ColumnTajamul Hussain Hashmi

ایف بی آر میں اصطلاحات

تجمل حسین ہاشمی
وفاقی کابینہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) میں اصلاحات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی قائم کی ہے جو مختلف امور سمیت اس بات پر بھی غور کرے گی کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ٹیکس جمع کرنے کے دو الگ شعبے بنا دئیے جائیں۔ منگل کو وفاقی کابینہ کو تجویز پیش کی گئی کہ ایف بی آر میں فیڈرل کسٹمز بورڈ اور فیڈرل ان لینڈ ریونیو کے شعبے علیحدہ کر دئیے جائیں۔
بنیادی طور پر ایف بی آر لینڈ ریونیو سروس اور کسٹمز سروس کے شعبوں پر مشتمل ادارہ ہے، دونوں گروپ ٹیکس کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ وزیر اعظم دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق اجلاس میں نگران وفاقی کابینہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تشکیل نو اور ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سے مشاورت پیش کی گئی۔ وزیراعظم نے ایف بی آر اصلاحات کے حوالے سے پیش کی گئی ان تجاویز کا جائزہ لینے کے لیے کابینہ اراکین کی آراء کی روشنی میں نگران وفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک بین الوزارتی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی۔ کمیٹی کے دیگر ممبران میں وفاقی وزیر برائے نجکاری، خارجہ امور، تجارت، توانائی، قانون و انصاف اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہوں گے۔ کمیٹی ان تجاویز کے حوالے سے اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کرے گی۔ وزیر اعظم اور کابینہ کے تمام ممبران نے مشترکہ طور پر ان ایف بی آر اصلاحات کے حوالے سے ان تجاویز کی تائید کی اور اس موقف کا اعادہ کیا کہ نگران حکومت ایف بی آر اصلاحات کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ کمیٹی کے مطابق ایف بی آر کی ازسرنو تشکیل کے لیے ایک ہزار قوانین میں ترمیم کرنا ہوں گی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے گزشتہ ہفتے اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ نے کمیٹی کے اجلاس میں ایف بی آر کو ان لینڈ ریونیو اور کسٹمز پر مبنی دو شعبوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بیان کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ادارے کی ری سٹرکچرنگ کے لیے ایک ہزار قوانین میں ترمیم کرنا ہو گی۔ دونوں اداروں کی نگرانی کے لیے اوور سائٹ بورڈ بھی قائم کیا جائے گا۔ ایف بی آر کی جگہ دو نئے ادارے بنائے جا رہے ہیں۔
معاشی امور کے ماہر صحافی شہباز رانا نے انٹر نیشنل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اصلاحات میں ایف بی آر کو ختم کیا جا رہا ہے اور ایف بی آر کی جگہ دو نئے ادارے بنائے جا رہے ہیں، ایک ان لینڈ ریونیو بورڈ اور دوسرا فیڈرل کسٹمز بورڈ بنایا جا رہا ہے۔ دونوں اداروں کی الگ الگ ذمہ داریاں اور الگ انتظامیہ ہو گی۔ ایف بی آر کا پالیسی فنکشن وہ ریونیو ڈویژن کو دیں گے۔ مزید بتایا کہ اس کا ٹیکس اکٹھا کرنے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ادارے کی تشکیل نو ہے، جس کا زیادہ فائدہ کسٹمز کو ہو گا، اس لیے ان لینڈ ریونیو گروپ کے ملازمین و افسران ان اصلاحات کے خلاف تھے۔ اصلاحات کا مقصد ٹیکس کا نظام مضبوط کرنا ہے۔ ماضی میں بھی ایف بی آر کے تشکیل نو اور اصلاحات کی بات کی جاتی رہی ہے لیکن ایف بی آر کی بیورو کریسی کی جانب سے مزاحمت کی جاتی رہی ہے۔ اس بار فرق یہ ہے کہ ایف بی آر اصلاحات کا فیصلہ ایس آئی ایف سی کے فورم پر ہوا ہے۔ جس کے بعد مزاحمت ہوئی، ایف بی آر کراچی دفتر میں ملازمین کی جانب سے ہڑتال بھی کی گئی۔ ایس آئی ایف سی کے دبائو پر ہی یہ سمری کابینہ میں منظوری کے لیے سیکرٹری ایف بی آر نے پیش کی ہے۔ ان اصلاحات کا مقصد ٹیکس ریونیو میں اضافہ اور ٹیکس نظام میں خامیوں کو دور کرنا ہے۔ یہ ازسرنو تشکیل یا ڈیجیٹلائزیشن تو کہیں نظر نہیں آ رہی بلکہ ایف بی آر ختم ہو جائے گا، دو بورڈ بن جائیں گے۔ کسٹمز علیحدہ ہو جائے گا، نجی ٹیکسز کا معاملہ بھی علیحدہ ہو جائے گا اور ان کا کنٹرول بھی نجی لوگوں کے پاس چلا جائے گا۔ کسٹمز کا حصہ الگ کرنا اور نجی ٹیکسز کو الگ کرنا، یہ کوئی اچھا آئیڈیا نہیں ہے۔ اب کسٹمز میں الگ ٹیکس ہو گا اور ڈومیسٹک مارکیٹ میں جب چیزیں آئیں گی تو نجی ٹیکس لگیں گے۔ کسٹمز اور ڈومیسٹک ٹیکس کو اکٹھا ہی رہنے کی ضرورت تھی۔ اس طرح ٹیکس ادا کرنے والوں کے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے ٹیکس کولیکشن بھی متاثر ہو گی اور حکومت مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے گی۔ بظاہر اس پر کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا، اس لیے ادارے کے اندر سے اس معاملے پر مزاحمت تھی۔ ماضی میں بھی کئی تجربات کئے جاتی رہے لیکن کسی سے کوئی افاقہ نہیں ہوا، ان تجربات سے ٹیکسز کی وصولی میں مسلسل کمی نظر آئی۔ دوسری طرف بڑھتی مہنگائی نے عوام کو کمر توڑ دی ہے۔ سرمایہ داروں نے ٹیکسز میں کمی ظاہر کرنے کے لیے قابل وکیلوں کی خدمات حاصل کی ہوئی ہیں، حال میں ہونے والے الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے قائدین کے گوشواروں میں ظاہر ہونے والے اثاثوں کی مالیت اور ان کے پروٹوکول اور زرعی زمینوں سے حاصل ہونے والی آمدن کا حساب کرنے میں ادارے ناکام ہیں، جب تک انصاف کی عملداری نہیں ہو گی اس وقت تک کوئی بھی پلاننگ کامیاب نہیں ہو گی، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تقسیم سے مطلوبہ نتائج حاصل ہونے مشکلات ہوں گی، وہی مشکلات آج بھی موجود ہیں، نجی ٹیکسز کی ادائیگی غریب عوام کے لیے پہلے ہی مشکل بنی ہوئی ہے۔ لوگوں کے پاس روزگار نہیں، وہ مزید ٹیکسز کے بعد مزید مہنگائی کو کیسے برداشت کریں گے۔ جو بھی اقدامات کریں اس میں گرائونڈ ورک ضروری ہو گا جس کی بنیاد پر نجی ٹیکس وصولی کی جائے۔ امیر ٹیکس غریب سے بھی کم ادا کر کے اپنے مال کو ڈبل بناتا جا رہا ہے اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے معاشرے میں تقسیم سے عدل و انصاف کے نظام میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ طاقتور اداروں کو اپنی سوچ سے چلانا چاہتا ہے لیکن آئین پاکستان کا تقاضہ انصاف پر مبنی ہے، جس پر چل کر ہی مساوات پیدا ہو گی۔ ادارے کی تقسیم مسئلہ نہیں بلکہ ان افراد سے وصولی کا مسئلہ ہے جو پاکستان کی حکومت سے زیادہ سرمایہ دار ہیں ۔ جو اپنا سرمایہ بیرون ملک جمع کر رہے ہیں، ان کا حساب ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button