CM RizwanColumn

تجربہ کاروں کی تجربہ کاری یا عیاری

سی ایم رضوان
گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کو آئندہ بیس روز کے اندر اندر انٹرا پارٹی الیکشن کروا کے نتائج فراہم کرنے کا حکم دیا ہے وگرنہ متنبہ کیا ہے کہ اس کا انتخابی نشان بلا واپس لے لیا جائے گا جبکہ اس پارٹی کے اندر اس وقت جوتوں میں دال بٹ رہی ہے۔ ظاہر ہے اس وقت اس جماعت میں انٹرا پارٹی الیکشن کیا سلیکشن بھی مشکل تر ہے لہٰذا خدشہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں اس بزعم خود بڑی پارٹی کو بلا نشان نہ ملے گا تو انجام ناکامی ہو گا اور یوں چیئرمین پی ٹی آئی کا ماضی میں کیا گیا دعویٰ کہ وہ مائنڈ گیم کے ماہر ہیں مٹی میں مل جائے گا اور پی ٹی آئی کے تجربہ کاروں کی تجربہ کاری محض اس بنا پر دھری کی دھری رہ جائے گی کہ اس کے چیئرمین نے کبھی بھی پارٹی قیادت کسی دوسرے کو دینے کا آپشن ہی نہیں رکھا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے شریکِ چیئرمین آصف علی زرداری کی تجربہ کاری کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے ہی بیٹے اور شریک چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کی ناتجربہ کاری اور بچگانہ روش کا رونا میڈیا پر رو چکے ہیں۔ اب چاروں صوبوں کی نمائندہ اس جماعت کا ووٹر گومگو کی حالت میں ہے کہ ان دو بڑوں میں سے کس تجربہ کار کو مکمل تجربہ کار سمجھے اور کس کو ناتجربہ کار۔ دوسری طرف بلاول بھٹو کی جانب سے 70،70سال کے بابے سیاست دانوں کو سیاست چھوڑ کر آرام سے گھر بیٹھ جانے کے مشورے کے بعد پیپلز پارٹی میں موجود 60 سے70سال کے بابے بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شاید بلاول کا یہ مشورہ ان کے لئے بھی ہے اور ایسے سینئر سیاستدان جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور ان کی عمریں بھی 60سے 70سال کے درمیان ہیں وہ اپنے چیئرمین کے اس بیان کے بعد ایک طرح سے خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی میں موجود 60سے 70 سال کی عمروں کے درمیان والے لوگ آف دی ریکارڈ اپنے چیئرمین کے اس بیان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے، وہ سوچتے ہیں کہ بلاول بھٹو کو انہیں گھر بیٹھنے کا مشورہ دینے کی بجائے ان کے تجربات سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے، بلاول کے اس بیان پر پیپلز پارٹی کی وہ لوگ جو مختلف ٹاک شوز میں جاتے ہیں وہ بھی اس معاملے میں پارٹی قیادت کی سنجیدگی کا دفاع کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ البتہ پارٹی کے بعض ترجمانوں کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو چاہتے ہیں کہ بابے سرپرست بن جائیں اور یوتھ کو آگے آنے کا موقع دیں کیونکہ بلاول کو بتایا گیا ہے کہ یہ بابے نوجوانوں کو آگے نہیں آنے دیتے جبکہ بلاول ہر اہم عہدے پر یوتھ کی نمائندگی اور تحریک انصاف کی طرح پی پی پی یوتھ کو ہراول دستہ بنانا چاہتے ہیں۔
بہرحال دونوں باپ بیٹا کے مابین اسی بیاناتی اختلاف کے پیش نظر گزشتہ روز جب بلاول بھٹو اچانک دبئی روانہ ہوئے تو چہ میگوئیاں ہونے لگیں جس پر پارٹی کی دوسری سطح کی قیادت کو بلاول بھٹو اور ان کے والد سابق صدر آصف زرداری کے درمیان اختلافات کی خبروں کو بے بنیاد قرار دے کر یہ کہنا پڑا کہ سابق وزیر خارجہ پہلے سے شیڈولڈ دورے پر دبئی روانہ ہوئے ہیں۔ ان رہنماں کی جانب سے یہ بیانات ایک ایسے موقع پر سامنے آئے جب متعدد نیوز چینلز نے رپورٹ کیا کہ بلاول اپنی پارٹی قیادت کو بتائے بغیر اچانک دبئی روانہ ہو گئے ہیں۔ ان رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ بلاول کی بیرون ملک روانگی کا تعلق آصف زرداری کے حالیہ انٹرویو کے بعد باپ بیٹے کے درمیان ظاہر ہونے والے اختلافات سے ہے کیونکہ اس انٹرویو میں سابق صدر مملکت نے کہا تھا کہ بلاول ابھی پوری طرح سے تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ انہیں ابھی وقت لگے گا، زرداری کا کہنا تھا کہ بلاول مجھ سے زیادہ باصلاحیت، پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ اچھا بولتے ہیں لیکن تجربہ تجربہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں بلاول جلسوں سے خطاب کے دوران بھی بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ اب قوم کو بزرگ سیاست دانوں کو گھر بٹھا کر عام انتخابات میں نئی نسل کو موقع دینا چاہیے۔ اس سے قبل رواں سال اگست میں قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بھی بلاول نے کہا تھا کہ نواز شریف اور زرداری کو ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جن سے میرے اور مریم کے لئے سیاست آسان ہو، مشکل نہ ہو، جس طریقے سے ہم چل رہے ہیں اس سے لگ رہا ہے کہ ہمارے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو تیس سال آپ لوگوں نے سیاست بھگتی ہے، آپ چاہتے ہیں اگلے 30سال بھی ہم وہی سیاست کریں۔ جبکہ مذکورہ بالا انٹرویو میں آصف علی زرداری نے بلاول کے حوالے سے ایک سوال پر یہ بھی کہا تھا کہ آج کی نوجوان نسل کی اپنی سوچ ہے اور سوچ کے اظہار کا ان کو حق حاصل ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر میں بلاول کو روکوں گا تو اور مسئلے ہوں گے، وہ کہے گا کہ ٹھیک ہے آپ سیاست کریں، میں نہیں کرتا، پھر میں کیا کروں گا۔ بلاول کی جانب سے بزرگ سیاست دانوں کو گھر بیٹھنے کے مشورے کے حوالے سے بھی سابق صدر مملکت نے کہا تھا کہ بلاول یہ بات صرف مجھ سے نہیں بلکہ سب سے کہہ رہے ہیں، سیاست میں سیکھتے سیکھتے وقت لگتا ہے، مجھ سے اب بھی غلطیاں ہوتی ہیں، نئی پود کی سوچ یہی ہے کہ آپ کو کچھ معلوم نہیں۔
