ColumnNasir Naqvi

سیاسی گھمسان کی جنگ

ناصر نقوی
جمہوریت اور جمہوری اقدار کا بنیادی اصول رواداری اور برداشت اور پہلی اکائی بلدیاتی نظام ہے۔ ہم اور آپ اس بات پر نہ صرف متفق ہیں بلکہ خواہشمند ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیاں اور حکمران اسی فارمولے پر کاربند ہوں تاکہ جمہوریت کو استحکام ملے اور ہمارے ادارے مستحکم ہوں لیکن ہمارے حکمران سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اقتدار میں آتے ہی سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ صرف جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز نہیں۔ سیاست اور حصول اقتدار کی لڑائی بھی سیاسی جنگ ہوتی ہے اس لیے ٹارگٹ حاصل کرنی کے لیے سب کچھ جائز ہے۔ انہیں اپنے مفادات میں یہ سبق بھی یاد ہے کہ سیاست میں کوئی فیصلہ، اتحاد اور ایڈجسٹمنٹ حتمی نہیں ہوتی، سب وقتی ہے لہٰذا حالات و واقعات کے مطابق اتحاد بنتے اور بگڑتے ہیں۔ نظریہ ضرورت کے تحت ایڈجسٹمنٹ بھی کی جاتی ہے۔ ہمارے دوست اور ممتاز شاعر مسرور انور کہا کرتے تھے ’’ جنگ، محبت اور پاکستان‘‘ میں سب کچھ جائز ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے خان اعظم عمران خان نیازی کے خلاف اتحادی حکومت اور اس سے پہلے تحریک عدم اعتماد پر سب جماعتیں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملاکر ایک تھیں’’ محبت اور اقتدار‘‘ میں اگر شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کی خواہش پوری کی گئی تو آصف علی زرداری نے کمال مہارت سے اقتدار میں اپنا حصّہ لیا اور دوسروں کو بھی دلوایا اور سینئرز کی فوج ظفر موج میں بلاول بھٹو زرداری کے لیے اہم ترین وزارت خارجہ کا راستہ نکال لیا۔ ملک و قوم کی خدمت بھی ہو گئی اور دنیا بھر کے اہم ترین دوروں سے تربیت بھی، ایک ریکارڈ بن گیا کہ نانا ذوالفقار علی بھٹو وزارت عظمیٰ سے پہلے وزیر خارجہ تھے۔ سو نواسے نے بھی پیروی میں یہ قلمدان سنبھالا، باقی اللہ آصف علی زرداری کو زندگی دے وہ اپنی مفاہمتی سیاست میں شہباز شریف کو وزیراعظم بنا سکتے ہیں تو اپنا مشن بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم بھی یقینا پورا کریں گے یہ الگ بات ہے کہ یہ منصوبہ بندی 2024ء میں پوری ہوتی ہے کہ 2028۔29ء میں ، بہرکیف ’’ مشن ایمپاسبل‘‘ ہرگز نہیں۔ کم عمری میں پیپلز پارٹی کی قیادت سونپنے کا مقصد ہی یہی ہے ورنہ پیپلز پارٹی میں سینئر، تجربہ کار اور صاحب بصیرت وفادار سیاسی لیڈروں کی کمی نہیں، نواز شریف سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ ن کی آمد سے پہلے ہی یہ خدشات پیدا ہو گئے تھے کہ الیکشن سے پہلے اتحادی حکومت کے تمام حصّے دار مستقبل میں اکٹھے نہیں چل سکیں گے لیکن ریکارڈ ہولڈر سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی اور انتظامی سہولیات نے خدشات پر مہر ثبت کر دی ورنہ مسلم لیگ ن 16ماہ کی شہبازی حکومت کے بوجھ تلے دبی دکھائی دے رہی تھی لیکن ناکامی بھی ریکارڈ ہے نہ مہنگائی سے ریلیف ملا اور نہ ہی خان اعظم کو ہزار جتن کے بعد ہیرو سے زیرو کر سکے بلکہ قید و بند کے باعث ان کے پرستار مزید مضبوط ہو گئے اگر 9مئی کا واقعہ سرزد نہ ہوتا تو آج بھی خان کی ’’ سولو فلائٹ‘‘ کا کوئی سامنا نہ کر سکتا تھا۔ یہ غلطی ایسی ہے کہ اسے نظرانداز کسی طرح بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قومی سلامتی اور بغاوت پر بھلا کس میں جرأت ہی کہ سمجھوتہ کر سکے؟ عام تاثر یہی ہے کہ خان صاحب کو خاص لوگوں نے کئی سال یہ سبق پڑھایا تھا کہ ماضی کے حکمران چور، ڈاکو اور لٹیرے تھے اس لیے تمہارا انتخاب میرٹ پر کیا گیا ہے ، نہ مسلم لیگ ن اور نہ ہی پیپلز پارٹی، تم ہی تم اور خاص ہو، ریاستی اداروں میں بھی ایسی اصلاحات اور انتظامات کریں گے کہ پندرہ بیس سال کوئی تمہارے نزدیک نہیں آ سکے گا۔ اسی سوچ کو تقویت دینے کے لیے انہیں صاد ق و امین کی سند جاری کرائی گئی اور اداروں سے ساز باز کر کے سابق حکمرانوں کو سزائیں اور جیلوں تک پہنچا دیا گیا۔ بعد ازاں حالات نے یہ راز فاش کر دیا کہ یہ تو نظریہ ضرورت کے مطابق ’’ گدھے کو باپ‘‘ بنایا گیا، اب فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں کہ گدھا کون؟
سیاسی موسم بدلا، حالات بدلے تو موقع پرست یا یہ کہیں ’’ ڈیوٹی فل‘‘ سیاستدان بھی بدل گئے۔ پہلے تمام نے عمران خان کو زیر کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا، اپنا اپنا حصّہ لے کر وقت اور اقتدار کے مزے لئے پھر جونہی مقررہ حکومتی مدت ختم ہوئی، سیاسی پرندے بھی حقیقی موسمی پرندوں کی طرح اڑان بھر گئے۔ اب الیکشن کی تاریخ بھی آ چکی ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اپنے فیصلے میں شک کرنے پر بھی پابندی عائد کر چکے ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ میڈیا منفی اور ایسی خبریں نہ دے کہ جس سے ابہام پیدا ہو لہٰذا مثبت خبروں کا راستہ اپنایا جائے اور اگر کوئی اب بھی منفی رویوں کا اظہار کرے تو ’’ پیمرا‘‘ کارروائی کرے، اس لیے اس موضوع پر ہم تو اب کچھ کہہ بھی نہیں سکتے لیکن میدان سیاست میں جس طرح گھمسان کی جنگ چھڑی ہے اس پر سپریم کمانڈر صدر مملکت عارف علوی نے ایک انٹرویو میں یہ بیان داغ دیا کہ اگر سنجیدگی سے سیاست نہ کی گئی اور سیاسی پارٹیاں اجتماعی مفاد پر اکٹھا ہونے میں ناکام ہوئیں تو الیکشن تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں؟ یقینا انہیں یہ بات پتہ ہے کہ صدارتی دور میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی، بعد میں جو کچھ ہو گا وہ سیاست کا تحفہ ہو گا اس لیے انہوں نے بلاجھجک بات کر لی۔
’’ لمحہ موجود‘‘ میں میدان سیاست میں جنگ کی بنیاد ’’ لیول پلے فیلڈ‘‘ ہے۔ میں اپنا تبصرہ کروں تو یقینا مجھے ہمدرد اور جانبدارانہ سمجھا جائے گا اس لیے سیاستدانوں کے بیانات سے ہی گزارا کرنا پسند کروں گا۔ پیپلز پارٹی کے ایک سے زیادہ مرکزی رہنما ’’ لیول پلے فیلڈ‘‘ کو یکطرفہ قرار دے چکے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور حضرت مولانا فضل الرحمان بھی اس بات کا شکوہ کر چکے ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری تمام سیاسی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کبھی بھی ’’ لیول پلے فیلڈ‘‘ نہیں ملی۔ ہم سیاسی جدوجہد اور جمہوریت کے قائل ہیں۔ ہم چور دروازوں اور سہاروں کی طرف ہرگز نہیں دیکھتے، ہماری امید حق سچ کا راستہ، جمہوری اقدار، اللہ کی مدد اور عوامی سہارا ہوتا ہے اس لیے ہر پچ پر کھیلنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے قائد مسلم لیگ ن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زیادہ بھاگ دوڑ کر کے اپنی گنتی میں بہتری کرتے کرتے صحت خراب نہ کریں، اپنے قلعہ لاہور پر توجہ مرکوز کریں یہ بھی آپ کے ہاتھ سے نکل رہا ہے تاہم موجودہ صورت حال پر سینئر رہنما اور سینئر وفاقی وزیر قمر الزماں کائرہ کا تبصرہ انتہائی جامع ہے وہ کہتے ہیں کہ مانتے ہیں جانتے ہیں کہ نواز شریف کو غلط سزائیں ہوئیں انہیں ایک منصوبے کے تحت اقتدار سے نکالا گیا، اب نواز شریف کو اس سوال کا جواب بھی مل گیا کہ مجھے کیوں نکالا؟ لیکن جس انداز میں انہیں ریلیف مل رہا ہے یا دیا جا رہا ہے وہ طریقۂ کار کسی طرح بھی اچھا نہیں، ان کا کہنا ہے کہ شہباز حکومت مہنگائی کی ذمہ دار ہے۔ ہمارے ایسے بیانات سے تلخی پیدا ہوئی ہے پھر بھی ہمیں حدود میں رہتے ہوئے رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ طاقت ور ادارے جب کسی پارٹی کو سپورٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں تو اسے ہی ’’ کنگز پارٹی‘‘ کہا جاتا ہے، ہم انہیں سمجھا رہے ہیں کہ یہ راستہ درست نہیں لیکن وہ سمجھ نہیں رہے، اب الیکشن کا موسم ہے تھوڑی بہت دھینگا مشتی تو لازمی ہو گی جبکہ نواز شریف اس وقت ’’ ہارٹ فیورٹ ہارس‘‘ قرار دئیے جا رہے ہیں۔ سیاسی ہوائوں کا رخ موقع پرست سیاستدانوں نے پہچان لیا اس لیے وہ منظر ہے جو الیکشن 2018ء سے پہلے ’’ تحریک انصاف‘‘ کی حمایت میں تھا۔ اخباری شہ سرخیاں بھی نواز شریف کو فاتح ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں پہلے دورہ بلوچستان میں باپ، بی۔ این۔ پی مینگل، نیشنل پارٹی اور پی جی کے بھی کچھ رہنمائوں نے نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ایم کیو ایم سے پہلے ہی اتحاد ہو چکا ہے۔ پیر آف پگاڑا اور جی۔ ڈی۔ اے کی طرف بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور اتحاد کا ہاتھ بڑھایا جائے گا۔ ماضی میں ایسا ہی آصف علی زرداری کے لیے دکھائی دے رہا تھا لیکن سیاست میں آج کے دوست کل دشمن اور دشمن دوست بنتے رہتے ہیں اس لیے وہ کچھ رونما ہو چکا جس کی پیپلز پارٹی کو امید نہیں تھی، کیسی دلچسپ بات ہے کہ ’’ باپ‘‘ کے لوگ مسلم لیگ ن میں شمولیت بھی اختیار کر رہے ہیں اور دوسرا دھڑا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے خواب بھی دیکھ رہا ہے اسی ’’ باپ‘‘ کے لیے مریم نواز کا فرمان تھا کہ ’’ باپ‘‘ کبھی بھی باپ کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتا، مطلب بتانے کی ضرورت نہیں پھر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر بلوچ نے مسلم لیگ ن کو یہ بات یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ ’’ باپ‘‘ بے وفا ہوتا ہے وہ کسی بھی وقت کسی بھی وجوہات پر دوسری شادی کر لیتا ہے۔ مسلم لیگ ن کا یہ اقدام سیاسی موت ہو گا۔ بلوچستان میں پارٹی کا خاتمہ ہو چکا تھا اب کس کا ہاتھ ہے وہ بھی ہم جانتے ہیں، مقابلہ ہم کریں گے، اسی طرح ایم کیو ایم سے بھی اتحاد کر کے مسلم لیگی متوالے بے حد خوش ہیں ۔ نواز شریف کے تین دور اقتدار میں یہ جماعت صرف پہلی مرتبہ ساتھ تھی ، اس کے بارے میں بقول شخصے یہ تبصرہ انتہائی دلچسپ ہے کہ ایم کیو ایم وہ آوارہ عورت بن چکی ہے جسی گرل فرینڈ سب بنا لیتے ہیں، شادی کوئی نہیں کرتا اس سے، نہ جائیداد میں حصّہ ملتا ہے، نہ شوہر کا نام اور نہ حق مہر؟؟؟ بہرکیف صورت حال ایسی ہی ہے کہ سیاسی گھمسان کی جنگ ہو گی الیکشن کے روز تک۔ نتائج کے بعد پھر حصول اقتدار کے لیے ایک مرتبہ اتحادی سیاست شروع ہو گی، کئی دشمن دوست بن جائیں گے اس لیے کہ مفاد اقتدار پیش نظر ہو گا۔ میرے اندازے کے مطابق نواز شریف صاحب بھی دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اتحادی حکومت بنے گی جو بھی حکومت بنے گی ، اسے یہ بات یاد رکھنے ہو گی کہ ’’ ڈیوٹی فل‘‘ فیصل واوڈا کا اعلان ہے کہ حکومت دو سال سے زیادہ نہیں چلے گی لہٰذا ’’ ہوشیار باش‘‘ غلط فہمی میں کوئی نہ رہے بلکہ تخت اقتدار پر براجمان ہونے سے پہلے تخت کے نیچے ’’ ڈانگ‘‘ پھیرے ضرور۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button