ ایسا نہ ہے جس سے مزید قرض لے کر کاروبار کیا جا سکے اور مالیاتی استعداد کار بڑھائی جا سکے۔ لہٰذا یہ طے شدہ ہے کہ آئی ایم ایف کے مجوزہ پروگرام کی موجودگی میں ملکی معیشت کو ترقی کے اہداف کے حصول کے یقین کے ساتھ چلانا اور اس میں بہتری لانا فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا۔ فی الحال تو متوقع گروتھ بھی نہیں ہو گی اور اگلے دو تین سال میں ہم بہتری کی بات بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اگلے دو تین سالوں میں معیشت کو واپس ٹریک پر لانا اور اس میں استحکام پیدا کرنا ہی ممکن ہے۔ حکمران اگر کچھ سہانے خواب دیکھتے یا دکھاتے ہیں تو یہ ان کی سیاسی مجبوری یا روایتی سیاسی دھوکہ بازی تو ہو سکتی ہے عملاً ایسا کچھ نہیں البتہ اگلے ایک سال میں وہ اگر مکی معیشت کو ٹریک پر رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی بڑی اور مناسب کامیابی ہو گی۔ ہمارا حکومت کو یہ بھی مشورہ ہے کہ وہ عوام کو معاشی صورتحال کی ابتری کے حوالے سے اعتماد میں لیں۔ معاشی مشکلات اور معاشی چیلنجز کو کھول کر اور کھل کر بیان کریں لوگوں سے سچ بولیں اور خود بھی خوابوں کی دنیا سے باہر نکلیں اور عوام کو بھی باہر نکالیں۔ ملکی معیشت کو اس وقت سب سے زیادہ سٹرکچرل ریفارمز کی ضرورت ہے اور یہ ایک مشکل مگر ضروری کام ہے اگر اب بھی تصنع اور عارضی سیاسی منفعت پرستی سے ہی کام لیا گیا تو پھر یہ معیشٹ کسی سے بھی سنبھل نہیں سکے گی۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے بھی بات کرنا پڑے گی کہ وہ معقول اور قابل حاصل اہداف مقرر کرے۔ آئی ایم ایف کو بھی تھوڑی لچک دکھانی چاہیے تاکہ ہم اہداف کو حاصل کر سکیں۔
یہ طے شدہ ہے کہ آئی ایم ایف کی موجودہ شرائط کے تحت تیار کئے گئے مذکورہ بجٹ میں ایک عام فرد کے لئے مالی مشکلات کا ایک انبوہ کثیر ہے۔ مہنگائی اور معاشی افراتفری کا ایک جان لیوا حملہ ہے۔ اس بجٹ سے عام آدمی کافی متاثر ہو سکتا ہے جس کی بنیادی وجہ ٹیکسوں میں اضافے جیسی تجاویز ہیں۔ جو ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کے ذریعے پوری کی جائیں گی۔
اس پر ستم یہ کہ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ چیزیں اور زیادہ مہنگی ہوں گی۔ اسی طرح انرجی سیکٹر میں بجلی و گیس کے بل بھی مزید بڑھ جائیں گے جو مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کے لئے مزید مالی مشکلات پیدا کرے گا۔ یہ صحیح ہے کہ لوگوں پر بوجھ بڑھے گا لیکن اس کے لئے عوام کو حکومت کی جانب سے ٹارگٹڈ پروگرام دیا جانا چاہیے جس سے غریب طبقے کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ عام افراد سے زیادہ اشرافیہ پر بوجھ ڈالا جائے۔ یہ درست ہے کہ ایک قومی معاشی بحران بہرحال اس وقت ہے لیکن اس سے نکلنے کے لئے اصلاحات کا نفاذ باعث آسانی ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button