Ali HassanColumn

یہ مدرسے ہیں یا عقوبت خانے

علی حسن
والدین کے لئے کتنی خوشی کی بات ہوتی ہے جب وہ اپنے معصوم بچوں کو دینی تعلیم کے لئے مدرسوں یا مساجد میں قران مجید پڑھانے والے معلم اور اساتذہ کے پاس بھیجتے ہیں۔ معاوضہ کے طور پر انہیں ہدیہ بھی ہر ماہ پیش کرتے ہیں۔ لیکن والدین کے لئے تکلیف دہ بات اس وقت ہوتی ہے جب ان مدرسوں یا مساجد میں ان کے بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ صرف موجودہ مہینہ میں ہی متعدد واقعات سوشل میڈیا پر ایسے پڑھنے میں آئے کہ دل دہل گیا۔ کراچی کے ایک مدرسہ میں ایک استاد نے بچے کو چابی کی چین سے مارنا شروع کیا۔ ساتھی استاد نے بچے کو دھمکایا کہ گھر پر نہیں بتانا ورنہ اور ماریں گے۔ ایک اور واقعہ میں استاد نے بچے کو اس طرح اٹھا اٹھا کر فرش پر دے مارا جیسے دھوبی کپڑے دھوتا ہو۔ کچھ دن اسپتال میں داخل رہنے کے بعد بچہ انتقال کر گیا۔ ایک مدرسہ میں استاد نے سبق یاد نہ کر کے آنے والے بچے کی زبان میں کیل ٹھونک دی۔ والدین کو بچے کو علاج کے لئے اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ ایک اور مدرسہ میں کمسن بچے کو استاد نے بازوئوں سے پکڑ کر اس طرح جنجھوڑ دیا جیسے دوا کی بوتل کو ہلا رہا ہو۔ ایک ویڈیو میں دیکھنے کو ملا کہ استاد نے بچے کو سوٹی سے مارنا شروع کیا اور سانس بھی نہیں لے رہا تھا بس بچے کو کسی پاگل شخص کے انداز میں مارتا چلا جارہا تھا۔ صرف عقوبت خانوں میں ہی انسانوں کو انسان پاگلوں کی طرح مارتے ہیں۔ بعض والدین کی بھی ویڈیو دیکھنے کو ملتی ہیں جو اپنے معصوم بچوں کو جانوروں کی طرح مارتے ہیں۔ ویڈیو پر ایسے مناظر دیکھ کر دل دہل جاتا ہے اور انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ذہنی طور پر شدید تشدد کے ذمہ دار افراد کسی طرح کسی معتدل مزاج معاشرہ کے قیام میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
والدین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بچے کو کسی مدرسہ میں داخل کرنے کے بعد اپنے بچے کے بارے میں مطمئن ہو جاتے ہیں اور کوئی معلومات یا آسان الفاظ میں خیر خبر حاصل نہیں کرتے ہیں۔ والدین کی طرح مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لئے آنے والے بزرگ یا افراد بھی یہ زحمت نہیں کرتے ہیں کہ بچوں سے ان کی تعلیم کے بارے میں آگاہی حاصل کریں یا معلم حضرات سے بچوں کے بارے میں معلومات لیں۔ معلم سمجھتے ہیں کہ انہیں آزادی حاصل ہے کہ جیسے چاہیں بچوں کے ساتھ برتائو کریں۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ بچوں کو روئی کی طرح دھن دیتے ہیں۔ اس ساری معاملہ میں بچیاں بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ بعض ایسی بھی ویڈیو دیکھنے کو ملی ہیں جس میں بتایا گیا کہ بچی کو قران کی تعلیم دینے والے معلم نے بچی کے ساتھ وہ کچھ کر دیا جسے سن کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بچی کو قران کی تعلیم دینے کا معاملہ ہو، مسجد کا احاطہ ہو اور تعلیم دینے والے شخص کی ایسی بد اعمالی ہو کہ کان پکڑنے کی ضرورت محسوس ہو۔ والدین اکثر خاموش ہو جاتے ہیں کہ بچی کے مستقبل کا معاملہ پیش نظر ہوتا ہے۔ والدین کو جب بچوں کے ساتھ معلم کے غیر انسانی کیا بلکہ جانوروں جیسے سلوک کے بارے میں معلوم ہوتا ہے تو اول تو وہ پولس سے رجوع کرنے میں کوتاہی کا شکار ہوتے ہیں اور اگر پولس سے رجوع بھی کر لیتے ہیں تو مدرسہ کے لوگ یا محلہ کے لوگ بچے سے ہمدردی کی بجائے تشدد کے ذمہ دار نام نہاد معلم کی اس انداز میں طرف داری شروع کرتے ہیں جیسے انہیں اس جانور نما معلم کے ساتھ کوئی رشتہ داری ہو۔ لوگوں کو نامعلوم کیوں ایسے درندوں، حیوانوں اور جانوروں سے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے غیر انسانی رویہ کے حامل افراد کو تو پہلے ہی مرحلہ میں فارغ کر دینا چاہئے اور پولس میں باقاعدہ مقدمہ درج کرنا چاہئے۔ درندوں کے ساتھ کس بات کی ہمدردی۔ کیا بھیڑیا ہمدردی کے قابل ہوتا ہے؟ صوبائی حکومتوں کے ماتحت محکمہ اوقاف قائم ہیں۔ ان محکموں کے افسر سوائے اس درگاہوں جہاں مالی فائدے ہوں، کے سوا کسی اور چیز پر توجہ نہیں دیتے ہیں حالانکہ مساجد اور مدارس میں ہونے والی ہر سرگرمی کا انہیں گاہے بگاہے جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ لیکن ایسا اس لئے نہیں ہو پاتا ہے کہ عمل اور اہل کاروں کو پیسہ نہ ملنے کی وجہ سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔ وہ اپنی آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ حالانکہ کہ مساجد ہوں یا مدارس، سرکاری پرائمری سکول ہوں، وہاں تعلیم دینے والے تمام افراد کو باقاعدہ نفسیاتی معائنہ ہونا چاہئے۔ نفسیاتی معائنہ کے بغیر کسی بھی شخص کو ملازمت نہیں دینا چاہئے۔ عقوبت خانوں میں نام نہاد تعلیم حاصل کرنے والے بچے کیوں کر معاشرہ کے لئے مفید شہری بن سکے گے۔
معاشرہ اس وقت تباہی سے دوچار ہو جاتا ہے جب کسی بھی ملک میں سیاست کرنے والے افراد یا جماعتیں صرف اقتدار کے حصول کے کھیل میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ سیاست دان جب اقتدار کے حصول میں مصروف اور مگن ہو جاتے ہیں تو پورا معاشرہ ایک ایسے بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے جس کا فوری مداوا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی ادارہ ہو، کوئی بھی بنیادی سہولت ہو، کوئی بھی اہمیت کی حامل ضرورت ہو، سب متاثر ہو جاتی ہیں لیکن سب سے زیادہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں اور بلدیاتی امور کی سہولتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تعلیم سرکاری اسکول کی ہو یا مدرسہ یا مسجد کی ، جب متاثر ہوتی ہیں تو ایک دفعہ پیدا ہونیوالی خرابی دور ہونے میں بہت زیادہ وقت لیتی ہے۔ سیاست دانوں کے اقتدار کے مقابلوں کے کھیلوں سے پیدا ہونے والی تباہی کا اندازہ تو ہم پاکستان میں دیکھ ہی رہے ہیں۔ اکثر سرکاری ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ انہیں واپس ڈگر پر لانے میں طویل وقت لگے گا۔ اقتدار یا حکمرانی کے شوق میں مگن اور مصروف افراد تو اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلاتے ہیں، علاج معالجہ کے لئے ملک میں مہنگے اسپتالوں یا بیرون ملک اسپتالوں کو ترجیح دیتے ہیں وہ اس لئے کہ وہ اخراجات برداشت کر سکتے ہیں جو اس ملک کی اکثریت تصور بھی نہیں کر سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button