ColumnImtiaz Aasi

عدم پتہ مقدمات، اصلاحات کی ضرورت

امتیاز عاصی
جنرل پرویز مشرف کے دور میں پولیس آرڈر 2002متعارف کرایا گیا جس کا مقصد چاروں صوبوں کی پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔ پولیس آرڈر کے آرٹیکل 11کے تحت مقدمات کی تفتیش کے شعبہ کو علیحدہ کر دیا گیا تاکہ مقدمات زیادہ سے زیادہ چالان ہو سکیں۔ ہماری معلومات کے مطابق پولیس آرڈر پر کے پی کے میں من وعن پر ہو رہا ہے جب کہ بقیہ صوبوں میں اس پر عمل درآمد رسمی طور پر کیا جا رہا ہے۔ تھانوں میں درج ہونے والے مقدمات کی تین صورتیں ہوتی ہیں ملزمان گرفتار ہوگئے تو مقدمہ ٹریس ہو گیا۔ ملزمان نامعلوم ہوں تو مقدمہ عدم پتہ یعنی untraceable چلاگیا۔ تیسری اور آخری صورت میں اگر تین ماہ کے اندر ملزمان گرفتار نہ ہوں او ر وقوعہ بارے کوئی شہادت نہ ملے تو مقدمہ کی اخراج رپورٹ متعلقہ سپرنٹنڈنٹ پولیس کی وساطت سے علاقہ مجسٹریٹ کو بھیج دی جاتی ہے۔ علاقہ مجسٹریٹ سمجھے کہ مقدمہ خارج نہیں ہونا چاہیے تو وہ دوبارہ تفتیش کے لئے متعلقہ پولیس سٹیشن کو واپس بھیج سکتا ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ستر ہزار مقدمات خارج ہوئے ہیں اور ناقص تفتیشی نظام سے لاکھوں مقدمات عدم پتہ ہوئے ہیں۔ صرف صوبائی دارالحکومت لاہور میں اکتیس ہزار مقدمات خارج ہوئے۔ صوبے کے تمام پولیس اسٹیشنوں میں کل ایک لاکھ سے زائد مقدمات عدم پتہ بھیجے گئے جو محکمہ پولیس پر سوالیہ نشان ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں گیارہ سو ملزمان سزائوں سے بچ گئے جبکہ گزشتہ سال پنجاب میں انیس ہزار ملزمان کو سزائیں نہ ہو سکیں۔ رپورٹ کی روشنی میں دیکھا جائے تو ملزمان کی سزائوں کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں تک اختیارات کی بات ہے پولیس آرڈر میں ریجنل پولیس آفیسروں کو خاصے اختیارات دیئے گئے مگر عملی طور پر اختیارات صوبائی پولیس سربراہ کے پاس ہیں۔ پولیس آرڈر کے تحت ہر ضلع میں ایس پی انویسٹی گیشن تو تعینات کر دیئے گئے ہیں اختیارات ڈسٹرکٹ پولیس آفیسروں کے پاس ہوتے ہیں۔ مقدمہ کا چالان بھیجنا ہو تو حلقہ پولیس آفیسر جو آپریشن کا انچارج ہوتا کے دستخط ہوتے ہیں۔ چالان مرتب کرنے کا اختیار ایس پی انویسٹی گیشن کی بجائے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کے پاس ہے۔ مالی اختیارات ایس پی انویسٹی گیشن کے پاس بالکل نہیں ہیں بلکہ وہ ڈی پی اوز کے مرہون منت ہوتا ہے۔ ماضی میں کوئی مقدمہ کی تفتیش تبدیل کرنے کا خواہاں ہوتا تھا تو ضلع کا ایس پی یہ کام کرنے کا بااختیار ہوتا تھا۔ جب سے پولیس آرڈر کا نفاذ ہوا ہے مقدمہ کی تفتیش ٹرانسفر کرنے کے لئے باقاعدہ بورڈ قائم کیا گیا ہے جس میں ضلعی ڈی پی اوز، ایس پی انویسٹی گیشن کے علاوہ آر پی او کا ایک نمائندہ شامل ہوتا ہے بورڈ کا اجلاس ایک ماہ میں ایک مرتبہ بلایا جاتا ہے۔ گویا تفتیش تبدیل کرانے کا طریقہ کار لمبا ہو گیا ہے ورنہ تو ضلع کا ایس پی یہ کام کر دیا کرتا تھا۔ مشرف دور میں محکمہ پولیس کے ملازمین کی تنخواہوں میں اس طرح اضافہ کیا گیا کہ بنیادی تنخواہ کے برابر خصوصی الاونس دیا گیا جس میں کئی ایک پولیس افسران الاونس سے ابھی تک محروم چلے آرہے ہیں الغرض ایس پی انویسٹی گیشن کے پاس کسی قسم کے مالی اختیارات نہیں ہوتے۔ ہم پنجاب پولیس کی طرف سے درج ہونے والے مقدمات کے چالان ہونے یعنی ملزمان کو سزائیں ہونے اور داخل دفتر ہونے والے مقدمات کی بات کر رہے تھے۔ سچ تو یہ ہے اس وقت محکمہ پولیس کا یہ حال ہے جرم کرنے والا بذات خود آکر تھانے میں کہہ دے اس نے فلاں جگہ چوری کی ہے یا ڈاکہ مارا ہے تو پولیس اس کی گرفتاری ڈال دے گی۔ یہ علیحدہ بات ہے بڑھتی ہوئی آباد ی کے اعتبار سے جتنی پولیس فورس ہونی چاہیے وہ نہیں ہے بلکہ پولیس فورس کی ہمیشہ کمی رہی ہے جس کی بنا پولیس کو مقدمات کی تفتیش کے علاوہ ملزمان کی گرفتاری میں مشکلات کا پیش آنا قدرتی بات ہے۔ پولیس سٹیشنوں میں ٹرانسپورٹ کی بہت کمی ہے ایک تھانے میں ایک سے زیادہ گاڑی نہیں ہے۔ گاڑیاں پرانے دور کی ہیں جو ملزمان کا پیچھا کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ ہر آنے والی حکومت پولیس کو جدید بنانے کے دعویٰ کرتی ہے مگر عملی طور پر اس سلسلے میں کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیں یاد ہے نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے، ارکان اسمبلی کی سفارش پر تحصیل دار، نائب تحصیل دار اور اسٹنٹ سب انسپکٹر بھرتی کرنے کی منڈی لگ گئی، بے شمار پولیس افسر سفارش پر بھرتی کر لئے گئے، جو اب کم از کم ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدوں پر تعینات ہوں گے۔ شہباز شریف کے دور میں ایسی بھرتیاں ہوئیں البتہ نواز شریف دور کے مقابلے میں بہت کم ہوئیں جس کے بعد ان عہدوں پر تعیناتی کا اختیار پنجاب پبلک سروس کمیشن کو دے دیا گیا۔ پنجاب پولیس میں اے ایس آئی اور سب انسپکٹر کے عہدوں پر بھرتی پی پی ایس سی کی وساطت سے ہوتی ہے۔ دراصل جن محکموں میں سفارشی بھرتی کر لئے جائیں ایسے محکموں کی کارکردگی کبھی حوصلہ افزا نہیں ہو سکتی۔ ہم مقدمات کی تفتیش کی بات کر رہے تھے۔ مقدمات کی تفتیش بہت اہم بات ہے اگر کسی مقدمہ کی تفتیش میں کوئی ایک قانونی خامی رہ جائے تو مقدمہ کے ملزمان بری ہوجاتے ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے پولیس قتل جیسے سنگین جرم میں ملزم کو چھوڑ نہیں سکتی البتہ ملزم پارٹی سے مبینہ ساز باز کے نتیجہ میں مقدمہ کے چالان میں بعض ایسی خامیاں چھوڑ دی جاتی ہیں جن سے ملزمان ماتحت عدالتوں سے سزا یاب ہو بھی جائیں تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے بری ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پولیس ملزمان کو ایسے راستے خود بتاتی ہے جیسا کہ اسلحہ کی رپورٹ نل(Nil)کر لی جاتی ہے۔ آلہ قتل بدل دیا جاتا ہے۔ مدعی فریق کی طرف سے چشم دید گواہان کی عدم موجودگی کے بعد کمزور شہادت رکھ دی جاتی ہے نقشہ مضروبی میں ردوبدل ہو جاتا ہے۔ دوران تفتیش روزنامچہ کی کمزوریاں چھوڑ ی جاتی ہے جن سے ملزمان کا بری ہونا یقینی ہو جاتا ہے۔ صوبے میں اتنی بڑی تعداد میں مقدمات کا عدم پتہ چلے جانا پولیس آرڈر 2002کی اسے کامیابی یا ناکامی کہیے گا؟۔ حقیقت ہے مشرف دور میں جاری ہونے والا پولیس آرڈر بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ پہلی بات ملزمان گرفتار نہیں ہوتے ہو جائیں تو سزائوں سے بچ جاتے ہیں لہذا محکمہ پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button