ColumnRoshan Lal

معاشی ترقی اور میاں نوازشریف

روشن لعل
دیگر پارٹیوں کے ا دوار کی نسبت میاں نوازشریف کے دور حکومت میں پاکستان کی بے مثال معاشی ترقی کے دعوے خود میاں صاحب اور مسلم لیگ کے ترجمانوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران محبوب مشغلہ بنا رکھا ہے۔ ترجمانوں نے مذکورہ مشغلے کی رجسٹری اس حد تک میاں نوازشریف کے نام کی ہوئی ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کی اپنے سولہ ماہ کے دور حکومت میں دکھائی گئی کارکردگی کا نام شغل میں لینا بھی پسند نہیں کرتے۔ معاشی پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں کے قریب پہنچ چکے وطن عزیز کی میاں نوازشریف کے دور حکومت میں ہونے والی مبینہ معاشی ترقی کے بارے میں ان کے مخالف چاہے جو بھی کہیں مگر اس کے حق میں امریکی میڈیا کمپنی بلوم برگ کی گواہی کو مسلم لیگ ن کے ترجمان تازہ ہوا کا جھونکا سمجھ رہے ہیں۔ تازہ ہوا کے اس جھونکے میں میاں نوازشریف کے مخالفوں نے یہ کہتے ہوئے بھاری مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ملانے کی کوشش کی کہ بلوم برگ کمپنی فری میڈیا ایجنٹ کی حیثیت سے اپنا کام نہیں کرتی بلکہ پہلے متنازعہ لوگوں کو اپنا کلائنٹ بناتی ہے اور پھر کلائنٹ کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کردار وہی ہوتا ہے جو کوئی وکیل اپنے قاتل یا مقتول کلائنٹ کے لیے ادا کرتا ہے۔ میاں نوازشریف کے مخالفین کی مذکورہ رائے کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بات بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ اگر بلوم برگ کا کردار مشکوک ہے تو اس کی رپورٹ رد کرنے والوں کی شہرت کونسی ہر حال میں اخلاقی اصولوں پر کاربند رہنے والوں کی سی ہے۔ بلوم برگ نے میاں نوازشریف کے ادوار حکومت کی مبینہ معاشی ترقی کے متعلق کیا رپورٹ پیش کی اور میاں صاحب کے مخالفین یہ رپورٹ کس جواز کے تحت رد کر رہے ہیں، ان باتوں کو ایک طرف رکھ کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حقیقی معاشی ترقی کی پیمائش کن اشاریوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
کسی حکومت کے دور میں ہونے والی معاشی ترقی کی پیمائش کے اشاریے یہ ہیں کہ اگر ملک میں جی ڈی پی اور فی کس آمدن میں اضافہ ، بے روزگاری کی شرح میں کمی، صحت اور مجموعی فزیکل ترقی کے معیار میں بہتری، انسانی ترقی کے طے شدہ اہداف کا حصول، درآمدات و برآمدات اور اندرونی و بیرونی ادائیگیوں میں توازن، صارفین کی قوت خرید میں اضافہ، ٹیکس دہندگان کا اطمینان بخش معیار زندگی ، معاشی ڈھانچہ میں بین الاقوامی معیار کے مطابق بہتری، جرائم کی شرح میں کمی، شہریوں کی اوسط آمدن اور بچت کی شرح میں اضافہ، مجموعی قومی آمدن میں اضافہ، ملک میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ، مفاد عامہ میں کی گئی تعمیرات کی تعداد میں اضافہ اور معیار میں بہتری، افراط زر کی شرح میں کمی، غربت کی شرح میں کمی، شہریوں کے معیارزندگی میں بہتری، آلودگی کی شرح میں کمی، اور معاشی ترقی کے حوالے سے وقتاًفوقتاً ناقابل تردید ڈیٹا کی اشاعت ہوتی رہے تو پھر ہی اس حکومت کے معاشی ترقی کے دعووں کو درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ میاں نوازشریف کے دور حکومت میں معاشی ترقی کی مذکورہ اشاریوں کے عین مطابق بہتری دیکھنے میں آئی تھی۔ اگر کسی حکومت کے دور میں مذکورہ اشاریوں کے مطابق معاشی ترقی ہوئی ہو تو وہ معاشی ترقی کبھی پانی کا بلبلہ ثابت نہیں ہوتی بلکہ اتنی مستحکم ہوتی ہے کہ آئندہ کسی نالائق حکمران کے منتخب ہونے کے باوجود بھی دھڑام سے نیچے نہیں گر جاتی۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد 44ماہ تک کسی واضح معاشی پالیسی پر عمل کرنے کی بجائے انتہائی ناعاقبت اندیشی سے حکومت کی۔ عمران خان کے اس طرح کے رویے کے ملک کی معیشت پر منفی ا ثرات ضرور مرتب ہوئے ہوئے مگر میاں نوازشریف کی زیر قیادت مسلم لیگ ن کی مبینہ معاشی ترقی کا پول ان کی حکومت کے آخری دو برسوں میں کھل چکا تھا جن میں ایک برس میاں صاحب خود اور دوسرے برس شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم رہے ۔
