ColumnImtiaz Aasi

خواتین ملزمان کی ضمانت

امتیاز عاصی
اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر نظر ڈالیں تو قانون کے بہت سے مخفی گوشوں سے آگاہی ہوتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت جسے ہم سپریم کورٹ کہتے ہیں کے بعض فیصلوں کو پڑھنے سے یہ حقیقت آشکار ہو تی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے ملزمان کی رہائی اور ان کی سزائوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ان کے فیصلے ماتحت عدالتوں کی رہنمائی کا کام بھی کرتے ہیں۔ انگریزی قانون میں ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کے مختلف فورم کا مقصد انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ جیسا کہ سپریم کور ٹ نے اپنے بہت سے فیصلوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ شہادت ریکارڈ کرتے وقت سچ تک پہنچنے کے لئے شہادتوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تاکہ عدل کے تقاضے پورے کرنے میں آسانی ہو ۔ جرم سرزد ہونے کی صورت میں عام طور پر ملزمان خواہ وہ مرد یا خواتین ہوں انہیں اپنے وکلا سے پوری امید ہوتی ہے وہ انہیں فوری طور پر ضمانت پر رہا کرا لے گا۔ اگرچہ ضمانت تو جرم کی نوعیت یعنی اس کے قابل ضمانت یا ناقابل ضمانت ہونے کی صورت میں ملتی ہے اس کے باوجود ملزم فریق کو آس ہوتی ہے ان کے بندے کی ضمانت ہو جائے گی۔ وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سنیئر وکیل بابر اعوان نے ایک اہم قانونی نکتے کی طرف سامعین کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ انگریز دور کے قانون میں خواتین کو vulnerableیعنی محترم طبقہ تصور کرتے ہوئے خواہ ان کے جرم کی نوعیت کچھ بھی ہو انہیں ضمانت کا حق دیا گیا ہے ۔ ان کے بقول اس وقت صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی 21سیاسی خواتین جیلوں میں ہیں جو پانچ ماہ سے ہائی کورٹ سے ضمانت کی منتظر ہیں۔ انہوں نے اس معاملے کا سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اگرچہ وکیل صاحب نے ان حوالاتی خواتین کے جرم سے شرکاء کنونشن کو آگاہ نہیں کیا ہمارے خیال میں ان کا اشارہ پی ٹی آئی کی ان خواتین کی طرف تھا جو سانحہ نو مئی کی پاداش میں جیلوں میں ہیں۔ کئی ماہ گزرنے کے باوجود شائد حکومت یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے پی ٹی آئی کی جو خواتین نو مئی کے سانحہ میں ملوث پائی گئیں ان کے خلاف مقدمات آرمی ایکٹ یا خصوصی عدالتوں میں چلائے جائیں۔ انگریز کے قانون نے خواتین کو یہ استثنیٰ بھی دیا ہے اگر کوئی خاتون پولیس کے پاس جسمانی ریمانڈ میں ہو تو اسے غروب آفتاب کے بعد پولیس اسٹیشن نہیں رکھا جا سکتا۔ ایک زمانے میں قتل کے مقدمات میں ملوث ملزمان کا ٹرائل دو سال تک نہیں ہوتا تھا تو انہیں ضمانت پر رہائی مل جاتی تھی بعد ازاں اس قانون میں تبدیلی آگئی۔ یہاں سوال خواتین یا مرد ملزمان کا نہیں بلکہ قانون اور انصاف کی بات ہے۔ اگر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ اور ٹھوس شہادت ہو تو اس کے خلاف مقدمات چلانے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ جیسا کہ قانون کی زبان کا مشہور فقرہ ہے Justice dely is justice deny یعنی انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار تصور کیا جاتا ہے۔ مہذب معاشروں میں ملزمان خواہ مرد ہوں یا خواتین انصاف کے حصول میں تاخیر کا تصور نہیں ہے۔ بدقسمتی ہے ہمارے ہاں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی روایت رہی ہے۔ اثر و رسوخ رکھنے والوں کے مقدمات کے چالان سالوں عدالتوں میں نہیں پہنچ پاتے ہیں جب کہ وہ شہری جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ان کے مقدمات کے چالان دنوں میں عدالتوں میں بھیج دیئے جاتے ہیں۔ قرون اولیٰ کیا اقوام کی تباہی میں سب سے بڑا عنصر حصول انصاف میں امتیاز برتنا تھا جس میں چھوٹوں کو سزائیں اور بڑوں کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا تھا جن قوموں میں انصاف نہیں ہوتا وہ صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ آج ہماری تباہی میں کون سی کسر باقی ہے۔ معاشی طورپر ہمارا ملک کنگال ہو چکا ہے مہنگائی نے غریب عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔ سیاست دانوں کے نزدیک آئین اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ آئین اور قانون کو گھر کی لونڈی سمجھ رکھا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں
گزرا ہے سپریم کورٹ نے الیکشن کرانے کا فیصلہ دیا تو سیاسی جماعتوں نے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جس ملک میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں سے حکومتوں کا یہ سلوک ہو ایسے ملک ترقی کر سکتے؟ پی ڈی ایم کی حکومت نے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے دعوے تو کئے تھے مگر وہ اپنے خلاف مقدمات کو ختم کرانے میں لگے رہے اور نیب قوانین میں حسب منشاء ترامیم کرکے چلتے بنے ہیں۔ کہتے ہیں اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے سپریم کورٹ میں ابھی نیب ترامیم کا کیس زیر سماعت ہے چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال چند روز بعد مدت ملازمت پوری کر رہے ہیں۔ توقع ہے وہ جاتے جاتے اس اہم مقدمہ کا فیصلہ کریں گے جس کا تعلق کسی کی ذات سے نہیں ملک و قوم سے جڑا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت جانے کے بعد تمام معاملات نگران حکومت کی دسترس میں ہیں لہذا نگران حکومت کو جیلوں میں قید خواتین کے خلاف مقدمات جلد از جلد چلانے کے انتظامات کرنے چاہیں تاکہ حصول انصاف ملنے میں تاخیر نہ ہو۔ جو خواتین جیلوں میں ہیں ان کے وکلاء کی بھی ذمہ داری ہے وہ ہائی کورٹ میں جلد از جلد ضمانتوں کی سماعت کے لئے درخواست دائر کریں ۔ یہ درست ہے سانحہ نو مئی میں ملوث افراد معافی کے مستحق نہیں ہیں اس کے ساتھ انصاف کا تقاضا ہے ان کے خلاف مقدمات چلانے جانے چاہیں کسی بے گناہ کو جیلوں میں رکھنا انصاف سے انکار ہے۔ نگران حکومت کی یہ ذمہ داری ہے سانحہ نو مئی میں گرفتار ملزمان کو انصاف کی فراہمی کے لئے ان کے خلاف مقدمات بلا تاخیر چلانے کے انتظامات کرے کہیں ایسا نہ ہو جیسا کہ عمران خان کے دور میں نیب ملزمان کے خلاف احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کرتے کرتے حکومت جاتی رہی۔ اعلی ٰ عدالتوں کو بھی اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے اگر کسی کے خلاف ٹھوس شہادت ہے انہیں سزائیں دینے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے اور اگر کسی کی ضمانت بنتی ہے تو اسے رہائی ملنی چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button