Columnمحمد مبشر انوار

معاہدہ

محمد مبشر انوار( ریاض)
تقریبا 45؍47دن ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرنے کے بعد، عرب ممالک بالخصوص اور عالمی برادری بالعموم بالآخر عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر قائل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور امید ہے کہ اگلے چند روز فلسطین میں امن کے گزریں گے۔ جنگ کے ان ایام میں، اسرائیل نے سر دھڑ کی بازی لگا دی کہ کسی طرح اپنے مغویان کو بازیاب کرا سکے لیکن ماسوائے نہتے شہریوں کو خون میں نہلانے کے، اسرائیل کوئی بھی ٹھوس کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ گو کہ اس مشق میں اسے عالمی و خود ساختہ مہذب ممالک کی بھرپور حمایت حاصل رہی کہ جیسے بھی وہ چاہے، غزہ کے شہریوں کے ساتھ سلوک کرے لیکن اس مادر پدر آزاد حمایت کے باوجود، اسرائیل حماس مجاہدین سے اپنے یرغمالی رہا کرانے میں بری طرح ناکام رہا اور یوں اسرائیل کی اہلیت و قابلیت ساری دنیا پر آشکار ہو گئی۔ جنگ بندی کے اس معاہدے کے مطابق، اسرائیل یرغمالیوں کے تبادلے کے دوران کسی بھی صورت اپنی حربی صلاحیت کا استعمال نہیں کر سکے گا کہ وہ اس آڑ میں مغویان کی بازیابی و سکونت کے متعلق کوئی معلومات کسی بھی طریقے سے حاصل کر سکے تا آنکہ یرغمالیوں کا تبادلہ مکمل نہیں ہو جاتا۔ اس عارضی جنگ بندی معاہدے پر اسرائیلی وزیر اعظم حسب توقع قطعی خوش نہیں اور اس کا اظہار انہوں نے برملا کر بھی دیا ہے کہ اس جنگ بندی کو مستقل نہ سمجھا جائے اور جیسے ہی مغویان کے تبادلے کا عمل مکمل ہوتا ہے، اسرائیل اپنی جنگ دوبارہ شروع کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور اسرائیل مجاہدین کو سبق ضرور سکھائے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے بیان گو کہ سو فیصد ان الفاظ پر مشتمل نہیں لیکن بہر طور بین السطور اس کا مفہوم یہی ہے اور اسرائیل کا یہ رویہ قابل فہم ہے کہ جو تاثر انہوں نے عالمی طاقت پر قائم کر رکھا تھا، وہ حماس مجاہدین نے بری طرح متاثر کر دیا ہے اور اقوام عالم کو یہ باور کروادیا ہے کہ غزہ کے شہری اپنی آزادی پر کوئی بھی قربانی دینے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں، خواہ اس کے بدلے ان کے ہزاروں بچے، نہتے شہری، مریض، ڈاکٹرز اور رہائش گاہیں ہی کیوں نہ ملیا میٹ کردی جائیں۔ آفرین ہے! مجاہدین پر کہ انہوں نے انتہائی ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ اس امتحان کا سامنا کیا ہے اور اس میں سرخرو بھی رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور وسائل کے باوجود، مغویان کی گرد تک کو نہیں پہنچ سکی جبکہ خیر سگالی کے طور پر رہا ہونے والی یرغمالی، مجاہدین کے بہترین روئیے پر نہ صرف مشکور نظر آئے بلکہ ان کی یکطرفہ سوچ بھی بدلی محسوس ہوئی۔ رہائی پانے والے مغویان کے بیانات، اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں، جن کے نزدیک مجاہدین، آزادی کے متوالے، دہشت گردی میں ملوث ہیں جبکہ اسرائیلی غاصب و ریاستی دہشت گردی کی مرتکب ریاست کو حق دفاع دینے والے، آج بھی اپنے اس روئیے پر نادم نظر نہیں آتے۔ تاہم انہی خود ساختہ مہذب ممالک کے شہریوں کا سخت ردعمل، اپنی ریاستوں کے دوہرے کردار سے نقاب نوچ رہاہے اور انہیں اقوام عالم میں ننگا کر چکا ہے اور یقین واثق ہے کہ آئندہ متوقع انتخابات میں، جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے، ایسی قیادت کو سامنے لانے سے یقینا گریز کرے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات کا انعقاد ہی اس اہم ترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہوتا نظر آئے کہ جن انسانی حقوق کی باتیں کرتے ان حکمرانوں کی زبانیں نہیں تھکتی، اسرائیل میں ان خلاف ورزیوں پر نہ صرف یہ گنگ رہے بلکہ ایک دہشت گرد ریاست کی پشت پناہی کرتے دکھائے دئیے۔
