ColumnTajamul Hussain Hashmi

ہوائوں کے رخ کی تبدیلی کیوں

تجمل حسین ہاشمی
بلوچستان میں ہونے والی یہ پیشرفت اس لحاظ سے بھی دلچسپ ہے کیوں کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک مقامی الیکٹیبلز کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی سے رابطے عروج پر تھے۔ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ ہوائوں کا رخ بالکل دوسری سمت میں چلنا شروع ہو گیا؟ سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اب صورتحال نواز لیگ کے حق میں تبدیل ہو چکی ہے۔ لیکن بدلتی صورتحال کی بنیاد کیا بنی، اس کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں یا کوئی جماعت دینا نہیں چاہتی، لیکن سینئر صحافی تجزیہ نگار حامد میر نے اپنے وی لاگ میں اس پر روشنی ڈالی کہ ’’ ایک تاثر دیا جا رہا کہ وہ ایک شخص وزیر اعظم ہو گا۔ 2018ء میں بھی غلط ہوا تھا اور اب یہ دوبارہ غلط ہو رہا ہے۔ یہ جو غلطی ہو رہی ہے اس کا اندازہ ڈیڑھ سے دو سال میں نظر آ جائے گا‘‘۔ اس وقت بھی میڈیا پر سختی تھی اور آج بھی میڈیا پر سختی ہے۔ حالات کو مینیج کرنے والوں کو دو طرح کے حالات کا سامنا ہے، پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کو تمام اسلامی ممالک کے ساتھ چلنا ہے۔ اسلامی ممالک کی اہمیت ہمارے لیے کافی اہم ہے۔ سیکنڈ دنیا بھر میں بدلتے حالات کا تعلق مسلم امہ سے ہے اور پاکستان خود اسلامی ریاست ہے، جس کو اس وقت معاشی خراب صورت حال کا سامنا بھی ہے۔ معاشی صورتحال کی چیمپئن مسلم لیگ ن گزشتہ برسوں پہلے سے پانامہ اور دوسرے کئی الزامات اور عدالتی فیصلوں کا سامنا کر رہی ہے بلکہ ان کے کئی رہنما عدالت سے نا اہل بھی ہوئے ۔ سیاسی نا اہلیاں 1947ء کے بعد سے ہی شروع تھی۔2018ء میں ہونے والی نااہلیوں سے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو تقویت دی گئی۔ ایک سال پہلے بڑے الیکٹیبلز کی لائنیں بلاول ہائوس کے سامنے لگی ہوئی تھیں ۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اگلے الیکشن میں بلاول بھٹو زرداری ہی ونر ہوں گے لیکن جب سے نگران حکومت بنی ہے تو یہ تاثر تبدیل ہو چکا ہے ۔ وفاداریاں تبدیل کرنے والے کو خواب آ چکے ہیں کہ کہاں جانا ہے ۔ 100کے قریب الیکٹیبلز ہر دور میں رخ ضرور بدلتے ہیں۔ جس طرف ہوا چلتی ہے یا جس طرف کا سگنل ملتا ہے تو وہاں چلے جاتے ہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی کے بجائے وہ ایک جماعت کی طرف جا رہے ہیں، جن کی قیادت خود جبری نا اہلی کا سامنا کر چکی ہے۔ آج الیکٹیبلز کے پاس چوائس نہیں ہے، چونکہ تحریک انصاف زیر عتاب ہے اور لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہی ہے جو کہ ممکن نہیں لگتی ہے ، 9مئی کے واقعات کوئی معمولی نہیں تھے۔ اداروں پر حملے چھوٹا واقعہ نہیں ہے۔ جس پر ریاست خاموش رہے۔ قوم اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔9مئی کے حملوں میں ملوث افراد کو سخت سزا ہونی چاہئے ۔ الیکٹیبلز یہ دیکھ رہے ہیں کہ مجموعی طور پر پلیئنگ فیلڈ نواز لیگ کے حق میں ہے اور ان میں سے زیادہ تر کی کوشش یہی ہے کہ وہ ن لیگ میں جگہ بنا لیں۔ میرا ماننا ہے کہ سیاست میں اخلاقیات کا عمل دخل کم ہوتا ہے۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں یہ نہیں دیکھتیں کہ کس کا ماضی کیا ہے، عوام اور ملک کے لیے ان کیا خدمات ہیں۔ بلکہ قائدین 99فیصد صرف یہ دیکھتے ہیں کہ میرے اُمیدوار کی حلقہ میں جیت پکی ہے، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ جو الیکٹیبلز آ رہے ہیں ان کو آنے دو اور اپنی آنکھیں بند رکھو اور میڈیا سے دور رہو۔ خواہ ان پر اربوں روپے کی لوٹ مار کے الزامات ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وہی الیکٹیبلز تھے جن کا محور حکومت کا حصہ رہنا ہے۔ مشرف دور میں کئی رہنمائوں نے لیگ ن کو چھوڑ کر مشرف کا ساتھ دیا، نواز شریف کی جلا وطنی کے بعد کئی رہنمائوں کو دوبارہ پارٹی میں جگہ دی گئی۔ حکومت ملتے ہی ان کو وزارتوں سے نوازا گیا۔ ق لیگ کے ساتھ الحاق یا تعلق پر نواز شریف کا بڑا سخت مواقف رہا۔ لیکن پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کے دوران چودھری برادران کے پاس شہباز شریف کو جانا پڑا۔ پاکستانی سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں، کیا نواز لیگ الیکٹیبلز کو لینے سے اکثریت حاصل کرنے کی صورت میں اچھا طرز حکمرانی اور ملکی معاشی صورتحال کو بہتر کر سکے گی۔ پاکستان تحریک انصاف قوم میں شعور، بیداری کی بات کرتی ہے، اس کے کتنے اثرات الیکشن پر مرتب ہوں گے۔ یہ غور طلب ہے۔ میں مانتا ہوں کہ لوگوں بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہونے والی پیش رفت سے ن لیگ کی پوزیشن یقینا مضبوط ہو گی۔ سندھ سے ایم کیو ایم پاکستان کا اتحاد بھی مسلم لیگ ن کے لیے آسانی پیدا کرے گا لیکن سب سے بڑا میدان پنجاب ہے وہاں پر مسلم لیگ ن کمزور وکٹ پر نظر آتی ہے، مسلم لیگ ن کے سندھ اور بلوچستان کے دورے اور سیاسی جماعتوں کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ، ساتھ چلنے کے وعدے سے ماحول بنایا گیا ہے یا بن گیا ہے۔ کیا مسلم لیگ ن آنے والے الیکشن کی وننگ پارٹی ہو گی، لیکن الیکشن کا بڑا مارکہ پنجاب ہو گا جہاں مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے ۔ لیکن تھپکی دینے والوں نے اس کا بھی بندوبست کر دیا ہے، نئی پارٹی کا قیام سامنے ہے۔ لیکن ابھی بھی مسلم لیگ ن کی مشکلات کم نہیں ہیں، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری ان ہوائوں کے رخ کو روکنے میں فی الحال ناکام ہیں، اور ن لیگ بھی کوئی گرم محاذ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ آرائی سے کوئی فائدہ نہیں اس لیے وہ خاموشی سے جوڑ توڑ کے ماہر میاں شہباز شریف مطلوبہ نتیجے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ تمام سیاسی چالیں تھیں لیکن ان تمام الحاق کا فائدہ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں ہو گا، جب عوام ووٹ کریں گے جس کے ووٹ سے مطلوبہ نتائج حاصل ہونے ہیں، سیاسی جماعتیں مینیج ہو جائیں گی، لیکن عوام کو مینیج کرنا ایسی صورتحال جہاں مہنگائی نے کمر توڑ دی ہو، میں تھوڑا مشکل ہے۔ کیوں عوام ان تمام سیاسی افراد کی کئی بار طرز حکمرانی دیکھ چکے ہیں۔ ان کے جھوٹے وعدے سن چکے ہیں ۔ مہنگائی ، لاقانونیت، لوٹ مار، کرپشن اور اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے ، اسمبلی میں خود کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں موجود ہوائوں کا رخ دیکھنے والے کاروباری ڈیلروں نے عوام کو مار دیا ہے، اس دفعہ عوام کا ووٹ ثابت کرے گا کہ لوگوں میں کتنے فیصد شعور آیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button