CM RizwanColumn

پانچ سالہ عذاب کا آغاز

سی ایم رضوان
سماجیات اور سیاسیات کے نامور مفکر کارل مارکس سے ایک قول منسوب ہے کہ جمہوریت زدہ ممالک میں ہر کچھ سالوں بعد مظلوموں کی اکثریت کو الیکشن کے ذریعے یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ چند ظالموں میں سے کون سا ظالم طبقہ آئندہ اُن کا نمائندہ ٹھہرے گا اور آئندہ پانچ سال اُن کا استحصال کرے گا جبکہ مارک ٹوین سے منسوب ہے کہ اگر ووٹنگ سے واقعی کوئی فرق پڑتا یا انقلاب آتا تو وہ ( یعنی طبقہ اشرافیہ) ہمیں کبھی بھی ووٹ نہ ڈالنے دیتے جبکہ ایک اور مفکر رالف نیڈر کی یہ بات مشہور ہے کہ جب آپ دو برائیوں میں سے کم تر برائی کا انتخاب کرتے ہیں تو بھی آپ برائی ہی چن رہے ہوتے ہیں۔ انہی حقائق کی روشنی میں دو روز بعد یعنی آٹھ فروری 2024کو پاکستان جیسے غیر جمہوری اور قانون و اصول سے خالی ملک میں بھی جنرل الیکشن کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ یہاں کے زیادہ تر ووٹرز کو امیدوار اور پارٹی کے چنائو کا اول تو شعور ہی نہیں اور کچھ شعور ہے بھی تو وہ اس شعور کے مطابق فیصلہ کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتے کیونکہ یہاں سو فیصد ایسے امیدوار ہیں جن کا عام غریب طبقے سے کوئی تعلق یا اس سے ہمدردی نہیں۔ یہاں الیکشن میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں پر بھی اشرافیہ، سرمایہ داروں، جاگیر داروں، اجارہ داروں اور ڈکٹیٹروں کا مستقل قبضہ اور تسلط قائم ہے۔ اس عجیب ترین اور گھمبیر صورتحال کے باوجود جھوٹے دعوے، جعلی نعرے اور فرضی منشور پیش بھی کئے جاتے ہیں اور ان پر کسی نہ کسی حد تک اعتبار یا اکتفا بھی کر لیا جاتا ہے جبکہ روایتی میڈیا بھی اس سارے جعلی بندوبست کی معاونت کر کے اپنا حصہ وصول کرتا ہے اور مزے اڑاتا ہے اور عوام کو شعور اور جمہوریت کی اصل روح سے روشناسی کا ذرہ برابر بھی بندوبست یا اہتمام نہیں کرتا۔ مل جل کر لوٹ مار کرنے والے یہ نسبتاً باشعور مگر مکار اور با اثر طبقات پچھلے 76سالوں سے یہی کچھ کرتے چلے آ رہے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ مسلسل لٹنے کے بعد اب غریب طبقات کے تن کے کپڑے اور دو وقت کی روٹی کے نوالے بھی کم پڑ گئے ہیں مگر لوٹ مار اور الیکشن کے نام پر قومی دھوکہ اور اجتماعی جبر اب بھی جاری ہے اور اسی تسلسل کے تحت اب یہ الیکشن بھی ہوں گے۔ ان انتخابات میں بھی جعلی جمہوریت اور اشرافیہ کے درمیان معصوم اور مظلوم عوام کی سسکیوں اور آہوں کا ماتم بھی جاری رہے گا اور اس ماتم کا باعث بننے والے کاریگروں کو ووٹ بھی پڑ رہے ہوں گے۔ اب تک شعور عوام کو صرف اتنا ہی آیا ہے کہ اگر ان سے جمہوریت کے متعلق بات کریں تو جواب دیتے ہیں کہ جمہوریت نے ہمیں کیا دیا ہے۔ یہ جواب بھی دراصل کئی پہلو رکھتا ہے۔ جن میں سے ایک پہلو یہ ہے کہ ہم نے جمہوریت کو کیا دیا یا یہ پہلو بھی کہ یہاں جمہوریت قائم ہی کب ہوئی تھی، یہاں تو جمہوریت بھی آمریت کی گود میں پلتی ہے اور آمریت بھی یہاں کی جمہوریت کے دم قدم سے زندہ ہے گو کہ یہی جمہوری نظام برطانیہ میں کچھ اور نتیجہ دے رہا ہے مگر پاکستان میں نا امیدی اور مایوسی ہی عوام کا مقدر ہے۔ جمہوریت میں عوام کا مقدر حکمران نہیں لکھتے بلکہ حقیقی جمہوریت میں تو عوام اپنا مقدر خود لکھتے ہیں تب ہی تو یہ لوگوں کے ذریعے، لوگوں کے لئے اور لوگوں میں سے منتخب ہونے والا نظام کہلاتا ہے۔ جمہوریت میں عوام اپنا مقدر کیسے لکھتے ہیں۔ اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور سمجھنے کا تعلق شعور سے ہوتا ہے۔ شعور انسان کو تعلیم سے ملتا ہے۔ ایسی تعلیم جو تنقیدی صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور سوالات اٹھانے پر مجبور کرے۔ یہ بھی نہیں کہ ہمارے ہاں سوالات نہیں اٹھائے جاتے، سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھی ہمارے ہاں جمہوریت کا سفر ہر دس سال بعد دوبارہ ابتدا سے شروع کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری نظام عوام کی حکومت کا نام ہے۔ جس میں آزادی رائے، اختلاف رائے، طبقاتی نظام کا خاتمہ، انسانی مساوات اور حقوق کی حفاظت ہوتی ہے مگر ہمارے معاشرے میں جمہوریت مذہب پرستی، برادری ازم اور شخصیت پرستی کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ کاسٹ کرنے سے لے کر کسی بھی لوکل حمام سے شروع ہونے والے پروپیگنڈے، پسندیدہ ٹی وی چینل کے بیان کردہ یکطرفہ سچ سے شروع ہوتی ہے اور پاپولر ازم جیسی بیماری میں مبتلاء ہو کر گلیوں بازاروں میں ہی مر جاتی ہے حالانکہ اصل اور حقیقی جمہوریت کے سمجھنے یا سیاسی فرض کی ادائیگی کا تعلق تو کسی مسیحا، عوامی لیڈر یا مصلح کی خلوص اور قوم کے درد سے لبریز سیاسی تربیت اور سیاستدانوں کی لوٹ مار سے نہیں قربانیوں سے شروع ہوتی ہے اور معاشرے کی ترقی، اصلاح اور استحکام پر منتج ہوتی ہے۔
اب اگر یہ پوچھا جائی کہ پاکستان میں جمہوریت کیوں اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے دن سے ہی پاکستان کی جمہوریت کو اشرافیہ نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہاں کی سیاسی اشرافیہ کل چھ قسم کی ہے جو سیاست پر مختلف طریقوں سے اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جن میں اسٹیبلشمنٹ اشرافیہ، جاگیردار، پروفیشنلز، صنعتکار، سرمایہ دار اور بیوروکریٹ شامل ہیں جو کہ جمہوریت اور نظام کے ثمرات اور اختیارات پر پہلے دن سے ہی سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ جمہوری نظام دراصل قومی مساوات کا نام ہے۔ جس میں اشرافیہ یا کمتر طبقات کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا۔ جس میں ہر طبقہ اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق حقوق و فرائض اور کام اور معاوضہ کے مساویانہ نظام سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ اس میں اختلافات رائے پر پابندی، حقوق کی پامالی اور کمزور کا استحصال نہیں ہوتا جبکہ ہمارے ہاں ظلم یہ ہو رہا ہے کہ یہاں برائے نام جمہوریت بھی چل رہی ہے اور یہاں حقوق بھی غصب ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ استحصال اشرافیہ مختلف طریقوں سے کرتی ہے مثلاً تعلیمی پالیسیاں تو بنائی جاتی ہیں مگر تعلیمی نظام کو طبقاتی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ انگریزی اردو میں تعلیم۔ نصابی کتب کی غیر فعالیت اور نان پروفیشنل نوعیت وغیرہ۔ اول کلاس سے لے کر ماسٹر ڈگری تک یہ تفریق چلتی ہے۔ ویسے تو بچے بچے کو جمہوریت طوطے کی طرح رٹائی جاتی ہے مگر اصل جمہوری نظام کسے کہتے ہیں یہ کسی بھی کتاب میں نہیں ہوتا۔ اسی لئے ہمارے ہاں مختلف ادوار میں متضاد اور رنگ برنگی جمہوریت نظر آتی ہے۔ کبھی یہ جمہوری نظام اسلام سے نکالا جاتا ہے تو کبھی پنجاب کے کسی جاگیردار یا صنعتکار کی قیادت میں قائم ہو جاتا ہے جو کہ اپنی ہی طرزِ کی جمہوریت متعارف کروا کے پانچ دس سال ضائع کرتا ہے پھر ڈیزائن کرنے والوں کو کسی نئے ڈیزائن کی جمہوریت قائم کرنے کا خیال آ جاتا ہے۔
اسی طرح اشرافیہ بھی دوسرے مختلف من گھڑت نظریات سے اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ برادری ازم کے نام پر بھی ہمیشہ سیاست ہوتی ہے اور کبھی بھی اس طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کیونکہ طبقاتی نظام اور ازم ختم کرنے کے لئے تعلیم ضروری ہے۔ تعلیم شعور دے گی اور معاشرہ میں نا انصافی اور حقوق کی بات کی جائے گی اور حقوق کی بات ہو گی تو اشرافیہ خود بخود ختم ہو جائے گی۔ اسی طرح عسکری اشرافیہ جو ہر آٹھ یا دس سال بعد اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کی باگ ڈور تو سنبھالتی ہے مگر جمہوری اقدار کا قتل کر دیتی ہے۔ کبھی مذہب اور اپنی ہی تخلیق کی ہوئی جمہوریت میں دوسرے اشرافیہ سے گٹھ جوڑ کر لیتی ہے۔ اس کی مثال ایوب دور میں جاگیرداروں کی مسلم لیگ، ضیاء الحق دور میں مذہبی اشرافیہ اور مشرف دور میں ان تینوں کا اتحاد پاکستان میں جمہوریت کا حلیہ بگاڑتے رہے۔ جہاں تک مذہبی اشرافیہ کا تعلق ہے تو یہ طبقہ اگر حکومت میں ہو تو انہیں ہر طرف اسلام کا بول بالا نظر آتا ہے مگر جونہی اقتدار ان کے ہاتھ سے جاتا ہے انہیں معاشرہ میں سیکولر، مذہب دشمن اور مغربی طاقتوں کی سازشیں ہی نظر آتی ہیں۔ نام نہاد جمہوریت کے یہ سارے جھوٹے چیمپئن مساوات، انصاف، حقوق اور جواب دہی کی کوشش کبھی بھی نہیں کرتے البتہ اگر کوئی دیگر انصاف یا عوامی حقوق کی بات کرے تو یہ سب مل کر اس کی آواز کو مختلف طریقوں سے دبا دیتے ہیں جن میں سنسر شپ کا لگا دینا۔ کافر کا فتویٰ دے دینا، غداری سے جوڑ دینا یا پھر مخالف کی دلیل کو گالی سے جواب دینا۔ اس ساری افراتفری میں اصل جمہوریت فوت ہو جاتی ہے اور باقی صرف آمریت رہ جاتی ہے جس کے تحت جھوٹے انتخابات اور جھوٹے عوامی نمائندے ہر پانچ سال بعد آ کر عوام کو لوٹتے اور دھوکہ دیتے ہیں۔ جس طرح کہ اب آٹھ فروری کو الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ ایک بار پھر اربوں روپے ضائع کر کے اربوں روپے لوٹنے کا بندوبست کیا جائے گا اور عوام ایک مرتبہ پھر اگلے پانچ سال تک روتے رہیں گے۔ گویا الیکشن کے نام پر آئندہ پانچ سالہ عذاب کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button