Column

سرکاری ملازمین ڈیفالٹ کر چکے ہیں

رفیع صحرائی
ڈالر کی پرواز کی وجہ سے موجودہ مہنگائی نے سب سے زیادہ سرکاری ملازمین کو متاثر کیا ہے۔ یہ طبقہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ پہلے تو ایسا ہوتا تھا کہ سرکاری ملازمین کا سبزی، کریانے اور کپڑے کی دکانوں پر کھاتہ لگا ہوتا تھا۔ پورا مہینہ ادھار سودا لے کر گزارا کیا جاتا تھا اور تنخواہ آنے پر ادھار چکانے کے بعد جو معمولی رقم بچ جاتی وہ گھر کے دیگر اخراجات کے کام آ جاتی مگر روز افزوں بلندی کی نئی پروازوں کو چھوتی ہوئی مہنگائی نے سرکاری ملازمین سے ادھار کی سہولت بھی چھین لی ہے۔ دکان دار اب اس لیے ادھار دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں کہ روز بروز روپے کی گرتی قدر ان کے اصل زر میں بھی کمی کر دیتی ہے۔ آج جو چیز ایک ہزار روپے میں ملتی ہے ممکن ہے ایک ماہ بعد اس کی قیمت بارہ تیرہ سو روپے ہوچکی ہو لہٰذا دکان دار اب ادھار مال دینے کا رسک نہیں لیتے کہ ایک تو رقم دیر سے ملتی ہے اور پر سے اس کی ویلیو دس پندرہ فیصد کم ہو چکی ہوتی ہے۔
سرکاری ملازمین کو جو ہائوس رینٹ ملتا ہے وہ 2008کے پے سکیلز کے تحت ہے۔ نان گزیٹڈ سرکاری ملازمین کی شرح قریباً 80فیصد بنتی ہے۔ ان کے ہائوس رینٹ کی رقم کو دیکھا جائے تو یہ آپ کو سنگین مذاق نظر آئے گا۔ مہنگائی کے اس دور میں اکثر ملازمین دو ہزار سے چار ہزار روپے کے درمیان ہائوس رینٹ وصول کر رہے ہیں جبکہ بڑے شہروں میں ایک کمرے کا کرایہ چھ سات ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح میڈیکل الائونس بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ ملازمین اس رقم سے بمشکل پرائیویٹ ڈاکٹر کی ایک وزٹ کی فیس ادا کر پاتے ہیں۔ اوپر سے حکومت خود آئے روز فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو ادویات کی قیمتیں بڑھانے کی اجازت دے دیتی ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ بے چارے ملازمین دعائیں کرتے ہیں کہ بیماری کی وجہ سے آنے والی موت کی بجائے ڈائریکٹ موت آ جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
صحنِ غربت میں قضا دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر
ذاتی کام کرنے والے، تجارت پیشہ لوگ اور دکان دار حضرات مہنگائی کے تناسب سے اپنی اشیا ء یا خدمات کے معاوضہ میں اضافہ کر لیتے ہیں حتیٰ کہ روزانہ مزدوری کرنے والے، ریڑھی بان اور رکشہ والے بھی مہنگائی کے حساب سے اپنے معاوضہ یا مزدوری میں خود اضافہ کر لیتے ہیں۔ صرف سرکاری ملازمین ہی ایسا طبقہ ہے جو اپنی تنخواہ بڑھوانے کے لیے حکومتی فیصلے کا محتاج ہوتا ہے۔
اگر گزشتہ ایک سال کی بات کی جائے تو مہنگائی میں قریباً پچاس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ موجودہ تنخواہوں میں سرکاری ملازمین کے لیے ان کا اپنا اور خاندان کا جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا ہی خاصا دشوار ہے۔ بچوں کی فیسیں، کتابیں، یونیفارمز، رکشے کا کرایہ مینیج کرنا بہت دشوار ہو گیا ہے۔ خاندان میں خوشی غمی اور بیاہ شادی کے مواقع کو ٹالا بھی نہیں جا سکتا اور شرکت کرنے کی سکت بھی نہیں ہوتی۔ عید بقر عید اور دیگر تہوار اضافی اخراجات کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اصل پریشانی اس وقت درپیش ہوتی ہے جب سرکاری ملازمین اپنے بچوں کی شادی کرتے ہیں۔ وہ ادھار پکڑ کر شادی تو کر لیتے ہیں مگر پھر ان کی ساری عمر قرض اتارتے گزر جاتی ہے۔ باقی اولاد خصوصاً ان کی بیٹیاں والدین کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ حالات اجازت نہیں دیتے کہ ان کی شادی کا سوچا جائے۔
سرکاری ملازمین کی حالتِ زار پر پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے دور میں خصوصی توجہ دیتے ہوئے ان کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا تھا۔ مہنگائی کی شرح میں تیزی سے اضافہ 2018میں شروع ہوا تھا۔ مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر اضافہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ حتیٰ کہ سال 2020میں تو ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ حکومتوں کے دئیے گئے ریلیف کی افادیت ختم ہو گئی اور سرکاری ملازمین فٹ پاتھ پر پہنچ گئے۔
پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت نے مہنگائی کو تو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا مگر اس تناسب سے سرکاری ملازمین کو ریلیف نہ دے سکی۔ مرکز میں 35فیصد تنخواہ اور 17.5فیصد پنشن میں اضافہ کا اعلان ہوا تو جناب محسن نقوی کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ تاریخ کا شدید ترین احتجاج ہوا تو انہوں نے گھٹنے ٹیکے۔ خیر سے جب سے مرکز میں نگران حکومت آئی ہے اس نے عوام کا جینا دشوار کرنے کی دانستہ کوششیں کی ہیں۔ اس نے اپنی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیل، گیس، ڈالر اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو امرت دھارا سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ نتیجے کے طور پر سرکاری ملازم اس وقت ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔
سرکاری پنشنرز کی حالتِ زار بھی دگرگوں ہے۔ اپنی زندگی کا سنہرا دور سرکاری ملازمت کی نذر کرنے والے پنشنرز مہنگائی کی وجہ سے سخت مشکل میں ہیں۔ وہ عملی طور پر بڑے خاندانوں کے سربراہ بن چکے ہوتے ہیں۔ اسی حساب سے ان کے اخراجات بھی بہت بڑھ جاتے ہیں۔ ہوشربا مہنگائی نے پنشنرز کو بہت متاثر کیا ہے۔ یہ پنشنرز کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ سالانہ بجٹ میں حاضر سروس ملازمین کے مقابلے میں ان کی پنشن میں نصف تناسب سے اضافہ کیا جاتا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ان کی پنشن میں سو فیصد اضافہ کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button