اس وقت عالمی رائے عامہ بجا طور پر مشرق وسطیٰ کے بحران کا دو ریاستی حل تسلیم کر چکی ہے لیکن بوجوہ امریکہ و مغرب اس پر عمل درآمد کرانے سے گریزاں ؍ تامل کا شکار نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف روس اس غفلت کو واشگاف الفاظ میں امریکی خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دے چکا ہے۔ اس امر کا اظہار روس کے صدر پوتن نے برکس کی حالیہ سربراہی کانفرنس میں کیا ہے اور مشرق وسطی میں امریکی دہرے کردار کے بعد یہ حقیقت واضح نظر آ رہی ہے کہ اب امریکی بوریا بستر مشرق وسطی سے گول ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے تا آنکہ امریکہ کوئی نئی چال نہ چلے جس سے اس کا مشرق وسطیٰ میں رہنا ناگزیر ہو جائے۔ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے اور ناگزیریت کو قائم رکھنے کے لئے امریکہ کوئی بھی حرکت کرنے سے نہیں چوکے گا کہ عالمی سیاست میں اگر مشرق وسطیٰ سے امریکہ نکلتا ہے تو قوی امکان یہی ہے کہ اسے دیگر خطوں سے بھی پسپائی کا سامنا کرنا پڑے، جو بہرکیف امریکی مفادات سے لگائو نہیں کھاتا۔ مشرق وسطی میں امریکی حلیف اب اس سے دور ہوتے دکھائی دیتے ہیں کہ امریکی کیمپ میں رہتے ہوئے، نہ صرف مشرق وسطی بلکہ مسلم ممالک کے درمیان خلیج مسلسل بڑھتی رہی ہے جبکہ چین و روس کے مدمقابل آنے پر ان ممالک کے درمیان دوستی کی فضا قائم ہو رہی ہے، جو واضح نظر آ رہی ہے۔ چین و روس کی اس خطے میں اس کامیابی کو کسی بھی صورت معمولی تصور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی حقیقت میں یہ کوئی چھوٹی کامیابی ہے گو کہ اس کامیابی کے پس پردہ یقینی طور پر چین کے بطور ریاست مفادات ہیں، جو بتدریج آشکار ہوتے جائیں گے، تاہم اس سے بڑا مفاد اور کیا ہو سکتا ہے کہ بلاشرکت غیرے اکلوتی عالمی طاقت کو اس کی حدود میں سمیٹنے کا عمل شروع ہو چکا ہے؟ جیسا کہ عرض کیا کہ اس وقت عالمی برادری اس پر متفق دکھائی دیتی ہے کہ مشرق وسطی کا پائیدار امن صرف اور صرف دو ریاستی حل میں پوشیدہ ہے، لہذا نہ صرف امریکہ، اس کے حلیف بلکہ اسرائیل کو بھی جلد اس حل پر رضامند ہونا پڑے گا بصورت دیگر معاشی دنیا میں اسرائیل کے لئے اپنی بقاء کو قائم رکھنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔
دو ریاستی حل کے سلسلے میں اہم ترین معاملہ علاقوں کی تقسیم سے متعلق ہو گا، ماضی میں اسرائیل نے جو علاقے فلسطین سے ہتھیا رکھے ہیں، ان سے دستبرداری، اس کے لئے یقینی طور پر ایک مشکل امر ہو گا لیکن دوسری طرف یہ بھی ممکن نہیں کہ فلسطین کو ویسٹ بنک اور غزہ پٹی پر ہی ایک ریاست تسلیم کر لیا جائے۔ عرب ریاستوں کے علاوہ ، دیگر اسلامی ممالک کی طرف سے یہ مطالبہ بہت پرانا ہے کہ دو ریاستی حل اسی صورت ممکن ہے جب اس کی حد بندی1967ء کی جنگ سے قبل سرحدوں پر کی جائے وگرنہ یہ تنازع مسلسل قائم رہے گا، لہذا دو ریاستی حل اسی صورت پائیدار امن کا حامل ہو گا اگر اس کی سرحدیں مذکورہ تجویز کے مطابق ہوں۔ صیہونیوں کی شر پسندی سے یہ بعید از قیاس قطعی نہیں کہ وہ اس حل کے بعد بھی ایک امن پسند قوم کی طرح رہیں بلکہ چھیڑ خوانی کے امکانات ،زیر زمین حرکات کی ان سے مسلسل توقع رہے گی کہ ان کے متعلق یہ حقائق قرآن میں موجود ہیں، تاہم یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک مرتبہ عالمی طاقتوں کے طفیل یہ معاملہ حل طے پا گیا تو یہی عالمی طاقتیں ہی، اسرائیل کو حد میں رکھ پائیں گی۔ اسرائیل کو مستقلا قابو میں رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی شرپسندیوں پر اس پر گو شمالی کی جائے، جس کا مطالبہ جنوبی افریقہ نے بجا طور پر ’’ برکس‘‘ کے سربراہی اجلاس میں کر دیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ انتہائی اہم اور ضروری ہے کہ اسرائیل پر جنگی جرائم کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں دائر کیا جائے ،اور ذمہ داران کو اس کی کڑی سزادی جائے۔ جنوبی افریقہ کی طرف سے مطالبہ کیا جانا انتہائی خوش آئند ہے کہ عالمی برادری میں ایسے ممالک موجود ہیں جو غیر جانبدارانہ رائے رکھتے ہیں اور پائیدار امن کے لئے سنجیدہ کوششیں کرتے نظر آتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ کیا جنوبی افریقہ یہ قدم اٹھا پائے گا ؟ یا کوئی دوسری عالمی طاقت اس اہم ترین مسئلے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جائیگی؟ مشرق وسطیٰ کی کوئی ریاست یہ قدم اٹھانے کا بوجھ برداشت کر پائے گی؟ بظاہر اس وقت کچھ بھی کہنا ممکن نہیں تاہم جو لائحہ عمل مشرق وسطی کے ممالک اور عالم اسلام نے اس مرتبہ اپنایا ہے، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان ممالک پر امریکی اثر و رسوخ بہت حد تک کم ہو چکا ہے اور عین ممکن ہے کہ ان ممالک میں سے ہی کوئی نہ کوئی ریاست عالمی عدالت انصاف میں اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف مقدمہ دائر کر دے۔ اس کا فیصلہ بہر طور آنے والا وقت کرے گا لیکن اس حقیقت سے قطعی کوئی انکار نہیں کہ موجودہ جنگ بندی کا معاہدہ، عارضی امن تو قائم کر سکتا ہے لیکن جب تک ظالم کو اس کے ظلم کی قرار واقعی سزا نہیں ملتی، یہاں پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button