ColumnImtiaz Aasi

فیصلے کا وقت

امتیا ز عاصی
قیام پاکستان کے وقت ملک کو جو سیاسی قیادت دستیاب تھی ان جیسے سیاسی رہنما خواب بن گئے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ، نواب زادہ لیاقت علی خان اور ان کے رفقاء کار نے راست بازی کی جو درخشاں مثالیںچھوڑیں کاش ان کے بعد آنے والے سیاست دان ان کی پیروی کرتے تو ہمارا ملک ترقی کے معاملے میں کہیں کا کہیں پہنچ چکا ہوتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک ہمارا ملک کرپشن کے معاملے میں کسی حد تک پاک تھا جس کی بنیادی وجہ بھٹو خود کرپشن میں آلودہ نہیں تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے اس کی سیاست انتقامی سیاست سے بھرپور تھی بھٹو میں یہ کمزوری نہ ہوتی تو وہ کہیں برس تک مزید حکمران رہ سکتا تھا۔ گو ہمارا ملک اپنے قیام سے اب تک مارشل لا کی لپیٹ میں رہا راست باز قیادت ہوتی تو مارشل لائوں سے نجات مل سکتی تھی۔1985سے ہمارا ملک کرپشن کی زد میں ایسا آیا بجائے کرپشن کے خاتمے کے اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے ہر دور میں اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن یہ ادارے اپنے اصل مقصد سے ہٹ گئے اور حکمرانوں کے مخالفین کو کچلنے میں لگ گئے جس کے نتیجہ میں نہ تو کرپشن کا خاتمہ ہو سکا نہ ہی اداروں کی نیک نامی میں اضافہ ہوا۔ پاکستان کے عوام کے لئے شفاف انتخابات خواب بن گئے ہیں۔ ملک کے وجود میں آنے کے بعد ماسوائے ایک مرتبہ جیتنے الیکشن ہوئے کسی نہ کسی حوالے سے متنازعہ رہے یا پھر انہیں متنازعہ بنایا جاتا رہا۔ عوام اس وقت سخت اضطراب میں ہیں انہیں اس بات کا یقین نہیں آرہا ہے کہ الیکشن منصفانہ اور شفاف ہوں گے۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن بارہا اس بات کی عوام کو یقین دہانی کرا چکے ہیں انتخابات منصفانہ ہوں گے باوجود اس کے جو ماحول اس مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے ملکی تاریخ کا منفرد الیکشن ہو گا ۔ آئین کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو عوام سے ووٹ لینے کے لئے یکساں ماحول کی فراہمی نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ عجیب تماشا ہے چند جماعتوں کو جلسوں اور انتخابی مہم چلانے کی آزادی ہے جب کہ بعض جماعتوں کو جلسے کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ اگر کسی نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی کوشش کی تو اسے جیل بھیج دیا گیا جس سے الیکشن کے منصفانہ ہونے کے امکانات کم رہ گئے ہیں۔ عوام کی بدقسمتی ہے قومی دولت لوٹنے والے سیاست دان بھیس بدل کر عوام کو طرح طرح کے سہانے خواب دکھانے پر لگے ہوئے ہیں۔ تعجب ہے جو سیاست دان سترہ ماہ کی حکومت میں عوام کو کوئی ریلیف دینے میں ناکام رہے ہیں وہی لوگوں کو مہنگائی کم کرنے کا نیا چکمہ دے رہے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت نے کئی سو یونٹ بجلی عوام کو فری دینے کا اعلان کیا ہے ۔ بھلا سوچنے کی بات ہے ایک غریب ملک جو ایران سے بجلی خرید کر لوگوں کودے رہا ہے کیا وہ ملک لوگوں کو فری بجلی فراہم کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ بس ایک عمران خان ملا ہوا ہے 76بر س کا گند اس پر ڈالا جا رہا ہے۔ مہنگائی کا ذمہ دار وہی ہے حالانکہ اس کے دور میں پی ڈی ایم کے دور سے کم تھی۔ عوام کو صحت کارڈ کارڈ کی بڑی سہولت اسی کے دور میں شروع ہوئی ۔ غریب ملک میں رہنی والوں کے لئے مفت علاج معالجہ کی بہت بڑی سہولت تھی۔ یہ سہولت صرف حق داروں کے لئے شروع کی جاتی تو شائد اب تک جاری رہ سکتی تھی۔ اب ہوا کیا جو لوگ اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے بھی صحت کارڈ کی سہولت سے خوب فائدہ اٹھایا جس کے نتیجہ میں اب غریب شہری اس سہولت سے محروم ہوگئے ہیں۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی کے بعد سیاست کے میدان میں وہی گھسے پٹے چہرے عوام کو میسر ہیں۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی نہ ہوتی تو کچھ سیاسی اکھاڑے میں کوئی نہ کوئی نئے چہرے سامنے آچکے ہوتے۔ عمرانی دور کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے جس میں کرپشن میں ملوث خاندانوں کو عوام کے سامنے لاکھڑا کیا گیا جس سے عوام میں ایسے سیاسی رہنمائوں سے نفرت ہو چکی ہے۔ گو ایسے سیاست دان ایک نئے لباس میں عوام کے سامنے ہیں اس کے باوجود ان کے خلاف عوام کے دلوں میں پیدا ہونے والی نفرت کم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انتخابات میں وقت ہی کیا رہ گیا ہے اس کے باوجود انتخابی مہم میں وہ جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آرہا ہے جس کی توقع کی جارہی تھی۔ بدقسمتی سے عوام کا عدلیہ پر ان کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے عدلیہ کے فیصلوں کو عوام صدق دل سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ عوام کی مقبول ترین جماعت کو کھڈے لائن لگانے کی ہر ممکن کوشش سے عوام کو من پسند امیدواروں کو ووٹ دینے سے روکا جا رہا ہے ۔ انتخابات میں ہونا کیا ہے جو لوگ آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں خواہ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کیوں نہ الیکشن میں حصہ لے رہے ہوں گے کامیابی کی صورت میں انہیں انہی پرانے چہروں کو ووٹ دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود عوام کو 8فروری کو گھروں سے نکلنا ہوگا اور اپنے ووٹ کے اہل امیدواروں کو کامیاب کرکے کرپٹ ٹولے کو شکست سے دوچار کرکے قائد کے پاکستان کی یاد تازہ کرنی ہوگی۔ ہمیں جن جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ سب کرپٹ سیاست دانوں کا کیا دھرا ہے۔ ملکی ترقی کا پہیہ جام ہو چکا ہے عوام مہنگائی میں پس رہے ہیں۔ ایک مخصوص طبقہ امیر سے امیر تر ہو رہا ہے جبکہ غریب عوام روٹی کو ترس رہے ہیں لہذا عوام کو چاہیے وہ انتخابات میں روایتی سیاست دانوں کو مسترد کرکے ملک کو ایک صاف ستھری قیادت فراہم کرنے کی بنیاد رکھیں اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے۔ 8فروری کو حالات کچھ بھی ہوں عوام ووٹ دینے کے ساتھ پولنگ سٹیشنوں پر پہرہ دینا ہوگا تاکہ کوئی ان کے ووٹ چوری نہ کر سکے۔ عوام اس مرتبہ بھی حق رائے دہی کا صحیح استعمال نہیں کیا تو آنے والی نسلیں انہیں معاف نہیں کریں گی لہذا ملک و قوم کی بھلائی اسی میں ہے لوگ کرپٹ سیاست دانوں ووٹ کی طاقت سے مسترد کرکے ان کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button