ColumnTajamul Hussain Hashmi

بارہویں بار کے الیکشن

تجمل حسین ہاشمی
8فروری کو ہونیوالے انتخابات ملکی تاریخ کے 12ویں عام انتخابات ہیں، اگر ملک کی 76سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو اب تک صرف 2منتخب کردہ حکومتوں نے اپنی مدت کا دورانیہ پورا کیا ۔ وقت پر انتخابات کرائے گئے۔ تاہم ان حکومتوں کے دوران بھی ملک کے منتخب وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے قاصر رہے۔ ان گیارہ دفعہ ہونیوالے انتخابات ماہ فروری میں 4دفعہ ہوئے، ماہ اکتوبر میں 3دفعہ اور نومبر ، مارچ ، جولائی ، اور مئی کے مہینوں میں ایک ایک بار پارٹیوں کی قسمت کا فیصلہ ہوا ۔ ایک نظر ان حکومتوں پر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس حکومت نے کب کب اور کتنی مدت کے بعد انتخابات کرائے۔ 1970میں ہونیوالے عام انتخابات ملک کی تاریخ میں ہونیوالے پہلے باضابطہ عام انتخابات تھے۔ پہلے انتخابات 7دسمبر 1970کو منعقد ہونیوالے عام انتخابات قیام پاکستان کے 23برس بعد منعقد ہوئے تھے۔ اس وقت 1970میں بننے والی حکومت نے 7برس حکومت کی اور مقررہ مدت کے بعد انتخابات کا انعقاد کرایا۔ اس وقت ووٹر ٹرن آئوٹ 57.96 فیصد رہا اور عوامی لیگ وننگ رہی تھی، مجیب الرحمان نے 167اور ذوالفقار علی بھٹو نے 86سیٹوں حاصل کی۔ 7مارچ 1977کو دوسری بار انتخابات منعقد ہوئے، اس حکومت کا تختہ صرف 2ماہ میں الٹ گیا جب حزب اختلاف نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس دفعہ ووٹر ٹرن آئوٹ 59.74 فیصد رہا۔ اس وقت کی وننگ پارٹی پیپلز پارٹی رہی، اس کے بعد 28فروری 1985کو تیسری بار انتخابات منعقد ہوئے اور غیر جماعتی بنیاد پر منتخب ہونیوالی حکومت اپنی مقررہ مدت پوری نہ کر سکی اور صرف 3برس میں ہی گھر واپس چلی گئی۔ ووٹر ٹرن آئوٹ 52.93فیصد رہا۔ 16نومبر 1988کو ملک کی تاریخ کے چوتھے انتخابات کرائے گئے۔ الیکشن سے ایوان میں پہنچنے والی حکومت بھی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی اور صرف 2برس میں اس حکومت کا تختہ پلٹ گیا۔ اس وقت کا ٹرن آئوٹ 42.75 فیصد رہا اور پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ 24اکتوبر 1990کو پانچویں بار انتخابی دنگل سجا اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی اور اسے 3برس میں ہی انتخابات کرانے پڑے، ٹرن آئوٹ 45.17 فیصد رہا اور نوازشریف کی پارٹی 106سیٹوں پر وننگ رہی۔ پھر 6اکتوبر 1993کو چھٹے انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کی صورت میں بننے والی حکومت بھی مسلسل چوتھی بار اپنی مدت پوری نہ کر سکی اور 1996کے اختتام پر انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ بینظیر بھٹو وننگ رہی اور 40.02 فیصد ٹرن آئوٹ رہا۔ اس وقت نواز شریف نے 73سیٹس حاصل کی تھیں۔ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کیخلاف محاذ آرائی کرتی رہیں، ملک میں سیاسی انتشار بڑھتا رہا، ایک دوسرے کی حکومتوں کو گھر بھیجتے رہے۔ 3فروری 1997کو ساتویں انتخابات ہوئے اور ایک بار پھر 2برس کے مختصر وقت میں حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ نواز شریف وزیراعظم تھے اور ملک میں مارشل لاء لگ چکا تھا۔ اس وقت ووٹر ٹرن آئوٹ 35.79 فیصد رہا۔ نوازشریف کا تختہ جنرل پرویز مشرف نے الٹ دیا تھا۔ جمہوریت کے رکھوالے ایک اگریمنٹ سے ملک بدر کر دیئے گئے۔ 10اکتوبر 2002کو آٹھویں انتخابات کا انعقاد ہوا تو طویل عرصے کے بعد ملک میں مستحکم حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اس حکومت نے پہلی بار ملک کی تاریخ میں اپنی مقررہ مدت پوری کی اور وقت پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ اس وقت کا ٹرن آئوٹ 41.76 فیصد رہا اور پی ایم ایل کیو کے نامزد وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی بنے۔ 