Column

انتخابات کا ممکنہ التوا اور اندرونی و بیرونی خدشات

محمد ناصر شریف
پاکستان اور اس سے باہر یعنی امریکا، مغربی و عرب ممالک سب کی نظریں آئندہ عام انتخابات پر ہیں کہ ان کا انعقاد آئین میں دی گئی مدت کے مطابق ہوگا یا یہ التوا کا شکار ہو جائیں گے، ملک انارکی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بجلی بلوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے کے بعد ملک بھر میں احتجاج ، مظاہروں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کے حوالے سے بھی خبریں زیر گردش ہیں، ڈالر ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں رہا اور اس کی پرواز رکنے کا نام نہیں لے رہی، اگر نگراں حکومت عوام کے لیے فوری ریلیف کا فیصلہ نہیں کرتی تو ملک ایسے حالات سے دوچار ہوسکتا ہے جس میں انتخابات کا بہت دور دور تک امکان نظر نہیں آتا۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن کو مردم شماری کی منظوری کے بعد حلقہ بندیاں کرنے کی ضرورت کے پیش نظر الیکشن کو نوے دن سے آگے لے جانے کا موقع مل چکا ہے۔
2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی موجودہ قومی اسمبلی کی مدت 13اگست 2018سے شروع ہوئی تھی اور اس کی پانچ سال کی مقررہ مدت 12اگست 2023کی رات 12بجے مکمل ہونی تھی تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے اعلان کے مطابق اسمبلی مقررہ مدت سے تین دن قبل 9 اگست کو ہی تحلیل کردی۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 52کے مطابق قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہے۔ اگر اس کو پانچ سال کی مدت سے قبل تحلیل نہ کر دیا جائے تو یہ مدت پوری ہونے پر خود بخود تحلیل ہوجاتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل (1) 224کے تحت اگر اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں تو اس کے بعد 90دن میں الیکشن کروانے لازم ہیں۔ تاہم ملک میں انتخابات کے ممکنہ التوا کی وجہ نئی مردم شماری کی منظوری کو قرار دیا جارہا ہے۔ اس منظوری کے بعد حکومت کا موقف ہے کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی کرنا ہوگی۔
سابق وزیراعظم شہباز شریف ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے جبکہ سابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا یہ بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ انتخابات کا انعقاد آئندہ سال 2024میں مارچ میں ہوسکتا ہے۔ یعنی وہ بھی نوے دن میں انتخابات کے انعقاد کو ممکن نہیں سمجھتے جبکہ بیرسٹر ظفر اللہ کے مطابق پاکستان کے آئین کی دفعہ 254کے مطابق الیکشن لیٹ بھی ہوئے تو بھی یہ درست عمل ہو گا خلاف قانون نہیں۔
الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام انتخابات 90دن میں نہیں ہو سکتے۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرنیکا فیصلہ کیا ہے اور حلقہ بندیوں کے لئے 4 ماہ کا وقت مختص کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ عام انتخابات 90دن میں نہیں ہو سکتے، حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت 14دسمبر کو کی جائیگی، ملک بھر میں8ستمبر سے7اکتوبر تک حلقہ بندیاں کی جائیں گی، اکتوبر سے 8نومبر تک حلقہ بندیوں سے متعلق تجاویز دی جائیں گی، 5ستمبر سے7 ستمبر تک قومی و صوبائی اسمبلیوں کا حلقہ بندیوں کا کوٹہ مختص کیا جائیگا، حلقہ بندیوں سے متعلق انتظامی امور 31اگست تک مکمل کئے جائیں گے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ ملک میں انتخابات التوا کا شکار ہوں گے اس سے قبل1988میں سیلاب اور دوسری بار 2007میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت پر انتخابات التوا کا شکار ہوچکے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے بھی عام انتخابات میں تاخیر کو قبول نہ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ بلاول ہائوس کراچی میں سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس کے بعد پارٹی رہنمائوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمان نے کہا پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل نے واضح کیا ہے کہ الیکشن 90روز سے آگے گئے تو ملک میں بحرانی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ الیکشن 90دن میں ہونے چاہئیں، حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر نہیں کی جاسکتی۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ان کی جماعت فوری لیکن شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی خواہش مند ہے۔ یہ کون سے لوگ ہیں جو نئی مردم شماری کے بعد بھی پرانی حلقہ بندیوں پر زور دے رہے ہیں، تاکہ مصنوعی نمائندگی کو سندھ پر دوبارہ مسلط کیا جائے؟’ تمام سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم کے اس مطالبے کو مانا ہے کہ نئی مردم شماری کے بعد، جس میں کئی کروڑ ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے، انہیں حق نمائندگی سے محروم نہ رکھا جائے۔ ہم جلد سے جلد لیکن شفاف اور غیر جانبدار الیکشن چاہتے ہیں۔۔۔ اگر ( الیکشن کے انعقاد میں) ہفتوں اور مہینوں کا فرق پڑ بھی رہا ہے تو یہ خسارے کا سودا نہیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔ سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ صدر مملکت کو 90روز میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے اور الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا جائے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے 5اگست کے فیصلے کو خلاف قانون قرار دیا جائے اور ادارہ شماریات کی 2023کی مردم شماری کے نتائج کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
ادھر اہم مغربی ممالک نے پاکستان کو آگاہ کیا ہے پارلیمانی انتخابات میں مقررہ وقت سے زائد تاخیر سے ملک کیلئے سنگین نتائج برآمد ہونگے جس میں ممکنہ طور پر تعلقات میں کمی بھی شامل ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق امریکا اور یورپی یونین انتخابات کے حوالے سے پاکستان میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ممالک ہمیشہ جمہوریت کی وکالت کرتے رہے ہیں اور سمجھتے ہیں انتخابات کا انعقاد کسی بھی ترقی پسند جمہوری معاشرے کا نچوڑ ہے۔ مغربی دارالحکومتوں میں خدشات ہیں پاکستان میں انتخابات نہیں ہو سکتے اور موجودہ نگراں سیٹ اپ مقررہ مدت سے آگے جا سکتا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق حلقہ بندیوں اور بعض تکنیکی معاملات کی وجہ سے چند ماہ کی تاخیر برداشت کی جا سکتی ہے۔ تاہم اگر انتخابات اگلے سال فروری سے آگے تاخیر کا شکار ہوئے تو ملک کیلئے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ ایک سفارتی ذریعے نے اپنا نقطہ نظر کچھ یوں بیان کیا کہ ’’ سچ کہوں تو، اگر انتخابات فروری سے زائد تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تو ہمارے لئے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی یہی سطح برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہو جائے گا‘‘۔
خیال کیا جاتا ہے انتخابات میں تاخیر کی صورت میں، مغربی ممالک جو جمہوریت کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، پاکستان کے ساتھ اپنے تعاون پر نظرثانی کر سکتے ہیں۔ اس سے آئی ایم ایف سمیت امریکی زیر قیادت مالیاتی اداروں کے ساتھ پاکستان کی شمولیت پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ مغربی ممالک چاہتے ہیں نہ صرف انتخابات وقت پر ہوں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو برابری کا میدان فراہم کیا جائے۔
ایک اور سفارتی ذریعہ نے میڈیا پر پابندی اور بعض سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈائون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا یہ وہ چیز ہے جس پر ہماری گہری نظر ہے۔ امریکی ایلچی نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کے بعد نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے بھی ملاقات کی اور یہی پیغام پہنچایا جبکہ الیکشن کمیشن نے حال ہی میں واضح کیا کہ حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہونے کے بعد انتخابات میں تاخیر کا ارادہ نہیں ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں اب دیکھنا ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button