ColumnRoshan Lal

ایک اور ناقابل اعتبار بجٹ؟

تحریر : روشن لعل
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کا جو وفاقی بجٹ 9مئی 2023ء کو پیش کیا گیا اس کو ناقابل اعتبار سمجھنے کی یہی وجہ کافی ہے کہ اسے اسحاق ڈار نے تیار کیا۔ اس خیال کے برعکس سوچنے والوں کا کہنا ہے کہ انتہائی غیر یقینی حالات میں جو بجٹ اسحاق ڈار نے پیش کیا اس سے بہتر بجٹ تیار کرنا ممکن ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ اسحاق ڈار کے علاوہ پاکستان کے مالیاتی مسائل کا حل کسی اور پاس نہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یہ وہی اسحاق ڈار ہے جسے 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد میاں نوازشریف نے سرتاج عزیز جیسے تجربہ کار شخص کو ہٹا کر اس وقت وزیر خزانہ بنایا تھا جب یہ سمجھا جارہا تھا کہ ہمارا ملک دیوالیہ ہو کر ہی رہے گا مگر اس شخص کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا تھا۔ جو لوگ ایسا کہنے والوں کے برعکس سوچتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ اسحاق ڈار نے پاکستان کے مالیاتی مسائل کا مستقل حل پیش کرنے کی بجائے ہمیشہ ایسا شارٹ کٹ دیا جس سے حکومت کو تو وقتی فائدہ ہو گیا مگر طویل دورانیے کے لیے ملک کو جو نقصان پہنچا اس کا پھر کبھی ازالہ نہ ہو سکا۔ ایسی سوچ رکھنے والے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اسحاق ڈار کے مشورے پر فارن کرنسی اکائونٹ منجمد کرنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ حکومت کے وقتی فائدے کے بعد ہمارا ملک طویل عرصہ تک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے قیمتی زرمبادلہ سے محروم رہا۔ خیر یہ تو ایک الگ بحث ہے جو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ساکھ سے متعلق ہے مگر ان کے پیش کردہ بجٹ کے ناقابل اعتبار ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ جس ملک کے سر پر ایک عرصہ سے دیوالیہ ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہو اس کا بجٹ خواہ کوئی بھی تیار کرے اسے قابل اعتبار بجٹ تصور کیا ہی نہیں جاسکتا۔ پاکستان کے کچھ تو حالات غیر یقینی ہیں اور کچھ اسحاق ڈار کی متضاد ساکھ، ان دونوں چیزوں کو جب لوگ ملا کر دیکھتے ہیں تو پھر یہی خیال پیش کرتے ہیں کہ بجٹ 2023ء کے نام پر جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ اعداد و شمار کا ایسا گورکھ دھندا ہے جسے کسی بھی صورت میں قابل اعتبار تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
اس بات کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ اسحاق ڈار کے پیش کردہ بجٹ کو کیوں ناقابل اعتبار تصور کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 6.50فیصد خسارے کے ساتھ 14.46 ٹریلین روپے کا حالیہ بجٹ پیش کیا ہے۔ گزشتہ برس پیش کیے گئے بجٹ کا حجم 9.60ٹریلین روپے اور خسارہ تقریبا4 فیصد تھا۔ گزرے ہوئے پچھلے کئی سالوں کی طرح گزشتہ برس پیش کیے گئے بجٹ کا 9.60ٹریلین روپے کا ہدف بھی حاصل نہیں کیا جاسکا تھا اور پھرسابقہ روایتوں کے عین مطابق عوام کو ایک سے زیادہ منی بجٹ پیش ہوتے دیکھنا اور ان میں بالواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں ڈالا گیا نیا بوجھ برداشت کرنا پڑا تھا۔ اسحاق ڈار نے حالیہ بجٹ تیار کرتے ہوئے جو بھی کمال دکھایا ہو مگر اکثر ماہرین معاشیات یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ آنے والوں دنوں میں عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کے نئے بوجھ کی شکل میں کوئی منی بجٹ نازل نہیں کیا جائے گا۔