18فروری 2008کو سنگین حالات میں نویں انتخابات مقررہ وقت پر ہوئے۔ یہ ملک کی تاریخ میں مقررہ وقت پر ہونیوالے پہلے انتخابات تھے۔ اس حکومت نے تو اپنی مقررہ مدت پوری کی تاہم اس دوران اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکی، میاں نواز شریف اس وقت کالے کوٹ کے ساتھ عدالت گئے۔ لیکن آصف زرداری نے صدارت کے پانچ سال پورے کئے۔ 16مئی 2013کو دسویں انتخابات ہوئے۔ اس حکومت نے بھی اپنی آئینی مدت پوری کی لیکن وزیراعظم نوازشریف عدالتی فیصلے کے بعد نااہل ہوگئے۔ تاہم اس دور حکومت میں منتخب ہونیوالے وزیراعظم بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔ اس وقت ٹرن آئوٹ 55.02 فیصد رہا۔ شاہد خاقان عباسی وزیراعظم منتخب ہوئے اور باقی مدت پوری ہوئی۔ حکومت نے مقررہ وقت پر آئندہ انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ 25جولائی 2018کو
مقررہ وقت پر گیارہویں انتخابات ہوئے، تاہم ان انتخابات میں منتخب ہونیوالی جماعت تحریک انصاف تھی۔ اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکی اور ساڑھے 3برس بعد تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تختہ الٹ گیا۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کو ناکام کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس وقت ملکی سیاسی معاشی صورتحال انتہائی تشویشناک تھی، پوری دنیا کرونا کے عذاب سے نکل رہی تھی، مہنگائی دنیا کا مسئلہ بن چکا تھا۔ تاہم اب بارہویں انتخابات کا انعقاد کل 8فروری کو چند ماہ کی تاخیر سے ہورہا ہے جس میں اب صرف ایک دن باقی ہے۔ اس الیکشن میں ووٹر ٹرن آئوٹ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے اہمیت اختیار کر چکا ہے، نوجوان کے ووٹ کی امید نظر آ رہی ہے کہ وہ اس بار الیکشن میں ضرور حصہ لیں گے اور اپنا ووٹ ضرور کاسٹ کریں گے۔ ماضی کے انتخابات میں نوجوان ووٹر گھروں میں بیٹھا رہا اس لئے ان کی ووٹنگ کی شرح بہت کم رہی لیکن اس بار کے الیکشن کافی اہمیت اختیار کر چکے ہیں، ماضی میں ہونیوالے الیکشن سے اس بار کے الیکشن میں تمام سیاسی جماعتیں وقت سے پہلے ہی الحاق کر چکی ہیں، پہلے انتخابات میں پارٹی اپنی وننگ سیٹوں پر جوڑتوڑ کرتی تھی اور اس بار ایسا سب کچھ وقت سے پہلے انجام دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کو تو میدان سے آئوٹ کر دیا گیا لیکن پھر بھی ماضی کی جماعتیں ووٹر سے خوف زدہ ہیں، کیوں کہ 75سال سے محرومیت ان کا مقدر رہی اور آج بھی ان سیاسی پارٹیوں کا بیانیہ وہی ہے جو ماضی میں رہا۔ دنیا ٹیکنالوجی کیلئے آگے بڑھ رہی ہے اور ہمارے ہاں آج بھی روٹی، کپڑا اور مکان، ووٹ کو عزت دو کے نعرے ہیں۔ حقیقت میں ہم بھی ان جھوٹے نعروں سے خوش ہیں۔ اس بار بھی ماضی جیسا شور ہوگا، اور ہمیں بیوقوف بنایا جائیگا۔ کون سی جماعت دھاندلی کا شور مچائے گی، کسی کے پاس کوئی جواز نہیں ہوگا۔ 16ماہ کی حکومت میں سب جماعتیں اتحادی تھیں اور اس وقت مہنگائی بلند ترین سطح پر تھی، اگر بروقت اعلیٰ ادارے کی طرف سے نگران حکومت کی سپورٹ میں سستی ہوتی تو مافیا نے غریبوں کو روٹی سے محروم کر دینا تھا اور غریبوں کو یقیناً سڑکوں پر لے آنا تھا۔ سیاسی تاجروں نے ہر کمزور حکومت اور معاشی صورت حال میں مالی فائدہ حاصل کیا ہے اور اعلیٰ عسکری قیادت کے سامنے اپنا رونا دھونا بھی جاری رکھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button