Abdul Hanan Raja.Column

نظریاتی مفاہمتی اور مزاحمتی سیاست

تحریر : عبد الحنان راجہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کبھی بھی ایسی سیاست پروان نہیں چڑھی کہ جہاں نظریہ اسلامی ہو اور رنگ عوامی۔ مگر دستیاب حالات میں ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی بار روٹی کپڑا، مکان اور اسلامی سوشلزم کا نظریہ دیا۔ ایوب خان اور اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پروان چڑھنے والے بھٹو نے بعد ازاں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سیاست میں بھی نام کمایا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی ارتقا نظریاتی تھا مگر اقتدار ملنے کے بعد نظریاتی سیاست تو پیچھے رہ گئی اور بھٹو ایک نئے روپ میں سامنے آئے۔ طاقت کے زعم میں وہ کچھ کر بیٹھے کہ اقتدار ہاتھ سے جاتا رہا، مگر بعد از اقتدار پی پی پی کے جیالوں نے اپنی مزاحمتی سیاست میں قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کی یہی وجہ کہ بھٹو کی افکار و نظریات آج بھی جیالوں کے دل و دماغ میں زندہ ہیں، جس طرح جسم کی نشو و نما کے لیی غذا کی تو اس طرح شعور کی بالیدگی کے لیے نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اول دن سے ہی ہمارے ہاں عوام اور بالخصوص نوجوان نسل کی فکری و سیاسی تربیت نہ کی جا سکی، جس کے نتیجے میں کبھی مسلم لیگ کنونشن، ( ن) تو کبھی ( ق) وجود میں آتی رہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ کئی ایک نے نظریاتی سیاست کو پروان چڑھانے کی کوشش کی مگر مقبولیت پاکستان تحریک انصاف کے حصہ میں آئی. پارٹی کے قیام سے لیکر 2011ء تک کے عرصہ میں پی ٹی آئی کی سیاست میں نظریہ غالب رہا اور اس عرصہ میں کپتان بدعنوانی کے خلاف اور انصاف بر مبنی نظام کا استعارہ بن کے سامنے آئے۔ 2011ء کے بعد انکی جدوجہد مفاداتی طریق پر چل پڑی، جس میں ’’ آشیر باد‘‘ نے پہلے انہیں مقبولیت اور پھر قبولیت کے مرتبہ تک پہنچایا۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے پارلیمانی سیاست کے نامور نام کپتان کی ٹیم کا حصہ بنتے یا بنائے جاتے رہے۔ مقبولیت اور قبولیت کا ملاپ ہوا تو اقتدار کی کرسی حصہ میں آئی اور انہیں پہلی بار اپنے نظریات اور منشور پر عمل پیرا ہونے کا موقع میسر آیا۔ مگر کیا ہوا کہ پونے چار سالہ دور اقتدار
میں پی ٹی آئی کے کم و بیش سبھی بانی و نظریاتی قائدین یا تو سیاسی مفارقت دے گئے اور بچے کھچے آخری صفوں میں جگہ تلاش کرتے رہے۔ اپنے منشور کے دونوں اہم اور بنیادی نکات بدعنوانی کا خاتمہ اور انصاف کا بول بالا تو نہ ہو سکا مگر ماضی کے حکمرانوں کے برعکس کپتان نے خود کو جرات مند اور عوامی درد کو سمجھنے والے وزیر اعظم کے طور پر منوایا۔ ملکی و عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی بھر پور کی اور عوامی ریلیف کے چند اقدامات، مگر اپنی افتاد طبع زولیدہ فکری کے باعث طبیعت میں ٹھہرائو پیدا نہ کر سکے اور ایک ایک کر کے محسنین دور کرتے گئے۔ بھانڈ اور مفاد پرستوں کے حصار میں کپتان کو اپنی ٹیم کے اہم کھلاڑیوں کے آئوٹ ہو جانے کا دکھ ہوا اور نہ احساس، کہ احساس ہو جاتا تو روٹھوں کو منانا چنداں مشکل نہ تھا مخلص اور سرد و گرم چشیدہ رہنما گاہے بگاہے عہدے کی حساسیت کے پیش نظر طبیعت کے لاابالی پن سے آگاہ کرتے رہے، مگر بے سود۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ مقبولیت بھی دم توڑنے لگی اور قبولیت بھی۔ اقتدار سے علیحدگی سے قبل مقبولیت کے غبارے میں مہنگائی اور غیر دانش
مندانہ پالیسیوں کے سبب سوراخ ہو چکے تھے، مگر مزاحمتی سیاست کا آغاز پھر زور دار۔ پی ڈی ایم کی نالائق حکومت اور مزاحمتی بیانیہ نے دوبارہ کپتان کو مقبولیت کے بام عروج پر پہنچا دیا۔ مگر اپنے بنیادی منشور پر لوٹنے اور کوتاہیوں پر نظرثانی کے بجائے پی ٹی آئی نے سارا زور شخصی و ادارہ جاتی مخالفت پر لگا دیا۔ پالشی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پہلے اسمبلیاں توڑ کر خود کو بے دست و پا کر دیا تو پھر باوجود دعوت کے مذاکرات سے انکاری رہے۔ مزاحمتی دور کے اس مرحلہ میں ہوش کی بجائے جوش غالب رہا حدود و قیود کی پروا کی اور نہ مخلص ساتھیوں کے مشورہ کی۔ مجھ سمیت کئی صحافتی طبقات کو کسی بڑے سانحہ کا خدشہ تھا۔ اور پھر وہی ہوا کہ جس کا ڈر تھا۔9مئی کے سانحہ نے ساری جماعت کو تنکوں کی طرح بکھیر ڈالا۔ زمان پارک ویران اور کپتان تنہا رہ گیا۔ ملکی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پاکستان پیپلز پارٹی سب سے زیادہ حکومتی و عدالتی جبر کا شکار رہی۔ فیصلوں پر تنقید کی مگر حدود پار نہ کیں کہ انہیں اس کے مضمرات کا اندازہ تھا۔ علاوہ ازیں ’’ مرشد‘‘ کی سیاسی و حکومتی معاملات میں بے جا مداخلت بھی کپتان کے زوال کا سبب بنی۔ میری دانست میں اہل دانش، متحمل اور اصحاب الرائے ساتھیوں کا حصار اور متلون مزاجی کی جگہ بردباری، عدم ٹکرائو کی پالیسی اور سیاسی فراست اگر کپتان کو میسر ہوتی تو نوبت یہاں تک نہ آتی اور یقین جانیے کہ دستیاب سیاسی قیادت میں وہ سب سے بہترین چوائس تھے۔معروف صوفی بزرگ میاں بشیر نے خان کے اس سوال پر کہ انکی جماعت کب اقتدار میں آئے گی کے جواب میں فرمایا تھا کہ ’’ جب تم اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہو جائو گے‘‘۔ درپیش حالات کے تناظر میں محسن نقوی کا کلام شاید کپتان پر صادق آتا ہے۔’’ ہم یوسف زماں تھے ابھی کل کی بات ہے، تم ہم پہ مہرباں تھے ابھی کل کی بات ہے۔ وہ دن بھی تھے کہ ہم ہی تمہاری زباں پہ تھے، موضوع داستاں تھے ابھی کل کی بات ہے۔ جن دوستوں کی آج کمی ہے حیات میں، وہ اپنے درمیاں تھے ابھی کل کی بات ہے۔ کچھ حادثوں سے گھر گیا محسن زمین پر، ہم رشک آسماں تھے ابھی کل کی بات ہے‘۔ مزاحمتی تحریک کے اس مرحلہ پر طاقت کے معاملہ میں کپتان سے خطا ہوئی کہ عوامی کو سنبھال نہ سکے اور ریاستی کا اندازہ نہ کر سکے۔ اب درویش کو کون بتائے کہ خان بوجھ تلے دب گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button