ColumnRoshan Lal

سندھ اور ون یونٹ

تحریر : روشن لعل
تاریخ کسی ملک کی ہو، علاقے کی یا لوگوں کی ، اسے مسخ بھی کیا جاسکتا ہے اور دبایا بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یاد رہے اب معلوم تاریخ کو فنا کرنا ممکن نہیں رہا۔ تاریخ چاہے مسخ کی ہوئی ہی کیوں نہ ہو ، سیکھنے کی جستجو رکھنے والے اس میں سے بھی بہت کچھ پا لیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ انتہائی مختصر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملک کی تاریخ کا ہر باب عوام کے سامنے رقم ہوا مگر پھر بھی اسے مسخ کرنے یا دبانے کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک باب ون یونٹ کا قیام بھی ہے۔ اس باب کا تذکرہ بہت کم تجزیہ کاروں کی تحریروں یا گفتگو کا موضوع بن پاتا ہے۔ اس باب کا نہایت اہم پہلو سندھ کا ون یونٹ میں شامل کیا جانا ہے۔ ون یونٹ کی تاریخ رقم کرتے وقت قائد اعظمؒ کی تجاویز دہلی کی تاریخ، قائد اعظم کے چودہ نکات کی تاریخ اور قرار داد لاہور کی تاریخ کو بری طرح فراموش کیا گیا تھا۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ ون یونٹ کے قیام کی کوششوں اور قرار داد مقاصد پاس کرانے کی تیاری کا آغاز ایک ساتھ ہوا۔ قرارداد مقاصد 7مارچ 1949ء کو قومی اسمبلی میں پیش کر کے12مارچ کو پاس کروائی گئی جبکہ ون یونٹ کے قیام کی تجویز ملک فیروز خان نون نے قرارداد مقاصد سے بھی پہلے 2مارچ 1949ء کو اسمبلی میں پیش کی تھی۔ اگلے دن اس تجویز کی حمایت کرنے والوں میں جہاں آرا شہناز، چودھری محمد علی، مشتاق احمد گورمانی اور ممتاز محمد خان دولتانہ پیش پیش تھے۔ اس وقت مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے سیاستدانوں کے ساتھ مشرقی پاکستان کے کچھ اراکین اسمبلی نے بھی اس تجویز کی مخالفت کی مگر اس مخالفت کو حقیر سمجھ کرو ن یونٹ بنانے کی کوششیں جاری رکھی گئیں۔
اپریل 1953ء میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے والے محمد علی بوگرہ نے 1954ء کے آغاز میں کمانڈر انچیف ایوب خان کو وزیر دفاع اور ریٹائرڈ جنرل سکندر مرزا کو وزیر داخلہ کی حیثیت سے اپنی کابینہ کا حصہ بنایا۔ بعد ازاں ایوب خان نے دعویٰ کیا کہ ان کی کوششوں اور منصوبے کے تحت ون یونٹ کا قیام عمل میں آیا۔ محمد علی بوگرہ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں آئین کی تشکیل اور ملک کے پانچ صوبوں بنگال ، پنجاب، سندھ ، سرحد اور بلوچستان میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم کے فارمولے کی تیاریوں کا عمل تیز ہوا۔ اس دوران جب زیادہ آبادی کے حامل مشرقی پاکستان کو قومی اسمبلی میں زیادہ سیٹیں ملنے کی وجہ سے اس کے غلبے کا امکان پیدا ہوا تو اس ممکنہ غلبے کے توڑ کے لیے ون یونٹ کا قیام ناگزیر سمجھتے ہوئے اس کے لیے ہر جائز و ناجائز حد تک جانے کا فیصلہ کیا گیا۔
24 اکتوبر1954ء کو قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کی وجہ سے ون یونٹ کے قیام کے لیے اس وقت تک موجود صوبائی اسمبلیوں سے منظوری لینا ضروری تھا۔ اس مقصد کے لیے پنجاب، سرحد اور سندھ کی اسمبلیوں میں ون یونٹ کے قیام کے لیے قراردادیں پیش کی گئیں۔ اسی طر ح مغربی پاکستان میں موجود خود مختار ریاستوں کے حکمرانوں کو بھی ون یونٹ میں انضمام لے لیے کہا گیا۔ خیر پور وہ پہلی ریاست ثابت ہوئی جس کے حکمرانوں نے کسی حیل و حجت کے بغیر ون یونٹ میں شمولیت پر رضامندی ظاہر کی۔ اسی طرح دوسری ریاستوں نے بھی اس سلسلے میں خیر پور کی پیروی کی۔ اراکین پنجاب اسمبلی نے انتہائی جوش و خروش اور اتفاق رائے سے ون یونٹ کے حق میں قرارداد منظور کی ۔ سندھ ایسا واحد صوبہ ثابت ہوا جس کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پیرزادہ عبدالستار نی ون یونٹ کا حصہ بننے سے صاف انکار کیا ۔ ون یونٹ قائم کرنے کے لیے طاقتور مرکز نے صوبہ سندھ میں جو کچھ کیا اس سے آگاہی کے بعد ذی فہم لوگوں کو یہ اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی کہ ناپسندیدہ سیاستدانوں پر بد عنوانی کے الزام لگانے والوں کے اصل عزائم وہ نہیں ہوتے جن کا وہ اظہار کرتے رہتے ہیں۔ سندھ کے بعد جہاں ون یونٹ کی نمایاں مخالفت ہوئی وہ صوبہ سرحد تھا۔
