Column

پبلشرز کی دو نمبریاں

صفدر علی حیدری
دو ہزار چودہ اور پندرہ میں، میں نے قومی اخبار میں لکھا اور مسلسل لکھا۔ غالباً دو ہزار پندرہ کا ذکر ہے کہ ایک دن ہمارے جی میں آئی ان کالموں کا کوئی مجموعہ شائع کرانا چاہیے تاکہ ہم بھی صاحب کتاب بن جائیں۔ صاحب کتاب بننے کی خواہش کس لکھاری کے دل میں نہیں ہوتی۔ یہ خوشی پانا کس کا خواب نہیں ہوتا ۔۔۔
مگر ہمارے ذہن میں جانے کیسے یہ خیال سما گیا کہ اگر میری تحریر کو کتاب میں شائع ہونا ہے تو اس کا کوئی جواز تو ہو ، اس کی کوئی ضرورت بھی ہو۔ اب یہ تھا کہ ہم نے خوب سوچ لیا کہ اپنے پلے سے کچھ لگائے بنا یہ کتاب شائع ہو گی ۔ اگر کوئی پبلشر ایسا نہیں کرتا تو ہمیں کیا پڑی ہے پیسے لگانے کی۔ جس دوست نے یہ سنا حیرت زدہ رہ گیا۔ کچھ نے ہماری دماغی حالت پر باقاعدہ شک بھی کیا۔ دوستوں نے بہت سمجھایا کہ
بیل والے گھر میں لسی کہاں
ان تلوں میں تیل نہیں
چیل کے گھونسلے ماس ملے تو کیسے
مگر ہم اڑے رہے۔ چند دوستوں کے خیالات کی روشنی میں ہم نے کہا پہلی کتاب دیر سے شائع کرانی چاہیے کیوں کہ بعد میں کئی ایک لوگوں کو کف افسوس ملتے دیکھا کہ ہم نے جلد بازی کر دی ۔
پانچ سال گزر گئے کوئی ایک بھی پبلشر ایسا نہیں ملا جس نے ہماری کتاب شائع کرنے کی جرات کی ہو۔ جرات تو دور کی بات، ایسا کرنے کا سوچا بھی ہو۔ سو مجبوراً خود شائع کرانے کا سوچا۔ ذہن میں یہ خیال بھی تھا کہ شاید ’’ ملی بھگت ‘‘ سے یہ منظر عام پر آجائے مگر۔۔۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
پاکستان بھر کے بڑے بڑے پبلشرز سے رابطہ کیا۔ اب ایسا نہیں ہے کہ کسی نے ملی بھگت کی آفر پر کان نہ دھرا ہو۔ تین چار ایسے نادر لوگ ایسے ضرور ملے جو اس پر راضی تھی۔ ہاں البتہ ان کا مقصد فقط اتنا تھا کہ پیسے ہم دیں اور کتابیں بچا کر اپنی جیب وہ بھریں۔ یکسر انکار بھی نہیں کیا کہ حضرت آپ کو جانتا کون ہے؟ اور کالم پڑھتا کون ہے؟
ہمارے پیسے سے اپنی جیب بھرنے والے ان عیار قسم کے تاجروں کا رویہ آج تک یاد ہے ۔
اب ’’ جوائنٹ وینچر‘‘ سے مایوس ہو کر ہم نے اپنے ہی بل کر کتاب چھپوانے کا عہد کر لیا۔ کسی اچھے ادارے سے ڈیڑھ دو سو کتابیں چھپوانے سے کام چل جائے گا مگر ۔۔۔ کہا گیا پانچ سو کم تو ہرگز نہیں۔ مجبوراً ریٹ دیتے کا کہا گیا تو ایک ہفتے بعد میل آئی تین سو کاپیوں کی قیمت ایک لاکھ پچاس ہزار روپے ہو گی۔ یعنی پانچ سو فی کتاب۔۔
ہمارے تو سمجھو چھکے چھوٹ گئے اور ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔ لاہور کے کئی اور اداروں سے معلومات کی۔ کم از کم ریٹ تین سو روپے ملا۔ پھر برادرم عامر شہزاد صدیقی کی معرفت ملتان سے ایک سو پچیس روپے فی کتاب کے حساب سے ہم نے کتاب چھپوا لی اور یوں ہم اپنے کالموں کی کتاب ’’ شہر خواب ‘‘ کے منظر عام آنے سے صاحب کتاب بن گئے ۔ ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا کہ کیسے یہ ظالم پبلشرز ادیبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔
دوسری کتاب کی اشاعت کا مرحلہ آیا تو میں نے بلآخر ایک اچھا مگر نسبتا گمنام ادارہ ڈھونڈ نکالا۔ اب کے بار کتاب اسی قیمت میں مگر پہلے سے اچھی چھپی۔ تیسری کتاب کے لیے گوجرانوالہ کے ادیب ادارے کا انتخاب کیا حتی کہ ان سے ملنے بھی گیا۔ یوں بچوں کی پہلی کتاب ’’ گھڑی کی ٹک ٹک‘‘ منظر عام پر آئی لیکن ۔۔ پورے تین ماہ بعد۔ کرونا کا دور تھا، پبلشر ٹال مٹول کرتا رہا۔ مجھے لگا رقم دبانے کے چکر میں ہے۔ ایک دن نرمی سے کہا جناب اب تو کرم فرمائیں، تین ماہ ہونے والے ہیں تو اس خوش اخلاق آدمی نے بڑا اچھا ادب سکھایا ’’ تمیز سے بات کرو۔۔ تمیز سے۔ بدتمیزی مت کرو ‘‘۔۔ دل چاہا کتاب چھپوانے کا ارادہ ترک کر دوں اور کہوں پیسے تمہی مبارک اور کتاب بھی مگر ۔۔ صبر کے گھونٹ پی کر چپ کر گیا کہ اب سوائے اس کے چارہ کوئی نہیں تھا۔
تین ماہ بعد کتاب کیا آئی جان میں جان آئی اور اس سے رابطہ توڑ لیا۔ ایک ماہ قبل میری اسی کتاب کو تسنیم جعفری ایوارڈ ملا۔ میرے لیے خوشی کی بات تھی کہ ایک دور افتادہ قصبے کا آدمی ( اوچ شریف ) جسے لاہور میں کوئی نہیں جانتا اس کی کتاب کو پہلا انعام ملا۔ میں نے اس خوشی میں اس پبلشر کو شریک کرنے کے لیے میسج کیا تو اس عدیم الفرصت آدمی کے پاس دو لفظ نہیں تھے کہ وہ میری بات کا جواب دیتا۔ ہاں ایک ایموچی بھیج کر اس نے احسان ضرور کیا۔
چوتھی کتاب کے لیے فیصل آباد کے ایک کے ایک پبلشر مل گئے جنہوں نے بڑی عمدہ کتاب شائع کی۔ پانچویں کتاب ملتان سے چھپوائی، وہ بھی معیاری کتاب شائع ہوئی۔ چھٹی کتاب نے پھر مسئلہ پیدا کیا۔ ساتویں کتاب کا تجزیہ بھی اچھا نہ رہا۔ آٹھویں کتاب خود شائع کی۔ نویں کا تجربہ بھی مایوس کن تھا۔ اب تک آخری یعنی دسویں کتاب بڑی شان دار چھپی کہ وہ پبلشر بڑے اچھے آدمی نکلے۔ ایک پبلشر لاہور کا بھی ملا جس سے بڑا پبلشر میں نے نہیں دیکھا۔ غیر معیاری کتاب چھاپنا تو رہا ایک طرف، پیسے بھی دبا لیے اور درجنوں کتب بھی۔ یہ تو رہے ذاتی تجربات۔ اب کچھ دوستوں کے تجربات کا بھی ذکر خیر ہو جائے۔
کئی ایسے دوست بھی ملے جن کے لاکھوں روپے لاہور اور فیصل آباد کے پبلشرز نے دبا لیے۔ اکثر کو شکایت رہی کہ کاغذ گتے اور چھپائی کا معیار وہ نہیں تھا جو طے ہوا تھا۔ اور پیارے قارئین پبلشرز جو سب سے بڑا دھوکہ دیتے ہیں وہ کاغذ کا ہی ہوتا ہے۔ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ طے کچھ کرتے ہیں اور کاغذ لگاتے کچھ کوئی اور ہیں اور اسی بات کی وجہ سے وہ صاحب کتاب کو لوٹتے ہیں اور خوب نفع کماتے ہیں۔
سب سے بڑا اعتراض ہمیں یہ ہے کہ کتاب چھاپ کر اس کی فروخت کا کوئی انتظام نہیں کرتے۔ کتاب چھاپی، پیسے جیب میں ڈالے اور یہ جا وہ جا۔ اب ادیب بت چارہ سوشل میڈیا پر پوسٹ لگاتا ہے تو اس کا ان باکس اعزازی کتاب پانے والے لٹیروں کے پیغامات سے بھر جاتا ہے۔ کبھی مروت میں، کبھی کسی اور وجہ سے وہ بے چارہ پلے سے ڈاک خرچ خرچ کرتا ہے ، کتاب بھیجتا ہے اور پھر منتظر رہتا ہے کہ شاید کوئی اچھا سا تبصرہ پڑھنے کو ملے گا۔ اس کا انتظار ، انتظار ہی رہتا ہے ۔
نہ وہ حضرات کتاب پڑھتے ہیں نہ تبصرے کی نوبت آتی ہے۔
