Column

سیاسی حبس میں تازہ ہوا کا جھونکا ضروری ہے

تحریر : رفیع صحرائی
جب گھٹن بڑھ جائے تو تازہ ہوا کے جھونکے کے لٌے کوئی کھڑکی کھولنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ورنہ دم گھٹنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ 2006میں ایسے ہی گھٹن زدہ سیاسی حالات تھے۔ پرویز مشرف ملک پر قابض تھے۔ ق لیگ ان کے فرنٹ مین کے طور پر موم کا ناک بنی ہوئی تھی۔ وہ جدھر چاہتے اس مومی ناک کو مروڑ لیا کرتے تھے۔ ملک کی حقیقی سیاسی لیڈرشپ پر اپنے ہی وطن کے دروازے بند تھے۔ ایسی صورتِ حال میں دونوں بڑے سیاسی حریفوں جناب نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے وقت کی نزاکت کو محسوس کیا اور 14مئی 2006کو ان دونوں کے درمیان لندن میں ’’ میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط ہوئے جس کے تحت جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بقا اور ’’ بحالی‘‘ کے لیے مل کر چلنے پر اتفاق ہوا۔ مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر سیاسی اکابرین بھی اس موقع پر موجود تھے۔ گو کہ 2007میں صدر کی وردی پر استعفیٰ دینے کے معاملے پر دونوں بڑی پارٹیوں میں اتفاق نہ ہو سکا اور پیپلز پارٹی کے بغیر ہی میاں نوازشریف نے اے پی ڈی ایم بنا ڈالی مگر اس کے باوجود اس معاہدے کے بڑے دور رس نتائج نکلے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008میں پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو یہ ’’ میثاقِ جمہوریت‘‘ ہی کا کمال تھا کہ 2008سے 2013تک پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں کوئی ایک بھی سیاستدان یا ورکر سیاسی قیدی بن کر جیل میں نہ گیا۔
سیاست میں آگے بڑھنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سیاستدانوں کا مل بیٹھنا ضروری ہوتا ہے۔ انتخابات کے دنوں میں ایک دوسرے کی ڈٹ کر مخالفت کی جاتی ہے مگر حکومت بن جانے کے بعد عوام کی بھلائی کی خاطر تمام سیاسی قوتوں کو مل جل کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی بنا لیا جائے تو ملک تنزلی کی طرف چل پڑتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہو جائے تو معاشی استحکام محض خواب بن کر رہ جاتا ہے۔2018میں جناب عمران خان کی حکومت بن گئی۔ جناب شہباز شریف اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ اسمبلی کے فلور پر بطور اپوزیشن لیڈر اپنی پہلی ہی تقریر میں جناب شہباز شریف نے وزیرِ اعظم جناب عمران خان کو مبارک باد دیتے ہوئے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور میثاقِ معیشت کی پیشکش کی۔ یہ بہت بڑی پیشکش تھی۔ ن لیگ کے الیکشن کے نتائج پر بہت زیادہ تحفظات تھے۔ مگر ملکی ترقی و فلاح کی خاطر یہ پیشکش عمران خان کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ملکی معیشت کو بلندیوں پر لے جا سکتے تھے مگر انہوں نے روایتی رعونت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پیشکش کو حقارت سے نہ صرف ٹھکرا دیا بلکہ واضح موقف اپنایا کہ اپوزیشن والے چور اور ڈاکو ہیں وہ ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ اس سے قبل وہ اپنے جلسوں اور انٹرویوز میں چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دے چکے تھے مگر وہی ڈاکو جب ان کی حکومت بنانے میں مددگار ثابت ہوا تو عمران خان نے چودھری پرویز الٰہی کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا۔ عمران خان کو اپنی معاشی ٹیم پر بہت بھروسہ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپوزیشن کا تعاون کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک دیا۔ ان کی ٹیم ناتجربہ کار تھی۔ مطلوبہ نتائج نہ دے سکی۔ یہ حقیقت ہے کہ اقتدار سے محرومی کے وقت عمران خان بے تحاشہ مہنگائی اور خراب معاشی صورتِ حال کی وجہ سے اپنے ورکرز میں بھی غیر مقبول ہو چکے تھے۔
موجودہ حکومت نے اس وقت کی اپوزیشن کا رول نبھایا۔ بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی کے خلاف کراچی تا اسلام آباد کامیاب لانگ مارچ نکالا جس کے اختتامی لمحات میں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ اس سے پہلے مولانا فضل الرحمان بھی ایک کامیاب شو کر چکے تھے۔ بہرحال پی ڈی ایم حکومت میں آ گئی اور عمران خان سڑکوں کی زینت بن گئے۔ انہوں نے حکومت کو مسلسل نشانے پر رکھ لیا۔ ملک میں تاریخ کا بدترین سیلاب آ گیا مگر عمران خان کی حکومت مخالف تحریک کی شدت میں کمی نہ آئی۔ وہ ملکی معیشت اور حکومت دونوں کو سنبھلنے نہیں دینا چاہتے تھے۔ ان دونوں کی فنا میں عمران خان کی بقا تھی۔ اس وقت پنجاب اور کے پی میں ان کی حکومت تھی۔ انہوں نے ان دونوں صوبوں کے وزرائے خزانہ کے ذریعے وفاقی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کی۔ ادھر پی ڈی ایم کی حکومت جو عمران خان دور میں مہنگائی کی شدید ناقد تھی اپنے دور میں مہنگائی پر کنٹرول نہیں کر سکی۔ مہنگائی کی پرواز پی ڈی ایم کے دور میں زیادہ تیز رفتار ہو گئی۔ عوام کو مہنگائی کے کولہو میں ڈال کر ان کے خون کو نچوڑ لیا گیا۔ جبکہ ریلیف معمولی بھی نہیں دیا گیا۔ عوام کو خون کے آنسو رلانے میں عمران خان سیر تھا تو پی ڈی ایم حکومت سوا سیر کی بجائے دو سیر ثابت ہوئی۔ جناب اسحاق ڈار اس دعویٰ کے ساتھ میدان میں اترے تھے کہ ڈالر دو سو سے نیچے لے آئیں گے مگر وہ تین سو سے بھی تجاوز کر گیا۔ مہنگائی کی شرح ایک سال کے اندر پچاس فیصد بڑھ گئی۔ حکومتی اخراجات اور مراعات کی لوٹ سیل لگ گئی۔ 85رکنی کابینہ اور بے شمار سٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین عوام کے ٹیکسوں پر سرکاری سانڈ بن کر پلنے لگے۔ چیئرمین سینیٹ کی تاحیات شہنشاہی مراعات نے پوری دنیا میں انوکھی مثال قائم کر دی۔ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ اور پی ڈی ایم حکومت کے سوا سالہ دور میں پارلیمنٹ کی قانون سازی دیکھ لیں۔ تمام قانون سازی کرپٹ لوگوں کو تحفظ دینے اور مخصوص سیاست دانوں کے مفادات کے لیے کی گئی۔ عوام کی بہتری کے لیے کسی نے سوچا تک نہیں۔ لانگ مارچ فیم بلاول بھٹو کی آنکھوں پر وزارتِ خارجہ کی پٹی بندھ گئی۔ انہیں مہنگائی نظر آئی نہ عوام کی تباہ حالی۔ یہاں تک کہ قومی اسمبلی میں کوئی اور بجٹ پیش کیا گیا جبکہ منظوری ایک دوسرے بجٹ کی دی گئی۔ آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرتے کرتے عوام کی سانسیں بند کر دی گئیں۔ اقتدار کے منافع بخش کھیل میں سیاست دانوں نے نظریاتی اور سیاسی اختلافات کو ذاتی مخالفت اور دشمنی میں بدل دیا۔ نتیجہ معاشی تباہی کی صورت میں نکلا۔ عوام سیاست دانوں سے بددل بھی ہوئی اور متنفر بھی۔ یہاں تک کہ اس نفرت نے ان کی وطن سے محبت کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ اگر عوام کو آج ملک چھوڑنے کی آزادی دے دی جائے تو ملک میں صرف سرکاری ملازمین اور سیاست دان ہی رہ جائیں گے۔ باقی سب دوسرے ملکوں کو نکل جائیں گے۔
اپنے دورِ حکومت میں عمران خان کی گردن کا سریا نہیں نکل رہا تھا۔ وہ دوسروں کو چور ڈاکو کہتے نہیں تھکتے تھے۔ وقت نے انہیں یہ دن بھی دکھایا کہ خود ان کے ماتھے پر سرٹیفائیڈ چور کا داغ لگ گیا۔ اب ان کی بنائی ہوئی مذاکراتی کمیٹی سوا سال سے مذاکرات کے لیے تیار بیٹھی ہے مگر دوسری طرف سے ’’ نو لفٹ‘‘ کا سائن بورڈ ان کا منہ چڑا رہا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں نے اپنی عاقبت نااندیشیوں اور نادانیوں کے سبب ملک کا بہت نقصان کیا ہے۔ اب حالات سنوارنے کی ضرورت ہے۔ مقروض لوگ یا قومیں فاقہ مست ہی رہتی ہیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ ہمیں اگر عزت سے جینا اور ترقی کرنا ہے تو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنا ہو گا۔ یہ زنجیر عوام پر مزید ٹیکس لگا کر نہیں کٹے گی۔ مراعات یافتہ طبقے سے تمام مراعات واپس لے کر ہی یہ چھٹکارا ممکن ہے۔ تمام وزرا، مشیران، ممبران پارلیمنٹ، سول افسران، ججز اور فوجی افسران کو مفت بجلی کی فراہمی، ٹریول ٹکٹس، مفت پٹرول اور دیگر مراعات کی فراہمی بند کی جائے۔ ان میں سے کوئی بھی غریب نہیں ہے جو اپنی آمدنی میں اپنے اخراجات برداشت نہ کر سکے۔ کابینہ کو مختصر ترین صورت میں رکھا جائے۔ تمام سیاست دان ایک گول میز کانفرنس میں اکٹھے بیٹھیں اور درج بالا تجاویز کی منظوری دیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کرپشن کو ناقابلِ معافی جرم قرار دے کر بدعنوانی کرنے والے کے لیے سزائے موت کے قانون کی منظوری دی جائے۔ جب تک مجرموں کو سزائیں نہیں ملیں گی جرائم کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ ذاتی مفادات کی خاطر یا کسی دوسرے کو اپنا کاندھا پیش کر کے ہمارے سیاست دانوں نے ملک کو تباہ کیا ہے۔ اب انہیں ہی اس ملک کو سنوارنا ہو گا۔ ملک کی تعمیر و ترقی اور معیشت کی بحالی کے لیے ’’ میثاقِ وفا‘‘ کرنا ہو گا۔ یہ وفا اپنے وطن سے ہو گی۔ خلوصِ نیت سے اس پر عمل کرنا ہو گا۔ اپنی ایمانداری کو ثابت بھی کرنا ہو گا تاکہ دیارِ غیر میں مقیم کوئی پاکستانی اپنے ملک کے سیلاب زدگان کو ڈوبتا چھوڑ کر ترکی کے زلزلہ زدگان کو کروڑوں ڈالر امداد دینے سے پہلے ایک بار تو ضرور سوچے۔ اگر سیاست دان ملکی معیشت کی خاطر ایک صفحے پر آ گئے اور اپنی تمام مراعات سے دستبردار ہونے کے علاوہ مراعات یافتہ طبقے کی مراعات بھی ختم کر دیں تو یہ قوم چند دنوں میں ہی اتنا سرمایہ مہیا کر دے گی کہ آئی ایم جیسے عفریت کے پنجوں سے ملک نکل آئے۔ جب گھٹن بڑھ جائے تو تازہ ہوا کے جھونکے کے لیے کوئی کھڑکی کھولنا ضروری ہو جاتا ہے۔
میثاقِ وفا اب ضروری ہو گیا ہے
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button