یہ بات کوئی راز نہیں کہ موجودہ اتحادی حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ ان سے قبل اتحادی حکومت میں بنائے گئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل گو کہ آج کل اپنی جماعت سے ناراض ہیں مگر تعلق ان کا بھی مسلم لیگ ن سے ہی ہے۔ اگر اسحاق ڈار صاحب کے ناقدوں کی بات کی جائے تو ان میں ایک بڑا نام مفتاح اسماعیل کا بھی ہے۔ یاد رہے کہ میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد جب اسحاق ڈار نے پاناما کیس میں پیشیوں کے بعد خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی تھی تو رانا افضل کو کچھ عرصہ وزارت خزانہ کا قلمدان دینے کے بعد مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے سال
2017ء کا بجٹ اسحاق ڈار جبکہ 2018ء کا مفتاح صاحب نے پیش کیا تھا اور2022ء میں تیار اور پیش کیے گئے مفتاح اسماعیل کے بجٹ کے بعد اب 2023ء کا بجٹ اسحاق ڈار لے کر آئے ہیں۔ مفتاح اسماعیل اکثر یہ کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے کیے گئے ان کے معاہدے کو تسلیم کرنے کی بجائے جس طرح سے اس ادارے سے کی گئی مفاہمت کے برعکس کام کیا اس سے پاکستان کو ایسا نقصان ہوا جس کا خمیازہ آئی ایم ایف کی زیادہ سخت شرائط کی شکل میں حکومت اور عوام کو بھگتنا پڑا اور پھر اسحاق ڈار کوشش کے باوجود بھی اپنی غلطی کا ازالہ نہ کر سکے اور ان کی کوششوں کے باوجود بھی آئی ایف قرض کی مزید قسطیں جاری کرنے پر رضامند دکھائی نہیں دے رہا۔ واضح رہے کہ اسحاق ڈار نے اپنے پیش کردہ حالیہ بجٹ میں جو اہداف مقرر کیے ہیں ان کے حصول کا بہت حد تک دارو مدار اس بات پر ہے کہ آئی ایم ایف ہمیں قرض کی مزید قسطیں جاری کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار نے واہ ، واہ سمیٹنے کے لیے چھوٹی کاروں اور موٹر سائیکلیں رکھنے والوں کے لیے پٹرول پر ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کی سکیم کا اعلان تو کر دیا مگر یہ نہیں سوچا کہ نہ تو یہ سکیم قابل عمل ہے اور نہ ہی آئی ایم ایف اس پر رضامند ہوگا۔ اسحاق ڈار کی اعلان کردہ اس سکیم کا جگ ہنسائی کے علاوہ اور کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔ مفتاح اسماعیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود کل 22لاکھ دکانوں میں سے صرف 30ہزار ٹیکس نیٹ کا حصہ ہیں۔ مفتاح کے مطابق انہوں نے گزشتہ بجٹ کی تیاری کے دوران یہ طے کیا تھا کہ اکتوبر 2022ء سے تمام چھوٹے بڑے دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا مگر ستمبر2022ء میں انہیں ہٹائے جانے کے بعد اس کام پر مزید پیش رفت نہ ہوئی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب تاجر طبقہ کی آمدن پر براہ راست ٹیکس لگانے کی بجائے ترجیح عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگانا ہوگی تو پھر بجٹ میں طے کیے گئے اہداف کیسے پورے ہونگے، ایک کے بعد ایک منی بجٹ کیوں نہیں آئے گا اور آئی ایم ایف ہم سے کیونکر مطمئن ہوگا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پیش کردہ بجٹ کے متعلق مختلف لوگوں کی متضاد آرا ہیں مگر جس بات کے مثبت ہونے پر اکثر لوگ متفق ہیں وہ اس بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کیا گیا اضافہ ہے ۔ گو کہ تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ مہنگائی میں آئے دن ہونے والے اضافے کے مطابق نہیں ہے مگر پھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس حوالے سے اسحاق ڈار نے اپنی روایت کے برعکس کام کیا۔ اسحاق ڈار کے اپنی روایت کے برعکس کیے گئے کام کو بعض لوگ پیپلز پارٹی کے اتحادی حکومت کا حصہ ہونے کا مرہون منت قرار دے رہے ہیں۔ کاش کہ پیپلز پارٹی اپنی طرف سے کوئی ایسا حصہ بھی ڈال دیتی جس سے یہ بجٹ مجموعی طور پر قابل اعتبار ہو جاتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button