ColumnRoshan Lal

ججوں کا احتساب اور پتلی گلی

روشن لعل
سپریم کورٹ کے سابق جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ اس وقت میڈیا پر جاری تبصروں کا خاص موضوع بنا ہوا ہے۔ جسٹس مظاہر علی نقوی نے صدر مملکت کو پیش کیے گئے اپنے استعفے میں یہ کہا کہ اس وقت جو حالات ہیں وہ عوام کے علم میں اور ریکارڈ پر بھی ہیں، ایسے حالات میں ان کے لیے بطور سپریم کورٹ جج کام کرنا ممکن نہیں لہذا وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں جن ایک دو اداروں کے احترام کو آئینی تحفظ حاصل ہے ان میں عدلیہ بھی شامل ہے۔ عدلیہ کے جن ججوں کا احترام آئینی طور پر ہے ان کے فیصلوں پر تنقید تو ایک حد تک قابل برداشت سمجھی جاتی ہے مگر انکی حکم عدولی اور تضحیک کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا۔ جہاں ججوں کے احترام کو آئینی تحفظ حاصل ہو ، سوچا جاسکتا ہے کہ وہاں ججوں کے فیصلوں پر تنقید اور ان کی ذات پر تحفظات کا اظہار کس قدر مشکل اور احتیاط سے کرنے والا کام ہو سکتا ہے۔ مظاہر علی نقوی نے اپنے استعفے میں خود سے متعلق جن باتوں کے ریکارڈ پر اور عوام کے علم میں آنے کی طرف اشارہ کیا وہ باتیں صرف ان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے کئی سابقہ اور موجود منصفوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہیں۔ اس قسم کی باتوں کے برسر عام ہونے سے یہ صاف ظاہر ہے کہ عوام پر تو لازم ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے منصفوں سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے محتاط رہیں مگر خود منصف شاید اپنے عمل کے لیے کسی قسم کی احتیاط کو لائق توجہ نہیں سمجھتے ہیں۔ اگر سابق جسٹس مظاہر علی نقوی نے اپنے لیے واجب احتیاطوں کو درخور اعتنا سمجھا ہوتا تو آج ان کے مستعفی ہونے کی خبر شہ سرخیوں میں شائع ہونے کی بجائے اس قسم کی خبریں گردش کر رہی ہوتیں کہ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے خود کو سرخرو کرنے کے لیے ہر قسم کے احتساب کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گو کہ پاکستان میں ججوں کے افعال پر تحفظات کا اظہار انتہائی محتاط ہو کر کیا جانے والا کام ہے مگر اس کے باوجود ہمارے منصفوں کی ایسی سرگرمیوں کی خبریں برآمد ہوتی رہتی ہیں جنہیں قابل گرفت تصور کیا جاتا ہے۔ جو لوگ منصفوں کی قابل گرفت سرگرمیوں کی خبریں منظر عام پر لانے کی کوششیں کرتے ہیں وہ ایسا کرتے ہوئے کئی ناقابل گریز خطرات کو دعوت دے ڈالتے ہیں ۔ منصفوں سے متعلق خبریں سامنے لانے والوں کے لیے تو خطرات سے گریز ممکن نہیں رہتا مگر اس کے برعکس اس طرح کی خبروں کا ماخذ بننے والوں منصفوں کے لیے یہ عین ممکن ہوتا ہے کہ وہ جس قسم کے افعال اور الزامات کی بنا پر دوسروں کا احتساب کرتے ہیں اس قسم کے الزامات خود پر عائد ہونے کے بعد احتساب کا سامنا کرنے کی بجائے پتلی گلی سے نکل جائیں۔
سابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سپریم جوڈیشل کمیشن میں خود پر لگنے والے مس کنڈکٹ اور کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے کی بجائے پتلی گلی سے نکلنے والے پہلے جج نہیں ہیں ۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کے لیے 1973ء کے آئین میں درج سپریم جوڈیشل کونسل کا کردار قبل ازیں 1962ء کے آئین میں بھی وضع کیا گیا تھا ۔ جنرل ایوب کے دور حکومت میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس اخلاق حسین نامی جج کو گھر بیج دیا تھا۔ جنرل یحییٰ نے مارشل لا لگانے کے بعد 1962ء کے آئین کی جگہ جو لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا اس میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ختم نہیں کیا گیا تھا۔ یحییٰ خان کے دور میں لاہور ہائیکورٹ کے شیخ شوکت علی نامی جج کا مس کنڈکٹ کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت آنے بعد انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ جس فیصلے کے تحت سابق جسٹس شیخ شوکت علی کو ہٹایا گیا اس میں دیگر نکات کے علاوہ ایک پیراگراف میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کسی جج کے خلاف کاروائی کو ضابطہ فوجداری یا سول قانون کے تحت کی گئی کارروائی کی بجائے انتظامی محکمانہ انکوائری سمجھا جائے۔ یہ شاید اس پیراگراف کا اثر تھا کہ بعد ازاں جن بھی ججوں پر مس کنڈکٹ یا کرپشن جیسے الزامات عائد ہوئے ان کی اکثریت نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے سرخرو ہونے کی بجائے مستعفی ہو کر پینشن جیسی مراعات سے فائدہ اٹھانے اور اعلیٰ عدالتوں میں وکالت کرنے کا موقع برقرار رکھنے کو ترجیح دی۔ جن ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل میں خود پر عائد الزامات کا دفاع کرنے کی بجائے مستعفی ہونے کو ترجیح دی ان میں ایک انتہائی اہم نام سابق جسٹس ملک قیوم کا بھی ہے جن کی ایسی آڈیو ٹیپ سامنے آئی تھی جس میں وہ آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو سزا دینے کے لیے احتساب بیورو کے سیف الرحمٰن سے ہدایات لے رہے تھے۔ اسی طرح لاہور ہائیکورٹ کے فرخ عرفان نامی جج نے پانامہ پیپرز میں نام آنے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی شروع ہونے سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
سابق جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی پر مس کنڈکٹ کے الزامات کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں کاروائی شروع ہوئی تو انہوں نے مستعفی ہونے کی بجائے خود پر عائد الزامات کا دفاع کرنے کو ترجیح دی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ اپنے خلاف آنے پر بھی وہ خاموش نہیں بیٹھے بلکہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ۔ شوکت عزیز صدیقی کی درخواست پر سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے پر سپریم کورٹ میں جو کاروائی جاری ہے اس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر دبائو ڈال کر من پسند فیصلے کروانے کے حوالے سے ایسے ہوشربا انکشافات سامنے آرہے ہیں جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ہماری عدلیہ کے کردار اور عدالتی نظام کو کسی طرح بھی شفاف نہیں سمجھا جاسکتا۔
پاکستان میں سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجے گئے ریفرنس کا کافی چرچا ہوا تھا۔ افتخار محمد چودھری وکلا تحریک کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر بحال ہونے کے بعد اپنے تئیں ملک کے سب سے بڑے محتسب بن بیٹھے مگر انہوں نے اپنے اندر کبھی بھی ان الزامات کا دفاع کرنے کی جرات پیدا نہ کی جو ان کے خلاف دائر ریفرنس میں لگائے گئے تھے ۔ سب سے بڑے محتسب ہونے کے دعویدار افتخار محمد چودھری نے نہ صرف خود سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہونے سے گریز کیا بلکہ ان ججوں کا سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوکر اپنا دفاع کرنے کا حق بھی چھین لیا جنہیں پی سی او جج ہونے کا الزام لگا عدالتی فیصلے کے تحت فارغ کر دیا گیا تھا جبکہ انہیں ان کے عہدے پر برقرار رکھنے یا ہٹانے کا آئینی اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس تھا۔
وطن عزیز میں جن ججوں کو پوری قوم کے احتساب کا حق دیا گیا ہے انہیں یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ خود پر عائد سنگین سے سنگین الزام کا سامنا کیے بغیر کسی بھی وقت پتلی گلی سے محفوظ ترین راہ فرار اختیار سکتے ہیں ۔ سید مظاہر علی اکبر نقوی بھی محفوظ راہ فرار کے لیے پتلی گلی استعمال کر چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button