1951 ء میں سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کو بدعنوانی کے الزامات لگا کر پروڈا (PRODA)ایکٹ کے تحت سیاست میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ نااہل ہونے کے باوجود ایوب کھوڑو کا سندھ کی سیاست میںاثر و رسوخ باقی رہا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے ایوب کھوڑو کو پیشکش کی کہ اگر وہ سندھ اسمبلی سے ون یونٹ کے حق میں قرار داد منظوری کی راہ ہموار کرے تو نہ صرف اس کی نااہلی کی سزا ختم کر دی جائے گی بلکہ اسے ون یونٹ کے آغاز تک صوبہ کا وزیر اعلیٰ بھی بنا دیا جائے گا۔ ایوب کھوڑو نے اپنے دست راست پیر علی محمد راشدی کے ساتھ مل کر سندھ اسمبلی کے اراکین کی اکثریت کو اپنے زیر اثر کر لیا مگر 1847ء سے 1936ء تک سندھ کو ممبئی سے علیحدہ کرنے کی تحریک چلانے والے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے والے سندھیوں نے ایسے سیاستدانوں کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ سندھ کے وکیل، طلبا اور ذی شعور شہری اپنے صوبے کی ون یونٹ میں شمولیت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ ایوب کھوڑو کی حکومت نے ایسے لوگوں پر بہیمانہ تشدد کیا۔ سندھ اسمبلی کے ایسے تمام رکن جنہیں کسی دبائو یا لالچ کے تحت ون یونٹ کے حق میں ووٹ دینے کے لیے راضی کیا گیا تھا انہیں ایسے مقامات پر ٹھہرا گیا جہاں نہ وہ آپس میں اور نہ ہی عام لوگوں اور صحافیوں سے مل سکتے تھے۔ ایسے اقدامات کے باوجود جن اراکین سندھ اسمبلی کو ون یونٹ کی حمایت کے لیے راضی نہ کیا جاسکا انہیں یا تو اغوا کرا لیا گیا یا پھر ان پر بھینس یا بکری چوری جیسے مقدمات بنا دیئے گئے۔ یوں ایوب کھوڑو سندھ اسمبلی ہال کراچی کی بجائے حیدر آباد کے دربار ہال میں بلائے گئے اجلاس سے11دسمبر 1954ء کو ون یونٹ کے حق میں قرارداد منظور کرانے میں کامیاب ہوا۔ اس کے بعد ایوب کھوڑو اس وقت تک سندھ کا وزیر اعلیٰ رہا جب تک 14اکتوبر 1955ء کو ون یونٹ انتظامیہ کو صوبہ مغربی پاکستان کے اختیارات منتقل نہیں ہوئے۔ ون یونٹ کے قیام کے بعدسابقہ صوبوں کے اثاثے ان کے دارلحکومتوں سے مغربی پاکستان کے دارالحکومت لاہور منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ اثاثوں کی منتقلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبہ سندھ کا 320 ملین روپے کا کل خزانہ اور خیر پور ریاست کے خزانے کا ایک تہائی حصہ مغربی پاکستان صوبہ کی انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا۔
ون یونٹ کے قیام کا نعرہ پاکستان کے عوام کی وحدت کے نام پر لگایا گیا تھا مگر اس سے وحدت قائم ہونے کی بجائے علاقائی اور قومیتی تقسیم کا احساس مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ بنگالیوں کے اس احساس کی وجہ سے ہی وہاں پہلے مجیب کے چھ نکات سامنے آئے اور پھر مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن گیا۔ ہماری تاریخ کے بعض ابواب بہت تلخ اور شرمناک ہیں، انہیں مسخ کرنے یا دبانے کی بجائے ہمیں ان سے آگاہ ہونا چاہیے تاکہ یہ سبق حاصل ہو سکے کہ ریاست کو قائم رکھنے کے لیے ون یونٹ جیسے الٹے سیدھے کام کرنے کی بجائے اسے مستحکم بنانے کی مثبت کوششیں کرنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button