ColumnTajamul Hussain Hashmi

پھر احتجاج کیسا ؟

تحریر: تجمّل ہاشمی
میاں نواز شریف 1999میں سرکاری دورے پر سنگاپور گئے ، یہ یادداشت جاوید چودھری کی کتاب میں درج ہے۔ نواز شریف نے مصروفیات کے بعد لی کوان یو سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، وہ لیڈر شپ اور سنگاپور کی ترقی کا راز لینا چاہتے تھے، سنگاپور کے وزیر اعظم نے ملاقات کو طے کرایا ، نواز شریف اپنے چند افراد کے ساتھ لی کوان یو کے پاس پہنچ گئے۔ یہ ملاقات شام سنگاپور کے وزیر اعظم ہائوس میں رکھی گی تھی۔ ملاقات میں لی کوآن یو نے بتایا کہ وہ 8مرتبہ پاکستان کا کئی طرح سے دورہ کر چکے ہیں۔ لہذا وہ پاکستان کی ثقافت، جغرافیہ رسم و رواج اور لوگوں سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ نواز شریف نے ان سے پوچھا کہ کیا پاکستان کبھی سنگاپور جیسا بن سکتا ہے۔ لی کوآن یو نے تھوڑی دیر سوچا اور نفی میں سر ہلا دیا۔ یقینا ان کا جواب کھڑا اور غیر سفارتی تھا۔ لی کوآن یو تھوڑی دیر بعد بولے اس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ آئیڈلوجی، دوسری اپروچ اور تیسری آپ کی فوج ہے۔ مزید مختصر دوسری وجہ پر بات کرتے ہیں ۔ لی کوآن یو کا کہنا تھا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کلکتہ سے کراچی تک میرے موکل تھے، ہندو اور مسلمانوں کی نفسیات میں بہت بڑا فرق دیکھا، ہندو جب میرے پاس اپنا کیس لے کر آتا، میں کیس کو سٹڈی کرتا اور ان کو مشورہ دیتا کہ اگر تم عدالت جائو گے تو اپنا کیس ہار جائو گے ، وہ بات سمجھتا اور دوسری پارٹی سے صلح پر راضی ہو جاتا اور بات وہی پر ختم ہو جاتی لیکن جب کوئی مسلمان میرے پاس آ جاتا، میں اس کا کیس سٹڈی کرتا اور اس کو بھی وہ مشورہ دیتا کہ اپ کیس ہار جائو گے لیکن وہ صلح کے لیے راضی نہیں ہوتا بلکہ کہتا ہے میں اور میری آنے والی نسلیں اس کیس کو لڑیں گی، جب ملک کی قوم میں ایسے رویے پیدا ہو جائیں گے تو ملک کیسے ترقی کرے گا۔ یہ سب باتیں سنگاپور کے دورے کے دوران ہوئی۔ یہ تمام باتیں ؍ معلومات آپ کو جاوید چودھری کی کتاب زیرو پوائنٹ4صفہ نمبر 38میں بھی مل جائیں گی، یہ وضاحت اس لیے دی جا رہی ہے کہ آپ کو مکمل اور مزید معلومات حاصل ہو سکیں۔ نواز شریف کو لی کو آن یو سے ترقی کے راز کا طریقہ کار تو مل گیا لیکن سوال یہ ہے کیا ان باتوں پر عمل کس نے کیا ؟ ملک کی دو بڑی جماعتیں 30سال سے ایک دوسرے پر سچے جھوٹے مقدمات بنانے میں لگی رہیں، جلسوں میں سچ اور جھوٹے کے نعرے لگاتے رہے۔ مقدمات کی بھرمار سے سارا نظام مفلوج ہوگیا۔ الزامات کی سیاست گھروں کی دہلیز تک پہنچ گئی ، پہلے پمفلٹ تک تھی آج کل ویڈیو تک پہنچی ہوئی ہے، مقدمات کا کوئی حساب نہیں۔ پوری سرکاری مشینری ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال ہوتی رہی لیکن ملک کی خاطر کسی بھی جماعت نے یہ کام بند نہیں کیا، آج بھی 11جماعتیں مل کر وہی کام کر رہی ہیں جو پہلے دو جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کرتی رہیں، دنیا سے تعلقات استوار کرنے کے لیے اربوں روپے کے دورے کئے گئے ، لیکن قوم کے نصیب میں مہنگے پراجیکٹ نصیب ہوئے ۔ 63فیصد نہیں 80فیصد لوگ مہنگائی سے متاثر ہیں، پاکستان تحریک انصاف کو مہنگائی کی بنیاد پر گھر بھیجا گیا لیکن اتحادیوں نے اپنا مال بچا لیا اور کما لیا۔ نگران حکومت کہتی ہے کہ عوام کے کنکشن منقطع نہیں کئے جائیں گے اور سہولت کے لیے بلوں کی اقساط کی جائیں۔ جناب یہ حل نہیں ہو گا، 40سال کی لوٹ مار کو نگران حکومت کیسے ٹھیک، صاف کرے گی یہ ممکن نہیں ہے۔ 40سال میں کئے گے غلط معاہدوں نے آج پاکستان کے عوام کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے، 1994میں پیپلز پارٹی حکومت نے IPPsکے ساتھ ڈالر میں پیمنٹ کے معاہدے کئے، نواز شریف نے مہنگے کوئلے اور ناقص پلانٹ لگائے، ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے والے سکون میں بیٹھے ہیں ۔ روٹی، کپڑا اور مکان والے عوام کے ساتھ مہنگائی کیخلاف احتجاج کرنے کا مشورہ کر رہے ہیں۔ تبدیلی کے سارے خواب ٹھنڈے ہو گئے ہیں، سب کی کارکردگی، پلاننگ ناقص ثابت ہوئی، یہ بھی ثابت ہوا کہ ملکی مفاد میں لگائے گئے پراجیکٹ سے طاقتور حلقوں نے اربوں کما لیے ہیں۔ اسحاق ڈار ملک بچانے آیا اور اپنا گھر بچا کر چلا گیا، ان معاہدوں کا عذاب قوم کو برداشت کرنا پڑے گا۔ لیکن لگتا نہیں کہ یہ بوجھ قوم مزید برداشت کر سکے گی ، گریڈ 17سے اعلیٰ افسروں کی یونٹ مراعات ختم کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا، 40سال سے سفارتی دوروں پر اربوں خرچ ہوئے ، ایف اے ٹی ایف کے چکر میں ایسے قانون نافذ کئے گئے جس سے اسلامی تشخص بھی مجروح ہوا۔ ملک میں کیا بہتری آئی، دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنا اچھا عمل ہے لیکن اگر ان دوروں سے ایسے ہی معاہدے کرنے تھے تو اس سے بہتر اس رقم سے ڈیم تعمیر کر لیتے، جس سے عوام کو مہنگائی سے نجات اور روزگار، کاروبار میں بہتری ممکن ہوتی لیکن یہ واضح ہے اب عوام کے پاس کوئی آپشن موجود نہیں رہا، آپ کو اگر لائٹ، بلب، پنکھا چلانا ہے تو بل بھرنا ہو گا، معذرت اب کوئی چوائس نہیں ہے۔ اگر اب بھی انہی کو ووٹ دے کر منتخب کرنا ہے تو پھر شور کیسا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button