ColumnTajamul Hussain Hashmi

وزارتیں کیسے ملتی تھیں

تجمل حسین ہاشمی

سیاسی قائدین کی کریڈٹبلٹی ان کے اپنے فیصلوں سے زیادہ ان کے لاڈلوں کے کارنامے ہیں، میں ان لاڈلوں کی بات نہیں کر رہا۔ لاڈلے ہر دور میں تبدیل ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ 100افراد کہیں بھی جائیں لاڈلے ہی رہتے ہیں۔ میں سیاسی لیڈروں کے لاڈلوں کی بات کر رہا ہوں، جو چوبیس گھنٹے دفتروں کی زینت ہوتے ہیں ۔ ’’ کتاب ایک سیاست کئی کہانیاں ‘‘ سے لیا گیا اقتباس : مسٹر ڈار اگر تم لوگوں کے پاس بم ہے تو واپس جائو اور پوری دنیا پر ثابت کر دو کہ واقعی کوئی بم تمہارے پاس ہے۔ یہ الفاظ اس وقت کے بھارتی وزیر تجارت رام کرشن کے تھے‘‘۔
28مئی کو بھارت تو کیا پوری دنیا نے دھماکے دیکھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے بڑی ثابت قدمی سے دھماکے کئے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار قابلیت کے ساتھ ساتھ سمجھ دار اور چالاک ہیں اور مسلم لیگ ن کے ساتھ وفا دار بھی ہے۔ اس وقت کے فنانس ٹیم نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا گیا کہ کرنسی اکائونٹس کو فریز کر دیا جائے ۔ اس وقت سب نے یہ سوچ کر فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کے پاس اس وقت 2۔1بلین ڈالر کے فارن کرنسی ریزروز موجود ہیں جبکہ ادائیگیوں کے لیے 11ارب ڈالر کی ضرورت تھی۔ اس وقت فنانس منسٹری کے پاس مسئلے کا یہی حل تھا، بینکوں میں موجود فارن کرنسی کو منجمد کیا جائے۔
انتہائی سیکرٹ فیصلے کی بھنک کچھ طاقتور لوگوں کو پہلے سے کیسے پہنچی، انہوں نے راتوں رات بینکوں سے ڈالر نکلوا کر باہر شفٹ کر دئیے تھے۔ 6نومبر 1998میں اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا گیا، اس وقت پاکستان کے ٹوٹل ریزرو 414 ملین ڈالر رہ گئے تھے۔ مشکل حالات میں سابق وزیر خزانہ نے ملک کے حالات کو سنبھالا دیا ۔ بقول ڈار صاحب سعودی شہنشاہ پرنس عبداللّہ، نواز شریف کو بہت پسند کرتے ہیں، جونہی پاکستان نے بم دھماکے کا تجربہ کیا، سعودی عرب دو ارب ڈالر کا مفت تیل دینے کے لیے رضا مند ہو گیا۔ سعودی ارب نے اس کے بدلے میں صرف ایک شرط رکھی تھی کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف یا مغربی ممالک کو اس بات کا پتہ نہیں چلانا چاہئے کہ سعودی عرب پاکستان کو مفت تیل دے رہا ہے، کیوں کہ ان حالات میں پاکستان پر پابندیاں لگ چکی تھیں۔ سعودی عرب کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔ اس شرط کا پتہ صرف سات لوگوں کو تھا، جنہوں نے راز کو راز رکھنا تھا۔ اسحاق ڈار جو ان دنوں لندن میں تھے، ستمبر 1999ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن کو اٹنیڈ کر کے واپس آ رہے تھے کہ گورنر سٹیٹ بینک یعقوب نے اسحاق ڈار کو بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کی جو ٹیم اسلام آباد میں مذاکرات کے لیے آئی ہوئی ہے اس کو فائنانس منسٹری کی ٹیم نے نہ صرف سعودی عرب کے دو ارب ڈالر سیکرٹ آئل کے بارے میں بتا دیا ہے بلکہ پاکستانی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں چار سے پانچ روپے کم کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔ یہ بات سن کر لندن میں موجود نواز شریف وفد سکتے میں آ گیا۔ میں ( رئوف کلاسرا ) نے اسحاق ڈار سے پوچھا کہ ان سات لوگوں میں سے کس نے وہ دو ارب ڈالر کا راز آئی ایم ایف کی ٹیم کو اسلام آباد میں بتایا تھا ؟، اسحاق ڈار مجھے اس شخص کا نام بتانے سے گریز تھے۔ وہی شخص جسے قومی راز افشا کرنے پر نواز شریف نے ڈس مس کیا تھا، وہ مشرف حکومت میں سیکرٹری جنرل فنانس کے عہدے پر تعینات ہوا۔ انہیں اس کا ریوارڈ دلوا دیا تھا۔ رئوف کلاسرا کا کہنا تھا میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیسے عالمی ادارے اپنے پاکستانی ایجنٹوں کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ قومی راز افشاں کرنے والوں کو کیسے نوازا گیا۔
نوازنے کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، جو کہ ابھی تک روکنے کا نام نہیں لے رہا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، ہمارا یہ المیہ ہے کہ قرضہ دینے والوں کو دوست سمجھتے ہیں، قرض دار کے بھی مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور پاکستان ریاست جب سے وجود میں آئی ہے دنیا اس وقت سے فکر مند ہے۔ غیر مسلم کیسے دوست ہو سکتے ہیں۔ قائد اعظمؒ کی تحریک کی بنیاد ہی الگ اسلامی ریاست تھی۔ ریاست کے حکمرانوں نے منشور کو بدل لیا ہے اور اپنا منشور بنا لیا اور آج دنیا کو لبرل ثابت کرنے کے چکر میں ایسے قوانین پاس کئے گئے ہیں جو اسلامی نظریات سے متصادم ہیں۔ سیاسی قائدین نے اپنے اپنے وزیر خزانہ بنا رکھے ہیں، جو لیڈروں کی سوچوں کو تحفظ دیتے ہیں۔ لیکن ریاست کسی ایک سوچ یا غیر اسلامی طرز زندگی کی متحمل نہیں ہو سکتی، سیاسی جماعتیں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے لیے سخت رویہ رکھتی ہیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ مشکل حالات میں خزانہ کے معاملات کو دنیا کے ساتھ بہتر مینیج کرنے میں اسحاق دار کا کردار کافی اہم رہا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی بہتر ریلیشن شپ رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے ساتھ رشتے داری بڑوں کا فیصلہ تھا، آج ملک کو معاشی تنگی کا سامنا ہے اور دوسری طرف روزانہ کی بنیاد پر سیکیورٹی فورسز کو دشت گردی کا سامنا ہے، ملک کو دن با دن کمزور صورتحال کا سامنا ہے ، چند دن بعد الیکشن سے ایک نئی امید معاشی صورتحال کو بہتر کرے گی، ’’ میں ( رئوف کلاسرا ) نے کہا ڈار صاحب ! آپ کے خیال میں نواز شریف حکومت کی سب سے بڑی غلطی کیا تھی، جس کی وجہ سے اس ملک میں 12اکتوبر کا مارشل لاء لگا ۔ بولے سب سے بڑی غلطی تو یہ تھی کہ فارن کرنسی اکائونٹس کو فریز نہیں کرنا چاہئے تھا۔ دوسرے احتساب کے نام پر جاری مہم نہ تو انصاف پر مبنی تھی اور نہیں ہی شفاف تھی۔ نواز شریف حکومت کو پھر سب کا احتساب کرنا چاہئے تھا ‘‘۔
کیا نواز شریف اپنے قریبی رشتہ دار اور سابقہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سوچ کو عملی طور پر نفاذ کریں گے یا پھر ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کی طرح پیچھے ہٹ جائیں گے۔ اگر عوام نے ان کو اس بار منتخب کیا۔ اس بار ان کا امتحان پہلے سے زیادہ سخت ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button