میاں نوازشریف کے ادوار حکومت میں ہونے والی جس مبینہ معاشی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے ہردل عزیز وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اس کام میں ماہر سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی ملک کے بوسیدہ معاشی ڈھانچے کو توڑنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سالہاسال خسارے کے بجٹ پیش کر کے محض یہ دعوے کیے کہ ان کا پیش کردہ بجٹ عوام کی خوشحالی اور ملک کی معاشی ترقی کا پیغامبر ثابت ہوگا۔ میاں نوازشریف کے ا داور حکومت میں اسحاق ڈار جو بجٹ پیش کرتے رہے ان کو بلوم برگ چاہے معاشی ترقی کا سبب کہتا رہے مگر تاریخ شاہد ہے کہ اس دور میں ملک کا معاشی ڈھانچہ بہتر ہونے کی بجائے پہلے سے بھی بدتر ہوا کیونکہ حسب سابق براہ راست ٹیکسوں کی بجائے بالواسطہ ٹیکسوں کو خزانے کے محصولات کا ذریعہ بنایا گیا۔ اسحاق ڈار کی Regressive Tax عائد کرنے کی گھسی پٹی پالیسی کے تحت ٹیکس ، کاروبار کے حجم یا منافع میں وسعت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہر کسی سے یکساں شرح سے وصول کیا گیا۔ بڑے بڑے کاروباروں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے والوں کے مالیاتی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ریونیو کی وصولی کا زیادہ تر بوجھ عوام اور چھوٹے کاروباری حضرات پر ڈالا گیا۔ قرضوں کی صورت میں حاصل کی گئی رقوم ایسے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی گئیں جن میں صرف مخصوص لوگوں کی صنعتوں کی پیداوار استعمال ہوتی ہے ۔ ایسی پالیسیوں کی وجہ سے خاص لوگوں کے کاروبار کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا ور منظور نظر لوگوں کو ہی منافع کمانے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئے۔ میاں نوازشریف اور اسحاق ڈار کی پالیسیوں کا فائدہ تو کاروباری خاندانوں کے لوگوں نے اٹھایا مگر قرضوں کی ادائیگی کا تمام تر بوجھ غریب عوام کی آنے والی نسلوں تک پر ڈال دیا گیا ۔
بلوم برگ نے میاں نواز شریف کے دور حکومت کو بہتر معاشی ترقی کا دور قرار دینے کے لیے مذکورہ حقیقتوں کو ہی نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس حقیقت سے بھی نظریں چرائیں کہ ان کی حکومت کے دوران کسی برس بھی زرعی و صنعتی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ کے اہداف پورے نہیں ہوئے تھے۔ ملکی پیداوار کے دو روایتی اور بڑے شعبوں میں پیداوار اور برآمدات کے اہداف پورے نہ ہونے کے باوجود ملکی معیشت کو بیرونی ملک مقیم پاکستانیوں کی زرمبادلہ کی شکل میں بھیجی جانے والی ترسیلات زر سے سہارا ملتا رہا ۔ بیرونی ملک مقیم پاکستانیوں کے ترسیلات زر کے علاوہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت میں کمی نے بھی پاکستان کی برآمدات مسلسل کم ہونے کے باوجود یہاں معیشت کو سہارا دیئے رکھا۔ واضح رہے کہ 2008سے 2013تک عالمی منڈی میں تیل کی قیمت اضافہ کے تمام ریکارڈ توڑتی ہوئے150ڈالر فی بیرل تک گئی تو 2014 سے2018کے دوران پٹرول کی کم سے کم قیمت 42ڈالر فی بیرل تک بھی آئی۔ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں اس حد تک کمی کے باوجود ، 2014سے2018کے دوران ملک34 بلین ڈالر کا مقروض ہو ۔ مذکورہ نام نہاد معاشی ترقی کی حقیقت یہ ہے کہ میاں صاحب کی رخصتی کے فوراً بعد پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button