Column

سئیں جانباز جتوئی بیسویں صدی کے عظیم سرائیکی شاعر

صفدر علی حیدری
جانباز جتوئی 20ویں صدی کے ایک بہت بڑے شاعر گزرے ہیں۔ سرائیکی زبان اپنے اس بیٹے پر ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔
ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ بھی ہے اور جدید آہنگ بھی، ہجر و فراق کا درد بھی ہے، وصل کی لذت بھی، اخلاقی اقدار کا پرچار بھی ہے، وعظ و نصیحت کی تبلیغ بھی، معاشرے میں زوال پذیر اچھائیوں کا نوحہ بھی، غربت بے روزگاری ناانصافی کا رونا بھی۔
انہوں نے محمدؐ و آل محمدؐ کے نغمے بھی لکھے ہیں، اولیاء اللہ کے ترانے بھی۔
وطن کی مٹی سے محبت کے گیت بھی لبوں پر سجائے ہیں۔
ان کی شاعری کو ہم بلا خوف و تردید قومی شاعری قرار دے سکتے ہیں۔
یقیناَ وہ ایک بڑے قومی شاعر تھے کسی خاص صنف سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا
اللہ پر ان کا توکل کمال کا ہے
فرماتے ہیں۔۔۔
میں شاعر درد بھریاں ہاں
تونڑیں سیت دی بازی ہریا ہاں
نہ گھان طوفان توں ڈریاں ہاں
بن تولیں بحریں ترہا ہاں
میڈے دل نے اللہ ھو کیتا
میں رکھ توکل دھو کیتا
۔۔۔ جناب رسالت مآبؐ سے عشق ہر مومن کا طرہ امتیاز اور بنیادی وصف ہے۔ ان کے کلام میں اپنے نبیؐ کی محبت کا رنگ جا بجا ملتا ہے
ذرا غور فکر دے نال سنڑیں سرکار غریب دا عرضے
تیڈے منہ مہتاب کو ڈیکھن دی میکوں روز ازل دی مرضے
بے غرض تیکو ناں غرض میڈی میکوں تئیں بے غرض دی غرضے
تیڈا ڈیکھن وی جانباز کیتے بس وانگ نماز دے فرضے
۔۔۔ ایک اور قطعہ دیکھیے
میں ڈکھاں دا مان ہاں میں درداں دی دھیر آں
میں وحشت دی نگری دا صاحب جاگیر آں
اینویں میکوں جانباز شاعر سڈیندن
میں اللہ و پنجتن دا ادنی فقیر ہاں
۔۔۔ اہل بیت اطہار سے ان کا عشق والہانہ طرز کا ہے، ان کا یہ عشق ان کے شعروں میں جا بجا اپنی خوشبو سے سالکان راہ حق کے مشام جاں کو معطر کرتا رہتا ہے
بھکی دل دے اصلوں موالی نی ہوندے
تے غیراں دے در دے سوالی نی ہوندے
علی تے بھروسہ ہے جانباز ساکوں
فقیراں دی کشکول خالی نی ہوندے
ادیب و شاعر حضرات کی مالی ابتری کا انہیں شدت سے احساس ہے۔
۔۔۔ فرماتے ہیں
حقیقت کیا میڈی پچھدو میں ہک قلاش شاعر ہاں
زخم کھانداں الم پینداں وڈا اوباش شاعر ہاں
حوادث نے میکوں جانباز مٹی وچ ملا چھوڑیے
جو سچ پچھدو تاں زخماں دی میں زندہ لاش شاعر ہاں
۔۔۔ وہ بڑے دکھ سے یہ سوچتے ہیں کہ ادب کی اس معاشرے کو کوئی ضرورت اب نہیں رہی۔ اس جنس کا کوئی بھی خریدار اب باقی نہیں بچا۔
کسی نے کہا تھا۔۔۔
ہم وہ فقیر لوگ ہیں کہ دل کی سلطنت
سستی بھی بیچ دیتے ہیں بازار دیکھ کر
وہ ادب اور ادیب کی اس ناقدری کا نوحہ کچھ اس طرح کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔۔۔
محنت کمال کرتے اپنا مغز کھپا تے
لفظیں دے میں بنائن چن چودیاں دے گھنسو
جانباز میڈا ناں ہے ان جان ہاں وپاری
ہیرے وڈا وچینداں مل کوڈیاں دے گھنسو۔۔۔
ان کا ایمان ہے عشق کرنا اعلیٰ طرف لوگوں کا کام ہے ۔
چپ چاپ سدا رہ تے نبھیدا ہے سمندر
آداب محبت دے سکھیداں ہے سمندر
تھکے ہوئے جانباز جو آندے ہینی دریا
آغوش اپنی اچ چا سمیدا ہے سمندر
۔۔۔ ہجر و فراق شاعروں کا قدیمی اور ہر دل عزیز موضوع رہا ہے۔ ان کے کلام میں بھی یہ ہمیں بڑی کثرت سے نظر آتا ہے سورج میڈی خوشی دا ابھردیں ہی لہہ گیا
ول درد ہا جو میڈا در مل تے بہہ گیا
میت میڈی کوں ڈیکھ تے ڈھولن اکھیندا ہا
اے شخص ہا جو ہجر دے صدمات سہہ گیا
