Columnمحمد مبشر انوار

جڑ

محمد مبشر انوار
برائی کے تدارک کا بہترین وقت وہی ہے کہ اس کو پنپنے سے قبل ہی زمین میں دفن کر دیا جائے اگر برائی کا قلع قمع فوری طور پرنہ کیا جائے تو بعد ازاں برائی معاشرے میں بے سکونی کا باعث بنتی ہے۔ تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ نفرت برائی سے ہی کی جانی چاہئے جبکہ برائی کرنے والے کی اصلاح میں کوئی کمی نہیں رہنی چاہئے لیکن اگر اس کے باوجود فرق نہ پڑے تو پھر اس کا تدارک کیا جانا از حد ضروری ہے۔ 7اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت کے پس پردہ کئی ایک حقائق کھلتے جا رہے ہیں کہ ایک طرف مذہبی جنونیت ہے تو دوسری طرف دور حاضر کے قیمتی ترین معدنی ذخائر ہیں، جو غزہ کے ساحلوں میں موجود ہیں، جن تک رسائی کی خاطر اسرائیل بربریت پر اترا ہوا ہے۔اٹھارہ ہزار نہتے فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے لیکن ہنوز اسرائیلی مقاصد پورے نہیں ہو سکے اور اسرائیل مسلسل فلسطینیوں پر قہر برسا رہا ہے، اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسرائیلی یرغمالیوں کا اغواء درحقیقت اس بربریت کو بروئے کار لانے کا ایک بہانہ تھا۔ اس سوچ کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کے اغواء سے قبل اسرائیلی داخلی سیاست میں انتہائی حیران کن تبدیلیاں دیکھنے کو ملی تھی کہ اسرائیلی فوج کے اعلی عہدیداروں نے حکومت سے برملا اختلاف کیا تھا ،جس کے بعد حماس کو یرغمالیوں تک رسائی کے دوران کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، لیکن اس کے بعد سے فلسطینیوں پر جو ظلم و جبر، بربریت و حیوانیت کا مظاہرہ ہو رہا ہے، وہ ناقابل یقین و ناقابل برداشت ہے۔ واٹس ایپ پر ایک کلپ موصول ہوا جسے دیکھ کر موجودہ صورتحال کا ادراک ہوا کہ پس پردہ ایک اور منصوبہ جو اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے دماغوں میں پل رہا ہے، آشکار ہوا ہے۔ اس وقت بحیرہ احمر تجارتی گزرگاہ ہے کہ جہاں سے بحری جہازوں کی آمدورفت ہو رہی ہے، اس سے مصر سالانہ اربوں ڈالر کماتا ہے جبکہ موجودہ بحری راستوں کو بغور دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہے کہ سوئز کینال سے قبل بحری تجارت کے لئے، جہازوں کو افریقہ کا طویل سفر کاٹ کر، دوسری طرف پہنچنا پڑتا تھا، جبکہ انسانی ہاتھوں کی بنائی ہوئی اس نہر نی نہ صرف راستے کی طوالت کم کر دی ہے بلکہ اس سے مصر کے لئے آمدن کے مواقع بھی پیدا کئے۔ نقشہ میں بغور دیکھیں تو اسرائیل کے لئے غزہ کا حصول ایک ایسی ہی نئی نہر کا اجراء ہے، جو بحیرہ روم کو بحیرہ احمر سے ملائے گی لیکن اس سے فرق یہ پڑے گا کہ تجارتی گزرگاہ نہر سوئز کی بجائے اسرائیل سے گزرنے والی نہر بن جائے گی۔ ابھی تک اس کا واضح خاکہ تو سامنے نہیں آیا لیکن ویڈیو کلپ میں دکھائی جانے والی نئی نہر، یقینا نہر سوئز سے بڑی اور بہتر ہو گی جب کہ گذرگاہ کے لئے اقوام عالم کو اسرائیل اپنی سفارتی کوششوں سے بڑھ کر اپنے پشت پناہوں کی مدد سے مجبور؟ قائل کر لے گا اور یوں ایک اسلامی ملک کی آمدن کو سخت دھچکا پہنچا سکے گا۔ یہ تو اس کا ایک رخ ہے جب کہ اس سارے منصوبے کی پرتیں تو یقینی طور پر وقت کے ساتھ ساتھ کھلتی جائیں گی، دوسری اہم ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر خدانخواستہ غزہ میں رہنی والے فلسطینی ہی باقی نہ رہے تو یہ سارا علاقہ بھی اسرائیل کے تحت ہو جائے گا اور اس صورت میں اس سے متصل آبی وسائل بھی براہ راست اسرائیل کی تحویل میں چلے جائیں گے اور اس کی ملکیت تصور ہونگے۔
سوال یہ ہے کہ کیا عالمی ٹھیکیدار اتنی بڑی ناانصافی کر سکیں گے؟ اس کا جواب اب تک کی صورتحال کے مدنظر تو یہی ہے کہ اگر وہ ابھی تک اسرائیل کے ظالم ہاتھوں کو نہیں روک سکے، تو خاکم بدہن، غزہ کے مکمل تہ تیغ ہونے کے بعد وہ کس طرح بروئے کار آئیں گے؟ اس وقت تو ہر طرف سے یہی صدائیں بلند ہوتی نظر آئیں گی کہ جو ہوا سو ہوا، اب اس کو بھول کر آگے بڑھا جائے، کم از کم مجھے اسی کی توقع ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ بالخصوص اسرائیل کی پشت پناہی سے رک نہیں رہا۔ دوسری طرف، اسلامی ممالک نے اپنی سمت تبدیل کرتے ہوئے، چین اور روس پر جو اعتماد کیا ہے، ابھی تک اس کے نتائج بھی سامنے نہیں آرہے اور یہ دونوں طاقتیں بھی اسرائیل کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ اقوام متحدہ میں پیش اور منظور کی جانے والی قرار دادوں کو اسرائیل پرکاہ کی حیثیت دینے کے لئے بھی تیار نہیں کہ اسے یقین ہے کہ اقوام متحدہ میں منظور ہونے والی قراردادیں، اس وقت تک غیر موثر رہیں گے، جب تک امریکہ اس کی پشت پناہی پر موجود ہے، اور امریکہ ببانگ دہل یہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ اسرائیل کی پشت پناہی جاری رکھے گا۔ گزشتہ فوری جنگ بندی کی قرارداد میں 153ممالک نے قرارداد منظور کی، لیکن اس کا نتیجہ اسرائیل کی بربریت میں اضافہ کی صورت نکلا، جبکہ پھر شنید ہے کہ اقوام متحدہ میں ایک اور قرارداد فوری اور مستقل جنگ بندی کے لئے پیش کی جانے والی ہے، جس میں توقع ہے کہ 153ممالک سے زیادہ اس کے حق میں سامنے آئیں گے۔ اس کے باوجود قرین قیاس یہی ہے کہ امریکہ اتنی بھاری اکثریت سے منظور ہونے والی قرارداد پر عمل درآمد کروانے میں رکاوٹ کھڑی کرے گا کہ اس کے لئے اپنے لے پالک ملک اسرائیل کا تحفظ، نہتے فلسطینیوں کے بہتے خون سے زیادہ قیمتی ہے۔ افواج پاکستان سے فلسطینیوں کو ہمیشہ توقعات رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے افواج پاکستان، بوجود اپنے مسلم بھائیوں کے خون کو بہتا دیکھ کر بھی، سوائی مذمتی بیانات یا تنبیہ کے کچھ نہیں کر سکتی کہ ان کے ہاتھ، پاکستان کی معاشی صورتحال کے ساتھ ساتھ سیاسی صورتحال نے باندھ رکھے ہیں۔
