Column

سارا قصور نادرا کا بھی نہیں

رفیع صحرائی
آج کل سوشل میڈیا پر ضلع قصور کے ایک شخص کی ویڈیو کافی وائرل ہو چکی ہے جو اپنی بپتا سناتے ہوئے بتا رہا ہے کہ جب وہ نادرا والوں کے پاس اپنے بچوں کے ’’ ب فارم‘‘ بنوانے گیا تو نادرا والوں نے آگے سے جواب دیا کہ آپ کی تین بیویاں ہیں۔ آپ سب کو دفتر میں لے کر آئیں. طارق نامی اس شخص کا کہنا ہے کہ اس نے نادرا والوں کو بتایا کہ اس کی ’’ پروین‘‘ نامی صرف ایک ہی بیوی ہے۔ مگر نادرا والے نہ مانے اور اسے تینوں بیویاں حاضر کرنے کو کہا۔ اسے نادرا دفتر سے بے نیل و مرام گھر واپس لوٹنا پڑا۔
عام لوگوں کے لیے دلچسپ مگر طارق کے لیے مشکل صورتِ حال اس وقت پیدا ہو گئی جب اس نے گھر آ کر اپنی بیوی کو سارا واقعہ بتایا۔ طارق کے بقول اس کی بیوی نے اسے ہی جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ تم محنت مزدوری کرنے قصور شہر جاتے ہو، ممکن ہے تم نے وہاں شادیاں کر رکھی ہوں۔ یہی نہیں بلکہ بقول طارق کے، اس کی بیوی روٹھ کر اپنے میکے چلی گئی۔ اس نے اپنے محلے داروں کی منت سماجت کر کے انہیں ایک ہزار روپے سکہ رائج الوقت بطور کرایہ دیے اور وہ قصور جا کر اس کے سسرالیوں کو یقین دہانی کروا کر ’’ پروین‘‘ کو منا کر لائے۔
قارئین کرام! یہ صورت حال واقعی دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ افسوسناک بھی ہے۔ مگر اس میں چند باتیں غور طلب ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خاوند یا بیوی میں سے کوئی ایک نادرا دفتر جا کر اپنے بچوں کا ’’ ب فارم‘‘ بنوا سکتا ہے۔ دونوں کا ایک ساتھ دفتر جانا ضروری نہیں ہی۔ نادرا کی شرط صرف اتنی ہے کہ متعلقہ فرد کا اسٹیٹس ان کے پاس ’’ شادی شدہ‘‘ کا ہو۔ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی اور آگہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ دشواری اکثر پیش آتی ہے۔ لوگ شادی کروا لیتے ہیں لیکن نادرا آفس میں جا کر اپنے رجسٹرڈ اسٹیٹس ’’ غیر شادی شدہ‘‘ کو ’’ شادی شدہ‘‘ میں تبدیل نہیں کرواتے۔ نادرا کے ریکارڈ میں میاں بیوی دونوں ہی کنوارے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں نادرا کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے تو والدین کا اسٹیٹس تبدیل کرتا ہے۔ اور نیا شناختی کارڈ جاری کرتا ہے۔ اس کے بعد بچوں کی رجسٹریشن کر کے ان کا ’’ ب فارم‘‘ جاری کر دیتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں ایسی صورت حال نہیں ہے۔ بلکہ خاوند کے کھاتے میں ایک کی جگہ تین بیویاں ڈال دی گئی ہیں۔ جبکہ حقیقت میں اس کی صرف ایک بیوی ہے۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں اپنا ذاتی واقعہ شیئر کرتا ہوں تاکہ آپ اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ سکیں۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ بچوں سے نواز رکھا ہے۔ الحمداللّٰہ سبھی بچے شادی شدہ اور صاحبِ اولاد ہیں۔ میں سینتیس سال تک سرکاری ملازمت کرنے کے بعد جب ریٹائرمنٹ لے رہا تھا تو مجھے بتایا گیا کہ نادرا کا جاری کردہ ’’ ایف آر سی‘‘ ( فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ) درکار ہے۔ میں نادرا آفس پہنچا۔ انچارج صاحب نے مجھے ایک خاتون کے حوالے کر کے انہیں ایف آر سی جاری کرنے کو کہا۔ ان محترمہ نے ریکارڈ دیکھ کر مجھ سے پوچھا کہ ’’ کیا آپ کی دو شادیاں ہوئی ہیں؟‘‘۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔ میری ایک ہی بیوی ہے۔ خاتون نے فرمایا کہ ہمارے ریکارڈ کے مطابق آپ کی دو بیویاں ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے دونوں بیویوں کے نام بھی بتا دئیے۔ وہ خاتون اپنی جگہ پر سچی تھیں۔ ان کے پاس ریکارڈ میں معلومات بھی درست تھیں۔ واقعہ یہ تھا کہ میری بیگم جب بیاہ کر آئیں تو ان کا نام اصل نام تبدیل کر کے میری والدہ نے اپنا پسندیدہ نام رکھ دیا۔ ہر مقام پر وہی نام استعمال ہونے کی وجہ سے ان کا اصل نام تقریباً سبھی بھول گئے۔ تین بچوں کے شناختی کارڈ بنواتے وقت میں ان کے ساتھ گیا تھا اس لیے میں نے ان کی والدہ کا وہی نام لکھوایا جو ان کا اصل نام تھا۔ دو بیٹیاں جب شناختی کارڈ بنوانے گئیں تو ساتھ ان کا بھائی گیا تھا۔ بیٹیوں نے اپنی والدہ کا وہ نام لکھوا دیا جو گھر میں عام بولا جاتا تھا۔ اس طرح نادرا کے ریکارڈ میں میری دو بیویوں کا اندراج ہو گیا۔ نادرا آفیسر کی رہنمائی لیتے ہوئے اگلے روز میں پانچوں بچوں اور بیگم کو ساتھ لے کر نادرا آفس پہنچا جنہوں نے شہادت دی کہ ان کی والدہ ایک ہی ہیں۔ اس طرح ریکارڈ درست ہو گیا اور چند دن بعد مجھے ایف آر سی مل گیا۔
یہ پورا واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ’’ پروین‘‘ ایک عام سا نام ہے۔ اس کے ساتھ مختلف سابقے لاحقے لگ جاتے ہیں جیسے کہ ’’ کوثر پروین، شازیہ پروین، پروین اختر، پروین بی بی، رضیہ پروین، وغیرہ وغیرہ‘‘ ہمارے ہاں پورا نام لے کر بلانے کا رواج بہت کم ہے۔ پروین اختر کو گھر میں ہی کوئی پروین کہہ کر بلاتا ہے تو کوئی اختر کہہ لیتا ہے۔ کوثر پروین بھی کسی کے لبوں سے کوثر تو کسی کے منہ سے پروین کہلاتی ہے۔ اب آپ پہلے بچے کی رجسٹریشن کوثر پروین، دوسرے کی کوثر اور تیسرے کی پروین کے نام سے کرا دیں گے تو نادرا کے ریکارڈ میں وہ تین الگ خواتین درج ہوں گی۔ لگتا ہے طارق موصوف کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہو چکا ہے۔ معاملے کو حل کرنے اور ریکارڈ درست کروانے کی بجائے طارق نامی یہ شخص میڈیا والوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے صحافتی اصولوں کو نظر انداز کرکے محض ریٹنگ کے چکر میں طارق کا یک طرفہ بیان ویڈیو کی صورت میں وائرل کر دیا۔ عام لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے ثواب سمجھ کر اسے شیئر کرنا شروع کر دیا۔ کسی نے فقرہ کسا کہ ’’ بینکوں کے اکائونٹ سے پیسے نکلنے کے بعد اب نادرا کے اکائونٹ سے بیویاں نکلنے لگیں‘‘ تو کسی نے کسی اور تضحیک آمیز یا مزاحیہ جملے سے معاملے کو اچھالا۔ جہاں تک بیوی کے روٹھنے اور منانے کی بات ہے تو باڈی لینگویج سے ہی لگ رہا ہے کہ طارق یہ بات ’’ زیبِ داستاں‘‘ کے طور پر کر رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نادرا کے بعض افسران اور ملازمین نے غیر ملکیوں کو پاکستانی شہریت دلانے کے لیے انہیں مختلف فیملیز کے ممبران کے طور پر رجسٹرڈ کیا تھا۔ مگر ہر جگہ ایسا نہیں ہوا۔ اکثر جگہوں پر ہماری اپنی غلطی سے نادرا ریکارڈ میں غلط اندراجات ہوئے ہیں۔ بس احتیاط کیجئے۔ اپنی فیملی ٹری یا فیملی ممبران کی رجسٹریشن چیک کرنے کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنا شناختی کارڈ نمبر لکھ کر 8009پر ایک میسج بھیج دیں۔ فوراً ہی آپ کے افرادِ خانہ کی تعداد اور نام کا جوابی میسج آپ کو موصول ہو جائے گا۔ اگر آپ کی فیملی میں کوئی غیر متعلقہ فرد رجسٹرڈ ہو گیا ہے تو اسے درست کرا لیجئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button