۔۔۔ ایک اور شعر میں انہوں نے اپنی گریہ و زاری کا ذکر کچھ ایسے انوکھے انداز میں کیا ہے کہ ایک شاندار اور مثالی شعر کہہ ڈالا ہے۔ فیض احمد فیض نے اس شعر کو پاکستان بھر کی تمام زبانوں کو بہترین شعر قرار دیا تھا
میں روندا ہاں تیڈے کیتے جڈاں بدلاں دے وچ لک تے
خدا دی خاص دھرتی تے اوہا برسات تھیندی ہے
۔۔۔ ان کو اپنی ماں بولی ماں کی طرح عزیز ہے۔ اپنی ماں کی نصیحت اور اپنے عزم کو انہوں نے کچھ اس طرح ارداساں میں شامل کیا ہے
میکوں پا کر اماں جھولی اے
ڈتی درد بھری ہک لولی ہے
ول چم تے بھوتی بولے ہے
تیڈی لال سرائیکی بولی ہے
ایں بولی تو دل چاویں ناں
میڈی گال کوں لعل بھلاویں ناں
میں اکھیاں اماں بی بی ہے
میکوں ڈتو بار ادیبی ہے
میڈی وڈی خوش نصیبی ہے
تونڑیں ویسم ویڑھ غریبی اے
تیڈی بولی روز بلیساں میں
ہتھوں رلیے لفظ گلیساں میں
۔۔۔ وہ سمجھتے ہیں درد انسان کا درماں ہے۔ اس درد کی لذت انھیں ہر چیز سے عزیز ہے۔ وہ محبوب کے بخشے ہوئے اس تحفے کو ہمیشہ سینے سے لگائے پھرتی ہیں
میں سوئیاں پوڑ پھٹ اپنے پیا کھترینداں کھل کھل کے
متاں سمجھو جو زخماں دے میں سیندا چاک بیٹھا ہاں
۔۔۔ ان کے خیال میں محبوب کا تصور محب کو دنیا کی سبھی آلائشوں سے پاک کر دیتا ہے
نکل ساری پلیدی گئی تیڈے جانباز دے سوہنڑاں
میں رو رو تے تیڈی سکھ وچ تھیا ہنڑ پاک بیٹھاں ہاں
۔۔۔ وہ وطن کی محبت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ان کا کلاس اسی لیے تو کسی قومی شاعر کا کلام ہے جس نے زندگی کے ہر رنگ ہر روپ کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے
تو منگ دعا جانباز سدا میڈے پاک وطن دے خیر ہووے
۔۔۔ انہوں نے کشمیر، فلسطین، مزدور، کسان، غریب، دیہاڑی دار وغیرہ پر بھی شاندار نظمیں کہی ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے کہتے ہیں۔۔۔
ظالم دیاں پاڑاں نے تے جڑاں پٹ تے میں رہساں
دشمن دی سپاہ کو کر چٹ تے میں رہساں
اللہ دی قسم تیڈے عدو کٹ تے میں رہساں
جانباز ہاں کشمیر تیکوں کھٹ تے میں رہساں
میں ہاں فاتح میں ہاں غازی میں مجاہد میں جہانگیر
اے وادی کشمیر اے وادی کشمیر۔۔۔
نمازیں وچ ایھا فریاد کر
خدا وندا میڈی امداد کر
محمد مصطفیٰ ؐ دی شان دا صدقہ
وطن کشمیر کو آزاد کر
۔۔۔ علم اور عشق کے درمیان ایک کشمکش سی جاری رہتی ہے۔ صوفی شعراء بڑے ذوق و شوق سے اس پر قافیہ پیمائی کرتے ہیں۔ آپ کا کلام بھی اس ذکر سے خالی نہیں
علم آکھے میں صاحب حیا ہاں
عشق آکھے میں آپ خدا ہاں
عشق آکھے میکوں نادر سمجھیں
عشق آکھے میکوں قادر سمجھیں
علم آکھے میں گالہیں تولاں
عشق آکھے میں دار تے بولاں
علم آکھے میں وکھرا ساز آں
عشق آکھے میں گجھا راز ہاں
علم آکھے میں راہ ڈکھیداں
عشق آکھے میں توڑ پچیداں
علم آکھے میں سوچ سچیداں
عشق آکھے میں دھو کڈھیداں
۔۔۔ آخر میں وہ لکھتے ہیں:
میڈی طاقت پچھ جانباز کنوں
میڈے ادنے محرم راز کنوں
علامہ اقبالؒ کے شکوہ جواب شکوہ سے متاثر ہو کر انہوں نے ایک نظم ’’ گستاخی تے معافی ‘‘ بھی تحریر فرمائی تھی۔الغرض ان کا کلام ایک قادر الکلام شاعر کا کلام ہے ۔ ان کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جبکہ چھ کتابوں کا مواد ابھی غیر مطبوعہ ہے۔
ان کے فرزندان شہباز علی جتوئی اور سرفزار خان جتوئی اب ان کی کلیات پر کام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس پر کام بھرپور طریقے سے جاری و ساری ہے۔ دس کتابوں پر مشتمل دیوان کی اشاعت کے بعد ان کے ادبی قد کاٹھ میں خاطر خواہ اضافے کا قوی امکان ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں بے حساب بخشے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button