گندم سمگلنگ میں سرکاری افسروں کے ملوث ہونے کا انکشاف

ملک عزیز کے قیام کو 76برس مکمل ہوچکے ہیں۔ پچھلے کئی عشروں سے یہاں خرابیاں در خرابیاں جنم لے رہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ بڑے بڑے سنگین مسائل میں تبدیل ہورہی ہیں، جس سے ملک و قوم کو بڑے نقصانات سے واسطہ پڑتا ہے۔ ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں ہر سرکاری ادارے میں بدعنوانی کا عفریت خاصی مضبوط جڑیں رکھتا ہے۔ اعلیٰ افسران سے لے کر نچلی سطح کے ملازم تک کرپشن کی بہتی گنگا میں خوب نہاتے اور فیض اُٹھاتے ہیں۔ سرکاری خزانے سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں اور مراعات علیحدہ پاتی ہیں۔ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ افسران کو پٹرول، بجلی، گھر، ملازمین مفت میسر ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ اپنے فرائض ذمے داری سے ادا نہیں کرتے، بلکہ ملک و قوم کے ساتھ سنگین عہد شکنی کے مرتکب ہوتے اور قومی خزانے کو بھاری بھر کم نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ اور ان کی آل اولاد عیاشی کی زندگی بسر کرتے ہیں جب کہ عوام الناس کو رُلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کئی سرکاری ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچے ہوئے ہیں۔ ایسے افراد کسی طور ان عہدوں کے اہل نہیں۔ ان کے خلاف سخت کریک ڈائون ناگزیر ہے۔ ان کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا تو تمام اداروں میں جلد سُدھار کی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو ملک میں اس وقت گندم کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔ عوام الناس 150سے 160روپے تک فی کلو آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ ملک میں آٹے کے مصنوعی بحران کی صورت حال پیدا کرکے بڑے پیمانے پر گندم افغانستان اسمگل کی جارہی ہے اور اس میں افسران کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے، جس کا خمیازہ ملک کے غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، جو انتہائی قلیل آمدن میں مہنگا آٹا، چینی اور ضروریاتِ زندگی کی دیگر اشیاء خرید رہے ہیں جب کہ سمگلرز اور افسر اس قبیح دھندے سے اپنی تجوریاں دھانوں تک بھر رہے ہیں۔ اس حوالے سے آنے والی اطلاعات میں بڑے حقائق سامنے آئے ہیں۔ کرنسی اور تیل کے بعد اب چینی، کھاد اور گندم سمگلنگ کی رپورٹ بھی وزیراعظم سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی گئی۔ چینی، کھاد اور گندم کی پاکستان سے اسمگلنگ کے بارے میں تفصیلات رپورٹ کا حصہ ہیں جب کہ گندم، کھاد، چینی کے اسمگلرز اور سرکاری اہلکاروں کی تفصیل بھی رپورٹ میں شامل کی گئی ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق رپورٹ میں گندم کی اسمگلنگ میں ملوث 592ذخیرہ اندوزوں کی نشان دہی کی گئی ہے جب کہ گندم کی سمگلنگ میں 26سمگلر شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ گزشتہ سال آئی بی نے 417رپورٹس متعلقہ محکموں کو بھجوائیں، حساس ادارے کی نشان دہی پر 90147میٹرک ٹن ذخیرہ شدہ اور اسمگل ہونے والی گندم قبضے میں لی گئی۔ رپورٹ میں سمگلرز کی مدد کرنے والے 259اہلکاروں کی نشان دہی کی گئی ہے، صوبائی حکومتوں میں تعینات اہلکار سمگلرز، ذخیرہ اندوزوں کو مدد فراہم کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 272، سندھ میں244 اور کے پی میں 56سرکاری اہلکار سمگلرز کے مددگار ہیں جب کہ بلوچستان میں 15اور اسلام آباد میں 5اہلکار سمگلرز کے ساتھی ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل حساس ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ایرانی تیل کے کاروبار میں 29سیاست دان بھی ملوث ہیں۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں ہولناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔ یہ سمگلنگ کے حوالے سے بڑے نیٹ ورکس کا پردہ فاش کرتے ہیں اور اُن بدقماشوں کا بھی پتا دیتے ہیں، جو نا صرف سرکاری خرچے پر پل رہے بلکہ سمگلرز کے سہولت کار بن کر ملک اور قوم کے ساتھ سنگین غداری کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ ملک میں تیل، ڈالرز، کھاد، گندم اور چینی کے مصنوعی بحرانوں کو جنم دینے میں بھی بڑی سہولت کار ہیں۔ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے اور غریب عوام کے مصائب کی وجہ بن رہے ہیں۔ ایسے سرکاری افسران اور اہلکاروں کے خلاف سختی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔ یہ عرصہ دراز سے ملک کو جونک کی طرح نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہیں کسی طور بخشا نہ جائے۔ ان کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر کارروائیوں کا آغاز کیا جائے۔ ان کو عہدوں سے بے دخل کیا جائے۔ ان کے خلاف تحقیقات کرائی جائیں۔ ان سے ناجائز ذرائع سے کمائے گئے تمام روپے واپس لیے جائیں۔ ان کی تمام اندرون اور بیرون ملک جائیدادوں کو ضبط کیا جائے۔ ان سے تمام وصول کردہ رقوم کو قومی خزانے میں جمع کرایا جائے۔ ان کو ہر صورت نشانِ عبرت بنایا جائے کہ آئندہ کوئی افسر و اہلکار اس طرح کی ناپسندیدہ مشق کا حصّہ بننے کا تصور بھی نہ کر سکے۔ گندم، کھاد، چینی، تیل، ڈالرز کی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کو توڑا جائے۔ ان کے خلاف کریک ڈائون کو اُس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک ان مذموم عناصر کا قلع قمع نہیں ہوجاتا۔ ان کے خلاف تسلسل کے ساتھ چھاپہ مار کارروائیاں عمل میں لائی جائیں۔ سمگلروں کے گرد قانون کا شکنجہ کسا جائے۔ انہیں نا صرف گرفتار کیا جائے بلکہ کڑی سے کڑی سزائیں دی جائیں۔ ایسی سخت سزائیں ہوں کہ ایسے جرائم پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔ اس میں شبہ نہیں کہ حکومتی عمل داری ممکن بناکر صورت حال کو ملک و قوم کے موافق کیا جاسکتا ہے۔ اگر افغانستان سمگلنگ کے تمام راستے مسدود کر دئیے گئے اور اس میں ملوث سمگلرز اور اُن کے سہولت کاروں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا تو یہ ملک و قوم کے لیے بڑی خدمت شمار ہوگی اور اس سے نا صرف گندم، چینی، تیل، کھاد کے حوالے سے صورت حال مکمل کنٹرول میں آجائے گی بلکہ عوام کو یہ اشیاء مناسب داموں پر وافر مقدار میں میسر بھی ہوں گی۔ قومی خزانے کو پہنچنے والے بھاری بھر کم نقصانات کا ازالہ ہوسکے گا۔ معیشت کی صورت حال بہتر رُخ اختیار کر سکے گی۔
پاک، سعودیہ مشترکہ بحری مشقیں اختتام پذیر
پاکستان امن پسند ملک ہے۔ اس نے کبھی بھی کسی بھی ملک پر جارحیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دُنیا کے امن کے لیے اس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ دُنیا کے مختلف خطوں میں امن و امان کے لیے پاک افواج خدمات انجام دے چکی ہیں۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ وطن عزیز مختلف دوست ممالک کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کرتا رہا ہے، جس میں صلاحیتوں کو جانچنے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ اسی سلسلے میں نئی تازہ مشق پاک بحریہ نے سعودی عرب کی رائل نیول فورسز کے ساتھ کیں، جو گزشتہ روز اختتام پذیر ہوگئیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق پاک بحریہ اور رائل سعودی نیول فورسز کے درمیان بڑی مشترکہ بحری مشق نسیم البحر XIVسعودی عرب کی بندرگاہ الجبیل میں اختتام پذیر ہوگئی۔ مشق کا سمندری مرحلہ بحیرۂ عرب میں منعقد کیا گیا۔ بحری مشقوں میں پاک بحریہ کے جہازوں سیف، ہمت، دہشت اور محافظ جب کہ سعودی بحری افواج کے جہازوں بدر، حطین، الصدیق، عقبہ اور الجوف جب کہ رائل سعودی ایئر فورس کے طیاروں کے علاوہ دونوں بحری افواج کی اسپیشل آپریشنز فورسز اور میرینز نے حصّہ لیا۔ مشق میں آپریشنل صلاحیتوں کی ایک وسیع رینج شامل تھی، جس میں اینٹی سرفیس، اینٹی ایئر، مائن وار فیئر اور خصوصی آپریشنز کے اہم پہلوؤں کو شامل کیا گیا، تاکہ زیادہ سے زیادہ تربیتی تجربہ حاصل کیا جاسکے۔ پاک بحریہ کے جہازوں کے دورے اور مشق نسیم البحر XIVکے انعقاد کے ساتھ، فلیگ آفیسر سی ٹریننگ پاکستان نیوی، ریئر ایڈمرل شفاعت علی خان نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے سعودی نیول فورسز کے کمانڈر ایسٹرن فلیٹ، ریئر ایڈمرل ماجد بن حزہ القحطانی اور دیگر سینئر افسران سے ملاقات کی اور مشق کی اختتامی تقریب میں شرکت کی۔ یہ مشقیں انتہائی سازگار اور دوستانہ ماحول میں ہوئیں۔ پاکستان کی افواج برادر ممالک کے ساتھ وقتاً فوقتاً ایسی مشقوں کا اہتمام کرتی رہتی ہیں۔ نسیم البحر XIVانتہائی اہم مشقیں تھیں، جو دونوں برادر ممالک کی بحری فوجوں کے لیے سودمند ثابت ہوں گی۔ آئندہ بھی برادر ملکوں کے ساتھ اسی قسم کی مشترکہ فوجی مشقوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