ماضی قریب میں بھی پاکستان کے آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر زرداری اور بلاول کے متضاد بیانات سامنے آ چکے ہیں۔ زرداری نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابند ہے اور زور دیا تھا کہ ای سی پی آئین کے مطابق الیکشن کروائے جبکہ بلاول نے اس کے برعکس رائے کا اظہار کیا تھا۔ زرداری نے مزید کہا تھا کہ ملک اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ہم سب کو سیاست کی بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے۔ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔ آصف زرداری کے اس بیان سے بظاہر یہ تاثر ملا تھا کہ وہ عام انتخابات کا جلد انعقاد نہیں چاہتے جبکہ بلاول نے دوسرا موقف اپنایا۔ اس کے بعد سنیچر کو صوبہ سندھ کے شہر بدین میں بلاول نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں صرف گھر کی باتوں پر ہی آصف زرداری کا پابند ہوں۔ سیاسی و آئینی معاملات میں پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں کی پابندی ضروری ہے۔
اب سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا بلاول بھٹو اور ان کے والد آصف زرداری آمنے سامنے آ چکے ہیں اور کیا یہ بیانات ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں یا باپ بیٹے کا آپسی اختلاف پارٹی معاملات میں در آیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان بیانات سے یہ نتیجہ نکالنا کہ پیپلز پارٹی میں کوئی دراڑ پڑ رہی ہے، درست نہیں۔ وہ ان بیانات کو محض نمائشی پریکٹس اور گُڈ کاپ بیڈ کاپ تکنیک قرار دے رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے یہ سبق مسلم لیگ نواز سے سیکھا ہے اور اس طرح کے بظاہر متضاد بیانات کے ذریعے پیپلز پارٹی ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کو خوش رکھنا چاہتی ہے اور ساتھ ہی عوام کی ہمدردیاں بھی ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔ گو کہ بعض سیاسی مبصرین بلاول اور زرداری کی بیاناتی کشمکش کو شریف برادران کی سیاسی حکمت عملی کے مماثل قرار دے رہے ہیں مگر جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بلاول بھٹو کے مذکورہ بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ بلاول کا بزرگوں سے متعلق بیان خود ان کے والد کے حوالے سے ہے۔ مولانا نے یہ بات تب کہی تھی جب میاں نواز شریف ایک وفد کے ساتھ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے تھے، ملاقات میں آئندہ انتخابات اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی مشاورت ہوئی۔ بعد ازاں انہوں نے کہا تھا کہ ہماری سیاست بچوں کے حوالے نہیں ہونی چاہیے، بچے اور بڑے کی بات میں فرق ہوتا ہے، بلاول بھٹو نے بزرگوں سے متعلق بیان اپنے والد کے لئے دیا ہے لیکن بلاول بھٹو نہیں جانتے کہ ہم نے ماضی میں کیا کچھ دیکھا اور سنا۔
آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے متضاد بیان کو نمائشی عمل قرار دینے والوں کا یہ بھی استدلال ہے کہ زرداری کھیل میں ان ہونا چاہتے ہیں لیکن اگر یہ استدلال مان بھی لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بلاول بھٹو اپنے والد کے اثر سے نکل رہے ہیں؟ اور اگر اس کا جواب یہ ہے کہ بلاول اپنے والد کی مرضی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتے تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے شہباز شریف اپنے اقدامات کے لئے حتمی طور پر بڑے بھائی نواز شریف کے اشارے کے محتاج رہتے ہیں لیکن اپنے کئی بیانات اور اقدامات سے نظر آتے ہیں کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی بعض پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ ہمارے ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کا المیہ یہی ہے کہ ان کی قیادت اپنے سوا کسی کو آگے نہیں لانا چاہتی یہاں تک کہ خاندانوں کے افراد کو بھی نہیں۔ اب ایک طرف پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے ضمن میں اسی تضاد کا شکار ہے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی میں باپ بیٹے کے مابین اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ جبکہ ن لیگ کسی حد تک اس تضاد کو بھگت چکی ہے اور اس میں موجود متحارب عناصر قدرے ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ عوام کو بظاہر تجربہ کاری اور نا تجربہ کاری کا چورن بیچنے والے یہ تمام چھوٹے بڑے سیاستدان دراصل عیاری کر رہے ہیں جو کہ وہ پچھلی نصف صدی سے کر رہے ہیں البتہ اب الیکشن سے قبل ایک نئی قسم کی عیاری سے عوام کا پالا پڑا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ پاکستانی عوام کا حامی و ناصر ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button