ColumnTajamul Hussain Hashmi

آپ کا یقین آپ کی خوش قسمتی ہے

تجمل حسین ہاشمی
ہمارے رب نے فرمایا ہے کہ ’’ میں نے انسان کو بہت خوب صورت پیدا کیا ہے ‘‘
اور ہم ایک دوسرے کے لئے کیسے کیسے القابات اور جملے کستے ہیں، انسان کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرتا، اپنی واہ واہ سننا چاہتا ہے۔ طاقتور رہنا چاہتا ہے، راستے بھی کلیئر چاہتا ہے، سیکیورٹی کا حصار پسند ہے۔ مرضی کے فیصلے چاہتا ہے لیکن یہ کبھی نہیں سوچتا کہ جس نے یہ دنیا بنائی ہے، اس نے انسان کو پیدا کیا۔ تھوڑا فرض کرو اگر یہ لوگ ہی نہ رہیں تو تم کس پر حکمرانی کرو گے، اکیلے کیا کرو گے، وہ ورلڈ ریکارڈ بنانے والے (wallenda) والنڈا کا کہنا تھا ’’ میں بہت برکت والا ہوں ۔ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ میں نے جو زندگی حاصل کی ہے‘‘۔ کئی سو فٹ کی اونچائی پر بندی رسی پر ہزاروں انسانوں کے سامنے چلا۔ وہاں بیٹھے ہزاروں انسانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ 2انچ باریک رسی پر چل رہا تھا، لوگوں نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں، یقینا اس خطرناک کرتب پر وہ داد کا مستحق تھا۔ وہاں بیٹھے لوگوں نے خوب داد دی، کئی سو فٹ اونچائی پر بندی رسی پر چلنا کتنا مشکل ہے، چلنے والے کو بھی پتہ ہے کہ ذرا سی غلطی، زندگی کی آخری غلطی ہو گی۔ لیکن وہ اس رسی اپنا کرتب دکھا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر سکون اور اطمینان تھا، چہرے پر کوئی خوف نہیں تھا، مسکراتا ہوا اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس نے وہ کر دکھایا جو کوئی دوسرا نہ کر سکا، ہزاروں کی تعداد میں اس کے کرتب کو دیکھ رہے تھے۔ لوگ کئی منٹ تک تالیاں بجاتے رہے۔ یقین کامل اور اطمینان اس کی کامیابی تھا، پھر اس نے رسی پر سائیکل چلا کر لوگوں سے داد وصول کی۔ ہر طرف تالیوں کا شور تھا۔ لوگ داد میں کئی منٹ تک کھڑے رہے پہلے سے زیادہ شور، اس کو خوش آمدید کہا گیا، وہ مسکرا رہا تھا، اس کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی، وہ اپنے مستقبل کے متعلق خوفزدہ نہیں تھا، اپنے چاہنے والوں کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا تھا، ابھی اس کا کرتب ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنے سیکنڈ کرتب کی تیاری میں تھا لیکن اڈینس کا شور ختم نہیں ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہاں بیٹھے لوگوں کے سانس رک گئی، دنیا ٹی وی پر دیکھ رہی تھی، لوگوں کے چہرے مرجا گئے، کوئی چیخیں مار تھا اور کوئی اونچی اونچی آوازیں دے رہا تھا۔(wallenda)والینڈا کا کرتب ہزاروں کی تعداد میں اڈینس دیکھنے کے لیے موجود تھی، بیٹھے لوگوں کی کیفیت نا قابل بیان تھی۔ اس دفعہ وہ اکیلا نہیں تھا، اس کے ساتھ اس کی فیملی بھی تھی، وہ اپنی فیملی کے ساتھ اس رسی پر سائیکل چلانے کے لیے تیار تھا۔ یہ تاریخی سین دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں، لیکن اس کو یقین تھا کہ وہ یہ کرتب کر لے گا۔ اس کو کوئی خوف نہیں تھا کہ اس کی فیملی ساتھ ہے۔ اگر کچھ ہوا تو پورے فیملی ممبر ختم ہو جائیں گے۔ اس کو پکا یقین تھا۔ چھوٹی سی غلطی کتنی خطرناک ہو سکتی تھی۔ غلطی کے نتیجے کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ کیسا خطرناک کھیل وہ کھیلنے کے لیے تیار تھا، سب کچھ تیار ہو چکا تھا اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ سائیکل پر سوار تھا، الارم بجا اور وہ رسی پر سائیکل چلا رہا تھا۔ اس کے فیملی ممبر بھی ہاتھ ہلا کر لوگوں سے داد وصول کر رہے تھے۔ یقینا آپ کو بھی یقین نہیں آ رہا ہو گا۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ ورلڈ ریکارڈ بنا ڈالا۔ دنیا کو حیران کر دیا۔ اڈینس کھڑی ہو گی، ہر طرف شور تھا، کئی منٹ تک لوگ نعرے اور تالیاں بجاتے رہے، لوگوں کا شور تھا اور وہ مسکراتا ہوا اپنی فیملی ممبرز کے ساتھ کمرے میں چلا گیا۔ اڈینس نے جی بھر کر داد دی۔ اس کے یقین کی جیت پوری دنیا نے دیکھی۔ ظاہری جیت کا منظر لوگوں نے دیکھا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لوگ حیران تھے۔ باہر آ کر اڈینس کو مخاطب کیا کوئی ہے جو میرے ساتھ اس سائیکل پر بیٹھے گا۔ ہزاروں افراد میں سے کسی نے ہمت نہیں تھی۔ لیکن wallendaکا یقین پکا تھا۔ ایسے کئی کرتب اس نے اپنی زندگی میں کئے۔ وہ خود کو نصیب والا کہتا تھا۔ اللّہ نے ہم انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا، مسلمانوں کو حضورؐ کا امتی بنایا گیا، حضورؐ کے نام پر مرنے مٹنے کے لیے تیار ہیں، لیکن یقین کامل نہیں ہے، اپنے بچوں کے رزق کے لیے دوسروں کے مال پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر حق تلفی کرتے ہیں۔ حقوق کی پامالی کرتے ہیں، پانچوں وقت نماز ادا کرتے ہیں لیکن ناپ تول میں چور ہیں، سرکاری ٹیکسز کے چور ہیں، فرد واحد کے ساتھ ریاستی ادارے بھی چور ہیں، عوامی منصوبوں پر اربوں روپے پر ہاتھ صاف کرتے ہیں اور عدالتوں سے کلین چٹ حاصل کر کے خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ ایسا کمزور یقین صرف کلمہ گو والوں کا ہے۔ اللّہ پر یقین صرف زبان کی حد تک ہے، جب اللّہ پاک نے واضح فرمایا دیا کہ تمہارے رزق کا ذمہ میرا ہے، تو پھر اتنی بے یقینی کیوں، یہی بے یقینی آج مسلمانوں کے زوال کا سبب بنی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں عدل و انصاف قائم ہے، لیکن معاشرہ اور اداروں میں بڑھتی تفریق مزید کمزور کرتی جا رہی ہی۔ یقین کریں کہ وہی تمام جہانوں کا مالک ہے، اربوں ڈالر کے مالک بھی سکون میں نہیں ہیں، جب تک اس کی ذات سکون نہیں دے گی، بظاہر ہوٹر والی گاڑیوں میں بہت سکون دکھتا ہے، لیکن حقیقت بہت مختلف ہے، سکندر بادشاہ مرنے سے پہلے کہتا تھا کہ کاش میں دنیا کو فاتح کرنے کا نہ سوچتا۔ ایک عام آدمی کی طرح سکون والی زندگی گزارتا۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ ہدایت اللّہ نے دینی ہے لیکن ہم لوگ یقین کے ساتھ اللّہ پاک کے احکامات پر عمل نہیں کرتے، اس لیے آج خراب معاشی صورتحال میں بری طرح پھنس گئے ہیں، ہمارے پاس نجات کا صرف ایک ہی راستہ بچا ہے، وہ صرف اسلام ہے، جس کی بنیاد پر دنیا قائم ہے، پاکستان کی بنیاد ہی اسلام ہے اور ہم کسی اور چکروں میں مگن ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button