Column

دہشت گردی کی لعنت

یاور عباس
ڈیرہ اسماعیل خاں میں دہشت گردی کے واقعہ نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا ہے، جس میں خود کش حملے کے نتیجے میں 23جوان شہید ہوگئے ہیں ، ریاستی اداروں نے شہیدوں کا خون خشک ہونے سے پہلے بدلہ لیتے ہوئے 27دہشت گردی مار دئیے اور ان کے متعدد ٹھکانے تباہ کر دئیے ۔ ایک بابا جی سے پوچھا کہ آپ نے پاکستان کو بنتے ہوئے دیکھا کل اور آج کے پاکستان میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں بابا جی نے بڑی سادگی سے جواب دیتے ہوئے کہا پتر پہلے لوگوں کے مکان کچے اور دل سچے ہوتے تھے مگر اب مکان پکے ہوگئے ہیں لیکن احساس مرگیا ہے ، پہلے ایک چھت پر چڑھ کر لوگ پورا گائوں پھر لیتے تھے سڑکوں اور چوراہوں پر چارپائیاں بچھا کر سوجاتے تھے مگر اب اپنے ہی گھر میں لوگ سکون کی نیند نہیں سو پاتے، جان و مال کی حفاظت کے لیے سیکورٹی گارڈ رکھ لیے مگر پھر بھی وارداتیں ہوجاتی ہیں افسوس تو اس بات کا ہے کہ اکثر اوقات چوکیدار ہی گھر کو لوٹ لیتے ہیں۔ ابھی چند دہائیوں کی بات ہے کہ ارض وطن میں اختلافات اگرچہ موجود تھے مگر مذہبی ، لسانی فسادات کا ذکر کم ہی ملتا تھا لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے برداشت کا عنصر موجود تھا۔ ہر علاقے کے لوگوں کی اپنے اپنے انداز میں مہمان نوازی مشہور تھی، پھر افغانستان کی روس کے ساتھ جنگ میں پاکستان نے امریکہ کا اتحادی بن کر دنیا کی سپر پاور روس کو شکست سے دوچار کر دیا ، سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیااور بدلے میں ہم افغان پناہ گزینوں کی بڑی کھیپ مل گئی ، افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ساتھ ہی پاکستان میں کلاشنکوف اور منشیات کلچر کو فروغ ملنا شرو ع ہوگیا۔ افغانستان میں جنگ بندی کے بعد تو امن قائم ہوگیا مگر جنرل ضیاء الحق کے طیارہ حادثہ کے بعد جب ملک میں جمہوری دور کا آغاز ہوا تو 90ء کی دہائی میں پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم ہوگیا جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ، بڑے بڑے بیوروکریٹس، پولیس افسران، سکالرز، پروفیسرز اہم مذہبی رہنما، حتیٰ کہ مساجد اور امام بارگاہوں میں ہر طرف خون ہی خون بہنے لگا، مذہبی عبادت گاہوں کوعبادت کے اوقات کے بعد تالے لگنا شروع ہوگئے ، سیکورٹی عملہ کے بغیر عبادت تک مشکل ہوگئی۔ 90ء کی دہائی کے آخر میں ایک بار پھر نوازشریف کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر فوج نے اقتدار سنبھال لیا اور جنرل پرویز مشرف ملک کے ایگزیکٹو سربراہ بن گئے۔ ان کی حکومت کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ امریکہ میں 9؍11کا سانحہ رونما ہوگیا جس کی ذمہ داری القاعدہ اور طالبان حکومت پر ڈال کر امریکہ نے اپنی فوجیں افغانستان میں اتار دیں اور ایک امریکی کال پر پاکستان کے اقتدار کے فرد واحد حکمران جنرل پرویز مشرف نے امریکی حکم کے آگے سرنڈر کر دیا اور امریکہ کی حمایت کی لیے موقف اختیار کیا کہ ہم پاکستان کو پتھر کے زمانے میں نہیں دھکیلنا چاہتے اور بس کیا تھا کہ ’’ سب سے پہلے پاکستان ‘‘ کا نعرہ لگا کر امریکی فوجوں کو پاکستان کی سرزمین پر اڈے دے دئیے گئے ، امریکہ نے ڈالروں کے ذریعے پاکستان کی مدد کی مگر ان ڈالروں کی وجہ عام آدمی کو آج تک کوئی ریلیف نہیں مل سکا ہاں البتہ پاکستان کو اس جنگ کے صلہ میں امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر ڈرون حملوں کا تحفہ ملا جبکہ طالبان کی جانب سے ملک میں دہشت گردی کا تحفہ ملا ۔ یہ دہشت گردی ریاست کے خلاف کی گئی ، عام لوگوں کو تو نشانہ بنایا ہی گیا مگر زیادہ تر ریاستی اداروں پر حملے ہوئے حتیٰ کہ جی ایچ کیو، نیول بیس، پولیس سنٹرز پر حملوں کے ذریعے ریاست کو کمزور کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان نے 70ہزار جانیں دہشت گردی کی وجہ سے قربان کر دیں۔ امریکی چند ڈالروں کے بدلے اربوں ڈالرز معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور مطلب نکلنے کے بعد امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ، یوں دہشت گردوں نے وفاقی دارالحکومت سمیت اہم جگہوں کو ٹارگٹ بناکر دہشت گردی کی کارروائیاں کیں، لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ کر کے پاکستان میں کھیلوں کے میدان ویران کر دئیے ۔ یونیورسٹیوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے تعلیمی اداروں کو بند کروانے کی ناپاک کوششیں کی گئیں ۔ 16دسمبر 2014ء کو دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور کو نشانہ بنایا اور ڈیڑھ سو سے زائد بچوں اور اساتذہ کو بے دردی سے شہید کر دیا، ایک سو سے زائد زخمی ہوئے تو ریاست پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف حتمی کارروائی کے لیے سر جوڑ لیے ، حکومت ، اپوزیشن اور عسکری ادارے ایک میز پر بیٹھ گئے ، اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بڑی جرات مندی سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بھر پور کوشش کی اور ملک کے طول و عرض سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا شروع کر دیا ،آپریشن ضرب عضب کے ذریعے جنرل راحیل شریف کی کاوشوں کی بدولت دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی اور منظم انداز سے ہونے والے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا اگرچہ چھوٹی موٹی دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی رہتی تھی یوں کئی سال تک امن قائم ہوا، پیپلز پارٹی حکومت نے سلالہ چیک پوسٹ پر 11جوانوں کی شہادت کے بعد امریکی اڈے ختم کرائے۔ عمران خاں کے دور حکومت میں امریکی ڈرون حملوں کا خاتمہ ہوگیا۔ بلوچستان میں ہزارہ برادری کو متعدد بار دہشت گردوں کی وجہ سے سینکڑوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ عمران خاں کے خلاف عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت کمزور ترین حکومت تھی ریاستی ادارے اور حکومت سیاسی بحران سے نکلنے کی کوشش کرتی رہی، ملک سیاسی ، معاشی اور آئینی بحران سے دوچار تھا، حکومت کی تمام تر توجہ پی ٹی آئی کو کچلنے میں لگی رہی پھر 9مئی کے واقعہ کے بعد سیاست یکسر تبدیل ہوگئی مگر اس دوران دہشت گردی کی وارداتیں بڑھتی رہیں، دہشت گردی کی لعنت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہمیں ملک میں مضبوط جمہوری نظام کی ضرورت ہے جس کے ذریعے پارلیمنٹ مضبوط ہو، عوامی حمایت سے منتخب شدہ مضبوط سیاسی قیادت ہی معاشی استحکام پیدا کر سکتی ہے، آئین و قانون کی حکمرانی کے ذریعے ایک بار پھر تمام سیاسی ، مذہبی جماعتیں اور ریاستی ادارے ایک میز پر بیٹھ کر دہشت گردی کی لعنت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button