ColumnKashif Bashir Khan

ریاست مشکل میں!

کاشف بشیر خان
پاکستان کی موجودہ اقتصادی اور سیاسی صورتحال نہایت خطرناک ہو چکی ہے اور ملک میں جاری سیاسی و اقتصادی صورتحال کے براہ راست عوام کی زندگیوں پر ایسے برے اثرات مرتب ہوئے ہیں جنہوں نے انہیں نڈھال کر دیا ہے۔ مہنگائی اور بے روز گاری نے عوام کے پڑھے لکھے طبقے، جس کی اکثریت نوجوان ہے، کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا ہے جبکہ جو لوگ باہر جانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ پاکستان میں اپنے وجود کو قائم رکھنے کی ایک ایسی ناکام کوشش میں مصروف ہیں جس کا نتیجہ ان کے حق میں آنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ آج ریاست پاکستان اپنی بدترین شکل میں عوام کے لئے بھیانک نتائج کی حامل بن چکی ہے۔ کسی بھی ریاست کے نظام کو چلانے کے لئے وہاں کی حکومت کا کردار کلیدی ہوا کرتا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی کہ اس کے قائم ہونے کے فوری بعد ہی یہاں کا اقتدار استحصالی طبقوں کے ہاتھ میں آ گیا اور پھر عوام جو لٹے پٹے پاکستان آئے تھے ان کی بدقسمتی اور محرومیوں کا وہ سفر شروع ہو گیا، جو آج بھی زور و شور سے جاری و ساری ہے۔
پاکستان کی سیاست، صحافت، افسر شاہی اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں سمیت بیشتر ادارے اپنا اصل کام بھول چکے اور مال و زر کی لوٹ مار میں ایسا کھو چکے کہ حرام حلال، سچ جھوٹ، کھرا کھوٹا، انصاف نا انصافی، ظالم اور مظلوم، حق ناحق کا فرق ختم ہو چکا اور قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس ریاست میں تمام فرق مٹ جاتے ہیں اس ریاست کا وجود مشکل ہو جایا کرتا ہے۔ جس ریاست میں انصاف بکتا ہو اور انصاف فراہم کرنے والے تمام ادارے ( صرف عدالتیں نہیں) ہی اس سوچ سے عاری ہوں کہ ریاست کے باشندوں کا بنیادی حق ہر محکمے، ادارے سے انصاف کی فراہمی ہے، اس ریاست کی ترقی و خوشحالی کا سوچنا ہی نہ صرف عبث ہے، بلکہ ریاست کے باشندوں کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔ افسوس ناک حقیقت تو یہ ہے یہ سلسلہ دہائیوں سے ہر دور حکومت میں جاری و ساری رہا بلکہ ہر نئے آنے والے حکمرانوں کے دور میں اس میں شدت آئی۔ آج پاکستان طاقتور کا ہے اور پاکستان کے عوام کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ریاست پاکستان کی بدقسمتی کی انتہا ہے کہ عوام جو ریاست کے باشندے کہلاتے ہیں، بھی اس گلے سڑے زنگ آلودہ کرپٹ نظام کو بدلنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ وجہ سادی سی ہے کہ من حیث القوم ہم سب آسان راستوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ آساں راستی یعنی کہ کرپشن کا راستہ۔ پاکستان دنیا کے ان منفرد ملکوں میں سے ایک ہے کہ جہاں کرپشن اوپر سے نیچے کی جانب آتی دکھائی دیتی ہے۔ یعنی یہاں کے حکمران، افسر شاہی وغیرہ، کرپشن کرنے والوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ جس طریقے سے ملکی سرمایہ لوٹ لوٹ کر ملک سے باہر پہنچایا گیا اور کس، جس نے پہنچایا وہ آج زبان زد عام ہے، لیکن ہوا کیا، وہ سب تو آزاد ہیں بلکہ مسند پر بیٹھے ہیں اور انہیں تحفظ دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ وہ ریاستی ادارے ہیں جن کا فرض ملک میں قانون کی حکمرانی و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔۔۔ ابھی کل ہی ایک ایسے سیاسی رہنما نے کچھ لوگوں کو کے کر ایک نئی سیاسی جماعت بنانی کا اعلان کیا جو خود کرپشن اور منی لانڈرنگ کے جرم میں 5سال قبل تا حیات نا اہل ہو چکا ہے اور اس کا دست راست لاہور کا وہ پراپرٹی ٹائیکون ہے جو حکومتی کھاتے میں قبضہ گروپ ہے۔ یہ وہ ہی محترم شخصیت ہیں، جن کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نہ بنانے پر سابق وزیر اعظم پر بے پناہ دبائو تھا اور بالآخر یہ دبائو 2022میں ان کی حکومت ختم کرنے کا باعث بنا۔ لیکن ریاست پاکستان کے باشندگان کے لئے حیرت کا باعث استحکام پاکستان پارٹی کا وجود میں آنا ہے اور پھر اس میں وہ تمام سیاسی بے وفائوں کا شامل ہونا ہے، جو تحریک انصاف کا حصہ تھے۔ بطور صحافی میں سمجھتا ہوں کہ جس نومولود سیاسی جماعت کا سربراہ پارلیمنٹ میں جانے کا اہل نہ ہو اس سیاسی جماعت کے مستقبل پر کیا بات کرنی۔ ویسے بھی آئندہ ہونے والے انتخابات سیاسی جماعتوں کے گرد نہیں بلکہ لیڈران کے گرد گھومیں اور لڑے جائیں گے۔ عمران خان کی گرفتاری یا نا اہلی متوقع ہے کہ آج تمام کی تمام ریاستی مشینری ان کے خلاف متحرک ہے اور عالمی انسانی حقوق کی تقریبا تمام تنظیموں کے واویلا مچانے کے باوجود کوئٹہ میں وکیل کے قتل کا مقدمہ سابق وزیر اعظم پر درج کئے جانے پر پاکستان کی دنیا میں بدنامی ہوئی ہے، جو بطور پاکستانی میرے لئے پریشان کن ہے۔ پاکستان کے عوام کے بنیادی مسائل بہت زیادہ اور پریشان کن ہیں، جن کو حل کرنے کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کی بجائے عوام کی رائے کو بزور طاقت دبانے اور تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ایک جانب عوام کی خاموشی جرم ہے تو دوسری جانب یہ ہی خاموشی طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ریاست میں جبر کے ذریعے تو شاہ ایران، روس کے حکمران اور فرانس میں عوام کو نہیں روکا جا سکتا تھا اور پھر جب غربت اور مہنگائی ریاست میں ننگا رقص کر رہے ہوں تو پھر عوام کو روکنا کسی کے بھی بس میں نہیں ہوتا۔ پاکستان میں برسر اقتدار ٹولہ وہی ہے جس نے ماضی میں عوام کی تقریبا 70فیصد کو سطح غربت سے نیچے پھینکا اور پھر ساز باز کے ذریعے متعدد بار برسر اقتدار بھی آ گئے۔ آج جب میں تقریبا 3دہائیوں کی صحافت، ہزاروں کالم اور ہزاروں ٹی وی پروگراموں کے بعد اپنے قلم اور زبان پر قفل محسوس کرتا ہوں تو یقین کریں دل ڈوب جاتا ہے۔ اخبارات اور چینلز پر موجود گھس بھیٹیوں کی سازشیں پر اگر لکھنا شروع کروں تو یقین کریں اس پر بہت سی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اور چند دن میں ایسے تمام کرداروں کو کم از کم اپنے وی لاگز میں ننگا کرنے کا پروگرام تو میں بنا چکا ہوں۔ قارئین ریاست پاکستان کے عوام غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور نا انصافی کی چکی میں پس کر بے بسی کا نشان بن چکے اور جب انسان کا سب کچھ لٹ جاتا ہے تو پھر وہ نارمل انسان نہیں رہتا۔ آج پاکستان کے عوام خاموش ضرور ہیں لیکن لاعلم نہیں ہیں اور کس طرح ن لیگ اور پیپلز پارٹی اپنا آپ عوام کی نظروں میں لٹا چکے ہیں وہ میڈیا پر دبائو اور طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کر کے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ میرا وجدان تو یہ ہی کہتا ہے کہ تمام سیاسی یتیموں کو اکٹھا کر کے بھی عوام کو ان کی حمایت میں نہیں کیا جا سکتا اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ اول تو ایک دو دن قبل قومی اور بقایا دو صوبائی اسمبلیاں توڑ کر پہلے ایک ماہ کا اضافی وقت حاصل کیا جائے گا اور پنجاب کی طرح کی نگران وفاقی حکومت بنا کر عوام پر تین ماہ راج کرنے کی کوشش کی جائے گی اور پھر معاشی ایمرجنسی لگا کر عوام کو رائے دہندگی سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کیونکہ اس وفاقی حکومت کو عالمی مالیاتی فنڈ کے علاوہ دنیا کی کوئی بھی حکومت نہ تو مانتی ہے اور نہ اس کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی ریاست ( جو پارلیمانی آئین بھی رکھتی ہو) کے عوام کو ان کے حق رائے دہندگی سے محروم کرنا اول تو آسان نہیں ہوتا دوم اس کے اثرات بہت خطرناک ثابت ہوا کرتے ہیں۔۔۔ سب کو سوچنا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button