ColumnRoshan Lal

سیر جرم پر سوا سیر احتساب

روشن لعل

مرحوم سوویت یونین کو آئیڈیل ملک قرار دینے والے اس کی تعریف کرتے ہوئے یہ بتانا کبھی نہیں بھولتے تھے کہ وہاں بنائی ہوئی اشیا انتہائی پائیدار اور مضبوط ہوتی ہیں۔ سوویت یونین کے ناقدین کو اس طرح کی ستائش ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی لہذا مذکورہ تعریف کا ان کے پاس یہ جواب ہوتا تھا کہ مضبوطی اور پائیداری کے نام پر وہاں بنائی ہوئی اشیا کو بلا وجہ بھاری بھرم بنا دیا جاتاہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ لطیفہ بھی سنا دیا کرتے تھے کہ سوویت یونین میں اشیا کی مضبوطی اور پائیداری کا یہ عالم ہے کہ وہاں بنائے گئے ایک سیر وزن کے باٹ میں سوا سیر لوہا استعمال کیاجاتاہے۔اکثر لطیفے بناوٹی ہوتے ہیں لیکن اگر حقیقت میں مضبوطی اور پائیداری کے نام پر سیر کی جگہ سوا سیر کے باٹ بنائے گئے ہوں تو ایسے باٹ کم از کم کسی ترازو میں استعمال کے کام نہیں آسکیں گے۔ مرحوم سوویت یونین کے عروج کے دنوں میں اس سے متعلق جو لطیفے مشہور ہوئے ان میں سے سوا سیر لوہے کے باٹ والا لطیفہ پاکستان میں عرصہ دراز سے احتساب کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار کو دیکھ کر یاد آیا ہے۔ سوویت یونین کے لیے بنائے گئے لطیفے کے مطابق جس طرح سیر وزن کے باٹ میں سوا سیر لوہا استعمال کیا جاتا تھا اسی طرح پاکستان میں عرصہ دراز سے نیب کی تفتیش سے لے کر نیب عدالتوں تک جو کچھ ہو رہا ہے اس میں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ کسی کا جرم چاہے ایک سیر حجم کا ہو مگر احتساب کی مضبوطی اور پائیداری ظاہر کرنے کے لیے اسے بلاوجہ سوا سیر بنا دیا جاتا ہے۔
عمران خان کو پہلے سائفر اور اس کے بعد توشہ خانہ کیسوں میں جو سزائیں دی گئی ہیں ان پر سامنے آنے والے عمومی تجزیوں کا لب لباب یہی ہے کہ جرم اگر سیر تھا تو اس پر احتساب سوا سیر کیا گیا ہے۔ عمران خان کو سنائی جانے والی سزائوں کو پی ٹی آئی کے حمایتی اور عمران خان کے پرستار سراسر قانون اور انصاف کا بلاتکار کہہ رہے ہیں جبکہ ن لیگ کے حامی اور میاں نوازشریف کو اپنا قائد تسلیم کرنے والے ان سزائوں کو اسی طرح مبنی بر انصاف قرار دے کر بغلیں بجا رہے ہیں جس طرح میاں نوازشریف دی گئی سزائوں پر عمران خان اور ان کی جماعت کے لوگوں نے خوشیاں منائی تھیں۔ اس معاملہ میں عجیب بات یہ ہے کہ غیر جانبدار قسم کے لوگ ایک دوسرے کی مخالفت کی انتہائوں پر موجود عمران خان اور میاں نوازشریف پر بنائے گئے مقدمات، ان مقدمات کی تفتیش اور ماتحت عدالتوں سے ملنے والی سزائوں کو ایک ہی قسم کے رویوں کے تحت کی گئی کارروائیوں کا نتیجہ اور تسلسل قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایسے لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عمران خان کو اسی طرح خاص منصوبہ بندی کے تحت سزا دی گئی ہے جس طرح میاں نوازشریف کو دی گئی تھی اور اعلیٰ عدالتوں میں ان سزائوں کا بھی وہی حشر ہوسکتا ہے جو میاں صاحب کو دی گئی سزائوں کا ہوا۔
یہ بات کہنے اور سننے میں تو بظاہر سادہ لگتی ہے کہ عمران خان اور میاں نوازشریف کو دی گئی سزائوں کی کارروائیاں باہم مماثل ہیں مگر گہرائی میں جاکر دیکھیں تو سزائوں کے ساتھ ان دونوں رہنمائوں کی زندگی میں اور بھی بہت کچھ مماثل نظر آتا ہے۔ میاں نوازشریف اور عمران خان کے سیاستدان بننے سے پہلے ان کی زندگی میں عملی سیاست کی برائے نام جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ ان دونوں کی سیاسی میدان میں آمد ایک جیسے ہاتھوں میں پرورش پانے کے بعد ہوئی۔ سیاسی انجینئرنگ کے مرہون منت عملی سیاست میں کچھ کامیابیاں ہاتھ آنے کے بعد ان دونوں نے خود کو اپنی پرورش کرنے والے ہاتھوں سے بالا سمجھنا شروع کر دیا ۔ ان دونوں کی زندگی کے معاملات کبھی بھی شفاف اور الزامات سے پاک نہیں رہے تھے لیکن جب انہوں نے اپنے پالن ہاروں کی بالا دستی تسلیم کرنے سے انکار کیا تو پھر ان کی ذات پر عائد جن الزامات کو ماضی میں کبھی قابل دست اندازی قانون نہیں سمجھا گیا تھا ان کے ساتھ ایسے الزامات کو بھی ہوشربا انکشافات کرتے ہوئے ان کے کھاتے میں ڈال دیا گیا جو پہلے کبھی سننے میں نہیں آئے تھے۔ میاں نوازشریف اور عمران خان میں یہ تشابہ بھی ہے کہ جب خاص قسم کے طریقہ واردات کے تحت کسی خاص میڈیا ہائوس پر ان کا ٹرائل کرنے کی کوشش کی گئی انہوں نے بھی ہو بہو طریقہ واردات استعمال کرتے ہوئے اس کا جواب دیا۔ اس مقابلہ میں بعض اوقات ایسے لگا جیسے ان دونوں کی حمایت اور مخالفت میں میڈیا پر پیش کیے گئے مواد کے خالق ایک جیسی ذہنیت کے حامل اور ایک ہی اکیڈمی کے تربیت یافتہ لوگ ہیں۔ صرف میڈیا ٹرائل کے دوران ہی نہیں ان دونوں نے عدالتوں میں اپنے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران بھی ایک جیسے رویے کا مظاہرہ کیا اور پھر جب ماتحت عدلیہ نے انہیں سزا سنائی تو غیر جانبداری کا تاثر دینے والے حلقوں نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہی ہے کہ سیر الزام پر سوا سیر احتساب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں جب ان کے خلاف احتساب کے نام پر کارروائیوں کا آغاز ہوا اس وقت پارلیمنٹ میں ان کا ساتھ دینے والی حزب اختلاف کی جماعت نے یہ مشورہ دیا تھا کہ تحفظات کی زد میں موجود عدلیہ کے ہاتھ اپنا گریبان دینے کی بجائے زیادہ بہتر یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو ریاست کا بالادست ادارہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا جائے۔ عدلیہ سے اکثر و بیشتر فیض پانے والے میاں نوازشریف نے پارلیمنٹ کی بجائے ججوں کے سامنے پیش ہونے کو ترجیح دی۔ ججوں نے ابتدا میں تو میاں نوازشریف کے خلاف پیش کیے گئے اخباری مواد کو پکوڑے بیچنے کے لیے استعمال ہونے والی ردی کہا مگر بعد میں نہ جانے کیا ہوا کہ تفتیش کے دوران اس ردی میں سے ایسے دس والیم برآمد ہو گئے جن کی بنا پر یہ دعوے ہوئے کہ سیاست کرنا تو دور کی بات اب میاں صاحب کے لیے جیل باہر آنا بھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔ میاں نوازشریف کے احتساب کے دوران کبھی بھی یہ نہیں لگا تھا کہ ان پر عائد الزامات بے بنیاد ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی ابھرتا رہا کہ ان کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضرورت سے زیادہ ہے۔
اب عمران خان کو سائفر اور توشہ خانہ کیس میں سزائیں سنانے کے لیے جو کچھ کیا گیا وہ بھی ضرورت سے زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ عمران خان نے خود پر عائد الزامات کا میڈیا کے محاذ پر اسی طرح مقابلہ کیا جس طرح میاں نواشریف نے کیا تھا۔ عمران خان نے بھی میاں نوازشریف کی طرح موافق ججوں سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کی تھیں مگر موافق ججوں کی موجودگی کے باوجود ان کی کوئی تمنا پوری نہ ہو سکی۔ عجیب بات ہے کہ موافق سمجھے جانے والے ججوں کی موجودگی میں تو عمران خان کی کوئی تمنا پوری نہ ہو سکی مگر اب غیر موافق سمجھے جانے والی ججوں کی سنائی گئی سزائوں کے بعد یہ کہا جارہا ہے کہ جس طرح کے احتسابی عمل اور سزائوں کے بعد میاں نوازشریف پھر سے سرخرو ہوئے اسی طرح سیر جرم پر سوا سیر احتساب کرتے ہوئے عمران خان کو بھی سرخرو کیا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button