دوسری طرف فسطینیوں کے ساتھ دیتے ہوئے یمن کے حوثی نہ صرف اسرائیل پر میزائل برسا رہے ہیں بلکہ بحیرہ احمر سے گزرنے والے اسرائیلی بحری جہازوں پر حملے کر رہے، جس سے بحیرہ احمر کی گزرگاہ تجارتی مقاصد کے لئے غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ جس کا ضمنی نتیجہ مستقبل قریب میں یہ نکلتا نظر آ رہا ہے کہ ایک طرف سامان کی ترسیل کا راستہ لمبا ہو جائیگا تو دوسری طرف اس کی لاگت میں اچھا خاصہ اضافہ متوقع ہے، جس سے لازمی طور پر مہنگائی کا شدید طوفان آئے گا جبکہ عام شہری مالی طور پر پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ علاوہ ازیں! اس افریقی بحری تجارتی گزرگاہ کو ملائیشیا سے گزرنا ہو گا اور ملائیشیا کی جانب سے، اسرائیلی مسلسل جارحیت و بربریت کے بعد، بھی یہ تنبیہ منظر عام پر آ چکی ہے کہ ملائیشیا بھی اسرائیلی جہازوں کو اپنے سمندری پانیوں سے گزرنے کی اجازت نہیں دے گا، یوں تجارتی گزرگاہ شدید بحرانی کیفیت کا شکار نظر آ رہی ہے۔ بحری تجارتی گزرگاہ پر حوثیوں کے حملوں کے خلاف، امریکہ فی الفور متحرک ہو چکا ہے اور تقریبا 39ممالک کے ساتھ مل کر، بحری تجارتی گزرگاہ کو محفوظ بنانے کا عزم ظاہر کر رہا ہے کہ امریکہ نہ صرف یہ اسرائیلی جارحیت سے آنکھیں بند رکھنا چاہتا ہے بلکہ دنیا بھر کی نظریں بحیرہ احمر کی طرف مبذول کروانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ جس کا پس پردہ مقصد صرف یہی نظر آتا ہے کہ اس دوران اسرائیل بھرپور کارروائی کرتے ہوئے، غزہ میں انسانی جانوں کی ہولی اس وقت تک کھیلتا رہے، جب تک کہ وہ اس پر مکمل قبضہ حاصل نہیں کر لیتا تو دوسری طرف یہ امر بھی اہم ہے کہ معدنی وسائل کے حصول میں غزہ پر یہ گولہ و بارود بھی بنیادی حیثیت کا حامل ہے اور یوں ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ کرتے ہوئے، راستہ صاف کر لے۔ امریکی دہرا کردار عیاں ہونے کے باوجود، اسلامی ممالک اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے کہ طاقت اپنی بات منوانے میں کامیاب رہتی ہے اور بدقسمتی سے مسلم ممالک نے معتصم باللہ کے کردار کے باوجود یہ سبق نہیں سیکھا اور اپنے دفاع سے مجرمانہ غفلت برتی ہے، جس کی سزا مرگ مفاجات کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔ روس و چین کا کردار بھی ابھی تک عملا صفر نظر آ رہا ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ بھی فلسطین کے معاملے پر امریکہ کے سامنے کھڑے ہونے سے کترا رہے ہیں یوں ساری ذمہ داری امریکہ کے سر دکھائی دیتی ہے کہ جب تک امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی میں ہر اصول کو پس پشت ڈالتا رہے گا، اس کی جارحیت کو حق دفاع کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا، اسرائیلی درندگی نہیں رک سکتی۔ امریکہ اگر پہلے دن ہی اسرائیلی برائی کو روک دیتا تو آج نوبت یہاں تک نہ آتی، کہ یہ برائی انسانیت کی پامالی میں اس حد تک آگے نہ بڑھتی کہ مسلمہ جنگی قوانین کو بھی روندتے ہوئے بڑھتی جا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button