کچھ عیار اور زمانہ ساز پبلشرز نے کچھ سینئر لوگوں کو رکھا ہوا ہے۔ ان کی ایک آدھ کتاب فری میں چھاپ کر ان کو ہمیشہ کے لئے اپنا ایجنٹ بنا لیتے ہیں۔ اب ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پبلشرز کے گن گاتے رہیں۔ ان کی تعریف میں رطب اللسان رہیں۔ بھانڈ میراثیوں جیسا کردار ادا کرتے ہوئے ان کی شان میں ماہیے گاتے رہیں۔ ہر دوسرے چوتھے کوئی ایسی پوسٹ لکھیں گے کہ نئے لکھاری ان کی چرب زبانی کا شکار ہو جائیں۔ ان لوگوں کا گمراہ کن کردار نئے لکھاریوں کو ان عیار قسم کے پبلشرز کا شکار بنا دیتا ہے۔ اب یہ عیار قسم کے لوگ ان سینئرز کو ایوارڈ دیتے ہیں۔ ان کے سفر کا خرچ برداشت کرتے ہیں۔ تحفے تحائف دے کر ان کو خوش کرتے ہیں۔ اب ان پبلشرز نے ایک اور دھندا بھی شروع کر دیا ہے اور وہ ہے کتابوں پر ایوارڈ دینے کا مکروہ کام۔ اب ہوتا یہ ہے کہ صرف انہی کتب کو ایوارڈ دیتے ہیں جو ان کے اپنے ادارے سے چھپی ہوں گی۔ اور وہ بھی اس ادیب کو جو سوشل میڈیا پر زیادہ متحرک ہو گا۔ یہ ادارے ایوارڈ کا لالچ دے کر گاہک پھنساتے ہیں۔ ساتھ میں یہ لالچ بھی دیتے ہیں کہ وہ ان کی کتاب فروخت کریں گے۔ کتاب کی آمدنی سے حاصل شدہ رقم میں لکھاری کا بھی حصہ ہو گا۔ جو یقیناً کبھی نہیں ملتا۔ یہ ظالم لوگ کسی بھی مقبول کتاب کے غیر قانونی ایڈیشن چھاپ کر گویا نوٹ چھاپتے ہیں اور دوسرے مگر اہم فریق کو اس کا علم تک نہیں ہوتا کہ یہ لٹیرے اس کی محنت پر ڈاکا ڈال رہے ہیں۔
اکثر پبلشرز کتب کی فروخت کے سلسلہ میں کوئی کردار ادا کرنے سے انکاری ہوتے ہیں۔ اور یہ کردار ادا کرنے کا کوئی نظام رکھتے ہیں ان کا سارا زور اپنی جیبیں بھرنے پر صرف ہوتا ہے۔ جو بڑے کھلاڑی ہیں وہ کتاب اتنی مہنگی چھاپتے ہیں کہ مصنف بے چارہ برسوں کتاب کی اشاعت کی آرزو سینی میں پالتا رہتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے دوست بلال اسلم کا ناول ’’ سرخ کنارے ‘‘ جب میں نے شائع کیا تو اسے یقین نہ آیا کہ لاکھوں کا کام ہزاروں میں کیسے ہو گیا۔ اس سلسلے میں سب سے گھنائونا اقدام یہ ہوتا ہے لڑکیوں سے راہ و رسم بڑھا لیتے ہیں۔ اس سے آگے کیا ہوتا ہے قلم بیان کرنے سے انکاری ہے، فلاں پہلے پبلشر تھا پھر ایڈیٹر بنا، پھر ادیبوں میں شمار ہونے لگا۔ کچھ عرصہ بعد ادبی تنظیم بنائی۔ اگلے مرحلے میں ایوارڈ دینے اور کتابیں اکٹھی کرنے لگا۔ شاعری کا شوق چرایا، اب وہی شاعر کہلایا جانے لگا۔
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر وہ خوش گوار نہیں ہے۔ آخر میں ایک ایسے ادیب کا قصہ جو پبلشرز کی دو نمبریوں کے سبب پبلشر بن گیا اور۔۔۔
پبلشر
اس کا مسودہ فٹبال کی طرح ادھر سے ادھر لڑھکتا رہا۔ اور پھر غائب ہو گیا۔ یہ تو شکر ہوا اس نے فوٹو اسٹیٹ کرا لیا تھا۔ سارے داد دینے والے پبلشروں نے ہاتھ دکھائے تو اسے سمجھ آیا۔ پلے سے لگا کے کتاب شائع کی تو یہ دیکھ کر اسے خاصا بڑا دھچکا لگا۔ کسی نے اس کی کتاب کو لفٹ نہیں کرائی۔ آدھی کتاب دوستوں کو دوستی کے ناطے اور مداحوں کو مروت میں بانٹ دی۔ پھر جب اسے یہ پتہ چلا کہ اسے پبلشر نے دونوں ہاتھ سے لوٹا ہے، اس نے نئے لکھاریوں کو ان کے دست برد سے بچانے کے لیے خود میدان عمل میں کودنے کا فیصلہ کیا اور خود پبلشر بن گیا ۔ اس کا کام خوب چلا۔ آج وہ ایک کامیاب پبلشر ہے اور یہ تک بھول چکا ہے کہ وہ پبلشر کس لیے بنا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button