Editorial

آرمی چیف سے علماء کرام اور مشائخ کی ملاقات

ملک عزیز کے قیام کو 76 سال ہوچکے ہیں۔ اس دوران بہت سی ظاہر و پوشیدہ طاقتوں نے ملک میں نفرت، تعصب، شر اور دیگر برائیوں کو ہوا دینے اور قوم و ملت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے ڈھیروں سازشیں رچائی ہیں، پاکستانی معاشرے کو تباہی سے دوچار کرنے کے لیے تمام تر حربے آزمائے ہیں، ان سازشوں کے توڑ میں جہاں افواج پاکستان برسر پیکار رہیں اور دشمنوں کو دندان شکن جوابات دئیے، وہیں اس موقع پر ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام و مشائخ نے باہمی اتحاد و یگانگت سے ان سازشوں کو بے اثر بنانے کلیدی کردار ادا کیا۔ قوم و ملت کے اتحاد کے لیے ان کی کوششیں ہر موقع پر صائب اور قابلِ قدر رہی ہیں۔ مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کے خلاف بھی ان کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم انہیں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ان کے احترام میں کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہیں رکھتی۔ دشمن عناصر کی جانب سے پچھلے دو عشروں کے دوران نفرت کو بے پناہ شدّت کے ساتھ بڑھاوا دیا گیا ہے۔ دین کی غلط تشریحات پیش کرکے کئی نوجوان ذہنوں کو بدی کی راہ پر گامزن کیا اور اُن کے ذریعے دہشت گردی کے واقعات کرا کر کئی بے گناہ انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنے۔ ملک میں گمراہ کُن پراپیگنڈوں کا سلسلہ اب بھی تھما نہیں ہے۔ پاک افواج اس کا موثر توڑ کررہی ہے اور دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں علماء کرام اور مشائخ بھی اپنی ذمے داریاں نبھارہے ہیں۔ بُرائی کے خلاف موثر کوششیں جاری ہیں، جن کے بہتر نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ ان شاء اللہ ملک اور قوم کے خلاف کی جانے والی تمام سازشیں اسی طرح آئندہ بھی ناکام ہوتی رہیں گی۔ گزشتہ روز آرمی چیف سے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام اور مشائخ نے ملاقات کی۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ریاست کے سوا کسی بھی ادارے یا گروہ کی طرف سے طاقت کا استعمال اور مسلح کارروائی ناقابل قبول ہے۔ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام و مشائخ سے ملاقات کے دوران آرمی چیف نے کہا کہ بغیر کسی مذہبی، صوبائی، قبائلی، لسانی، نسلی، فرقہ وارانہ یا کسی اور امتیاز کے پاکستان تمام پاکستانیوں کا ہے۔ آرمی چیف نے انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کے ذریعے پھیلائے جانے والے گمراہ کن پراپیگنڈے کے خاتمے کے لیے مذہبی علما کے فتوے ’’ پیغام پاکستان’’ کو سراہا ہے۔ انہوں نے علما و مشائخ سے گمراہ کُن پراپیگنڈے کی تشہیر، اس کے تدارک اور اندرونی اختلافات کو دُور کرنے پر زور دیا۔ آرمی چیف نے فکری اور تکنیکی علوم کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی تفہیم اور کردار سازی کے لیے نوجوانوں کو راغب کرنے میں علمائے کرام کے کردار کی نشان دہی بھی کی۔ علاوہ ازیں علمائے کرام و مشائخ نے متفقہ طور پر انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کی مذمت کی اور ملک میں رواداری، امن اور استحکام لانے کے لیے ریاستی اور سیکیورٹی فورسز کی انتھک کوششوں کے لیے اپنی بھرپور حمایت جاری رکھنے کا عزم کیا۔ اس موقع پر علمائے کرام نے کہا کہ اسلام امن اور ہم آہنگی کا مذہب ہے اور بعض عناصر کی طرف سے مذہب کی مسخ شدہ تشریحات صرف ان کے ذاتی مفادات کے لیے ہیں، جس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے، فورم نے متفقہ طور پر حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی، ایک دستاویزی نظام ( پاسپورٹ) کے نفاذ، انسداد سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری کے خلاف اقدامات کی حمایت کی۔ علاوہ ازیں فورم نے افغان سرزمین سے پیدا ہونے والی دہشت گردی پر پاکستان کے موقف اور تحفظات کی مکمل حمایت کی اور پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے افغانستان پر سنجیدہ اقدامات کرنے پر زور دیا۔ فورم نے غزہ میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا، فورم نے غزہ میں جاری جنگ اور غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا اور انہیں انسانیت کے خلاف جرائم ٹھہرایا۔ موجودہ حالات کے تناظر میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے علمائے کرام اور مشائخ کی ملاقات خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ سپہ سالار کا یہ فرمانا بالکل بجا ہے کہ سوائے ریاست کے کسی بھی ادارے یا گروہ کی طرف سے طاقت کا استعمال اور مسلح کارروائی ناقابلِ قبول ہے۔ ملک عزیز آئینی ریاست ہے، یہاں اصول و ضوابط اور قوانین کی پاسداری ہر کسی پر واجب ہے۔ کوئی قانون سے ماورا نہیں، اس لیے حکومت کے سوا کسی کو بھی طاقت کے استعمال اور مسلح کارروائی کا چنداں حق نہیں۔ آرمی چیف یہ کہنا کہ بغیر کسی مذہبی، صوبائی، قبائلی، لسانی، نسلی، فرقہ وارانہ یا کسی اور امتیاز کے پاکستان تمام پاکستانیوں کا ہے، بالکل بجا ہے۔ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی میں سب کو اپنا حصّہ ڈالنا چاہیے اور اس کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا رہنا چاہیے۔ علمائے کرام و مشائخ کی جانب سے متفقہ طور پر انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کی مذمت قابل تحسین ہے۔ دہشت گردی کے درست ہونے کا کوئی جواز ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ سراسر بدترین جرم اور کئی بے گناہ زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف امر ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ اس سے متعلق غلط تشریحات شر پھیلانے کا باعث ہیں۔ ان کا مل کر تدارک کرنا چاہیے۔ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کا موثر توڑ کرنے کے لیے راست اقدامات ناگزیر ہیں۔
مہنگائی میں اضافہ، تدارک ناگزیر
گرانی کے جھکڑ تیزی سے چل رہے ہیں۔ روز بروز مہنگائی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ملک عزیز کا پچھلے پانچ، چھ سال سے یہی منظرنامہ ہے۔ مہنگائی کے نشتر غریبوں پر انتہائی بے دردی سے برسائے گئے ہیں، جس کے باعث اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا ازحد مشکل ترین امر بن کر رہ گیا ہے۔ یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ پوری شدّت کے ساتھ جاری ہے اور گرانی مزید شدّت اختیار کرتی نظر آتی ہے۔ پچھلے 5 سال کے دورانیے میں اس میں کمی کی نظیر بہ مشکل ڈھونڈے دِکھائی دے۔ مصنوعی مہنگائی کو بڑھاوا دینے والے عناصر بھی اس موقع پر پیش پیش دِکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے اس مشقِ ستم کے ذریعے اپنی تجوریوں کو دھانوں تک بھرا۔ غریبوں کے مصائب دن بہ دن بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ ان میں کمی کی کوئی سبیل دِکھائی نہیں دے رہی۔ مشکل فیصلوں کے نام پر مہنگائی کا سیلاب جاری ہے۔ کچھ تو غریبوں کی اشک شوئی کا بندوبست کیا جائے، جس کا فقدان دِکھائی دیتا ہے۔ وہ کس سے اپنے درد کا مداوا مانگیں۔ کس سے دادرسی کی اُمید رکھیں۔ اس حوالے سے کوئی بھی دُور دُور تک دِکھائی نہیں دیتا۔ گرانی میں ہولناک اضافے کی بنیادی وجہ ڈالر کی قدر میں ہولناک حد تک اضافہ ہے، جس کے آگے بند باندھنے میں سابق حکمراں ناکام رہے۔ ڈالر نے ایسی اُڑان بھری کہ سب کے ہوش اُڑادیے۔ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف گزشتہ مہینوں سے جاری کریک ڈائون کے سبب اس کے نرخ میں تھوڑی بہت کمی واقع ہوئی، ڈالر کے نرخ گرنے پر کچھ اشیاء کے دام کم ہوئے، مگر یہ سلسلہ کچھ روز ہی رہا اور پھر سے اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے سلسلے نظر آتے ہیں۔ یکم نومبر سے ہی گیس صارفین کے لیے اس سہولت کی قیمت کافی زیادہ حد تک بڑھادی گئی ہے۔ مہنگائی کے نشتر برسنے کا سلسلہ جاری ہے۔ادارۂ شماریات نے ہفتہ وار مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ ادارۂ شماریات کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں 9.95 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 41.90 فیصد تک پہنچ گئی۔ ادارۂ شماریات نے بتایا کہ ایک ہفتے کے دوران 25 اشیاء مہنگی اور 13 کی قیمتوں میں کمی ہوئی۔ ادارۂ شماریات کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں قدرتی گیس 480 فیصد، چائے 8.88 فیصد، دل مسور 5.28 فیصد، زندہ مرغی 3.99 فیصد اور لہسن 3.09 فیصد مہنگا ہوا۔ ادارۂ شماریات کے مطابق نمک 2.93 فیصد، آٹا 2.64 فیصد، ایل پی جی 2.03 فیصد اور آلو 2 فیصد مہنگے ہوئے۔ اس کے علاوہ ٹماٹر فی کلو 11.16 فیصد، چینی 4.24 فیصد اور پیاز فی کلو 1.49 فیصد سستا ہوا۔ مہنگائی کے زور میں کمی کے لیے نگراں حکومت کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ غریب ریلیف کے متقاضی ہیں، وہ مزید مہنگائی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔ اُن کی زندگی کٹھن آزمائش بن چکی ہے، جس میں سکون کا ایک پل نہیں۔ غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا معقول بندوبست کیا جائے۔ ملک بھر میں جاری مصنوعی مہنگائی پر قابو کے لیے متعلقہ ادارے اپنی ذمے داریاں پوری کریں۔ اشیاء ضروریہ کی حکومتی نرخوں پر دستیابی ہر صورت یقینی بنائی جائے۔ سب سے بڑھ کر ڈالر کے نرخ پر قابو پانے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیار کی جائے تو یقیناً اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button