Column

پایل میں گیت ہیں چھم چھم کے

رفیع صحرائی
فیض احمد فیض کی ایک نظم ’’ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ میڈم نور جہاں نے اس خوب صورتی سے گائی ہے کہ یہ نظم انہی سے منسوب ہو کر رہ گئی ہے۔ خود فیض صاحب نے بھی اس نظم کی گائیکی کی تعریف کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ’’ ہم نے یہ نظم نور جہاں کو دے دی‘‘، مگر بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ اس نظم کو موسیقی کے قالب میں ڈھالنے والے عظیم موسیقار رشید عطرے تھے۔ یہ نظم 1962ء میں فلم قیدی کے لیے ریکارڈ کی گئی تھی جو60سال گزر جانے کے باوجود بھی روز اوّل کی طرح مقبول ہے۔
برصغیر میں مدھر سُروں اور سحر انگیز موسیقی سے بے شمار فلموں کو ہِٹ کرانے والے موسیقار رشید عطرے فنِ موسیقی کا ایک معتبر نام تھے جو 15فروری 1919ء کو صوبہ پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خوشی محمد ربابی خاندان کے بلند پایہ ہارمونیم نواز تھے جو کلاسیکی موسیقی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ رشید عطرے نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے ہی حاصل کی۔ خوشی محمد کلکتہ کے نیو تھیٹر کے شعبہ موسیقی سے وابستہ تھے۔ اپنے والد کے بعد رشید عطرے اس دور کے نامور گائیک اور موسیقار استاد فیض علی خان کے شاگرد ہو گئے۔
موسیقی کا شوق رشید عطرے کو کلکتہ لے گیا جہاں اس وقت کے مشہور بنگالی موسیقار آر سی ( رائے چند) بورال کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کر کے انہوں نے اپنے فن کو مزید نکھار بخشا۔ 1942ء میں صرف 23سال کی عمر میں رشید عطرے کو فلم مامتا کی موسیقی بنانے کا موقع مل گیا۔ 1947ء تک انہوں نے آٹھ فلموں مامتا، پگلی، پھر ملیں گے، شیریں فرہاد، کمرہ نمبر 9، نتیجہ، پارو اور عید کی موسیقی ترتیب دی جن میں سے چار فلموں کے وہ تنہا موسیقار تھے۔
قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آ گئے۔ لاہور میں ان کی پہلی فلم بیلی 1950ء میں ریلیز ہوئی جسے کامیابی نہ مل سکی۔ فلم کی ناکامی سے دل برداشتہ ہو کر رشید عطرے راولپنڈی چلے گئے اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ مشہور و معروف کشمیری ترانہ ’’ میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن‘‘ ان کے اسی دور کی یادگار ہے۔ 1953ء میں فلم ساز و ہدایتکار نذیر نے انہیں پنجابی فلم شہری بابو کی موسیقی دینے کے لیے رضامند کر لیا اور لاہور لے آئے۔ یہ فلم بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ زبیدہ خانم کو بطور فلمی گلوکارہ انہوں نے اسی فلم سے متعارف کرایا، جو آگے چل کر کامیاب فلمی گلوکارہ ثابت ہوئیں۔ عنایت حسین بھٹی کے گائے گیت ’’ بھاگاں والیو! نام جپو مولا نام‘‘ نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور رشید عطرے ایک ہی جست میں صفِ اوّل کے موسیقاروں کی فہرست میں جا پہنچے۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک کے بعد ایک خوب صورت اور رسیلا گیت ان کے فن کو منواتا چلا گیا۔
رشید عطرے کو ہر قسم کی موسیقی پر عبور حاصل تھا۔ فلم سات لاکھ کے لیے راگ پہاڑی میں ترتیب دیا گیا ان کا گیت ’’ آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نا ہی مانے، تُو چھٹی لے کے آ جا بالما‘‘ آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔ 1962ء میں انہوں نے موسیقار کے نام سے ایک فلم بنائی جس کی لاجواب موسیقی آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ ’’ گائے گی دنیا گیت میرے‘‘ اور ’’ تم جُگ جُگ جیو مہاراج رے، ہم تیری نگریا میں آئے‘‘ آج بھی پہلے روز کی طرح مقبول ہیں۔ مہدی حسن کی آواز میں فلم زرقا کا گیت ’’ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ کے لیے عربی سازوں کا استعمال کر کے رشید عطرے نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔
رشید عطرے نے فیض احمد فیض کی تین نظموں کی موسیقی ترتیب دی اور تینوں کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ ان نظموں میں ’’ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ کے علاوہ مہدی حسن کو بطور غزل گائیک متعارف کرانے والی غزل ’’ گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے‘‘ اور منیر حسین کی آواز میں نظم ’’ نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن‘‘ شامل ہیں۔ اسی طرح صوفی تبسم کی غزل ’’ سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی، دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی‘‘ نسیم بیگم کی آواز میں فلم شام ڈھلے کے لیے ریکارڈ کرائی۔ اس غزل نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ یہی نہیں انہوں نے عنایت حسین بھٹی کی آواز میں فلم چنگیز خان کے لیے ایک ایسا جنگی ترانہ ریکارڈ کرایا جو آج بھی سننے والوں کا لہو گرما کر ان میں جوش و جذبہ بھر دیتا ہے ’’ اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا، اللّٰہُ اکبر اللّٰہُ اکبر‘‘ ۔ منیر نیازی کی غزل ’’ اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو، اشکِ رواں کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ کو بھی رشید عطرے نے خوب صورت دھن سے مزیّن کیا تھا۔ فلم انارکلی کے سدا بہار گیت ’’ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں‘‘ ، فلم سوال کا گیت ’’ لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم‘‘ اور ’’ نگاہیں ملا کر بدل جانے والے مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے‘‘ جیسے مدھر گیت آج بھی نہ صرف میڈم نور جہاں کی ابدی شہرت کا باعث بنے ہوئے ہیں بلکہ رشید عطرے کے لافانی فن کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
رشید عطرے کو ان کی تین فلموں سات لاکھ، نیند، اور شہید پر بہترین موسیقار کے نگار ایوارڈز ملے۔ رشید عطرے نے پاکستان میں 56فلموں کی موسیقی دی جن میں شیریں فرہاد، بیلی، شہری بابو، روبی، لیلیٰ مجنوں، وعدہ، سات لاکھ، نیند، چنگیز خاں، جانِ بہار، انارکلی، مکھڑا، سلمیٰ، شام ڈھلے، شہید، موسیقار، قیدی، فرنگی، جی دار، انسان، پایل کی جھنکار ، چٹان، مرزا جٹ، ظالم، محل، زرقا اور بہشت شامل ہیں۔ بہشت ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔ دنیائے موسیقی کا یہ درخشندہ ستارہ 18دسمبر 1967ء کو صرف 48سال کی عمر میں ڈوب گیا، مگر اپنے پیچھے ایسا لازوال کام چھوڑ گیا جو مدتوں بھلایا نہ جا سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button