ColumnImtiaz Ahmad Shad

آزمائش کی بھٹی

امتیاز احمد شاد
جب انسان اپنی خطائوں پر نادم ہونا چھوڑ دیتا ہے تو آنے والی مشکلات کو دوسروں کی سازشوں سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جو مصیبت مجھ پر آئی ہے وہ میرے اعمال کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی کی سازش۔ انسانی تاریخ امتحانات اور آزمائشوں سے بھری پڑی ہے۔ انبیائے کرام علیہ السلام کی ہر امت کو ایسے امتحانات سے گزرنا پڑا جن میں ان کے جذبہ ایمانی اور ان کے صبر و شکر کی آزمائش کی گئی۔ بعض دفعہ مشکلات میں اس قدر اضافہ ہو جاتا ہے کہ بڑے بڑے جید بھی پکار اٹھتے ہیں کہ کب آئے گی اللہ کی مدد؟ بظاہر حالات مایوسیوں میں گھیر لیتے ہیں۔ دراصل اسی وقت کامیابیوں کی بنیاد پڑتی ہے، مسلسل کامیابیوں اور کامرانیوں کا دور شروع ہوتا ہے۔ آزمائش کی یہ بھٹی ہی امت کو دنیا میں عزت و وقار، عظمت و سر بلندی عطا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں کا حقدار بناتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر آزمائشوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ ’’ اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک ( دشمنوں کے مقابلہ میں کمزور معیشت) سے، اور کچھ مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی سے‘‘۔ ایک اور مقام پر فرمایا کہ ’’ ( اے مسلمانو!) تمہیں ضرور بالضرور تمہارے اموال اور تمہاری جانوں میں آزمایا جائے گا، اور تمہیں بہر صورت ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سے اذیت ناک ( طعنے) سننے ہوں گے، اور اگر تم صبر کرتے رہو اور تقویٰ اختیار کئے رکھو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر قوم آزمائش کی بھٹی سے ضرور گزری ہے۔ قدرت نے نوازنے اور رفعتیں عطا کرنے سے پہلے ضرور ان کا امتحان لیا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں؟ کتنے ثابت قدم ہیں؟ کتنے اپنے مقاصد کے حصول پر پختہ و کار بند ہیں؟ کہیں مصیبتیں، تکلیفیں اور سختیاں دیکھ کر پھر جانے والے تو نہیں؟ کہیں ہمت اور حوصلہ ہار جانے والے تو نہیں؟ کہیں شدت سے گھبرا کر باطل سے مفاہمت و سمجھوتہ کر کے چین سے بیٹھ جانے والے تو نہیں؟ قدرت نے ہر قوم کو شدید آزمائش میں ڈال کر ضرور جانچا اور پرکھا ہے اور ان کی آزمائش کی ہے۔ اگر وہ ثابت قدم رہے تو ان پر اپنے انعام و اکرام کی بارش کی اور انہیں قوموں کی صفوں میں عزت و وقار، عظمت و سر بلندی عطا کی۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں مٹھی بھر باہمت، باحوصلہ مسلمان ہر آزمائش میں پورے اترے، ہر مصیبت کا جوانمردی سے مقابلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر میدان میں سرخرو کیا، ہر معرکہ میں کامیابی عطا فرمائی اور انہیں قوموں کی صفوں میں سربلند کیا اور اپنی زمین کا وارث بنایا۔ شرق تا غرب، شمال تا جنوب مسلمانوں کا راج تھا۔ آج مسلمان تعداد میں اربوں ہونے کے باوجود حوصلہ شکن ہیں، ذرا سی مصیبت آتے دیکھ کر گھٹنے ٹیک دینے والے ہیں۔ ہم جیسے جیسے تعداد میں بڑھتے گئے مغلوب ہوتے گئے، نہ ہم میں وہ ہمت رہی، نہ وہ حوصلہ رہا، نہ وہ پختگی رہی، نہ وہ اخوت و بھائی چارہ رہا، نہ ہماری اپنی صفوں میں اتحاد رہا۔ یہ سب مل کر دشمن کا مقابلہ کیا کرتے تھے مگر جب یہ اپنی صفوں میں اتحاد کھو بیٹھے اور اغیار کی سازش کا شکار ہو کرا یک دوسرے کے دست و گریباں ہو گئے ۔ دشمن کے سب ہتھکنڈے ان پر کار گر ثابت ہوئے اور ان کی قوت و طاقت کو بہا لے گئے۔ آج ہم دنیا میں ہر جگہ ذلیل و رسوا ہیں، خواری و ناداری ہم پر مسلط ہے۔ دنیا میں چار سو جس سمت نظر دوڑائیں مسلمان ہی ذلت و رسوائی کا شکار ہیں اور ظلم و جفا کی چکی میں پس رہے ہیں۔
ہمارا یہ حال کیوں نہ ہوتا جب ہم نے اپنے اسلاف سے منہ موڑ کر اغیار کی طرف دیکھا، ضمیر فروش بنے، اپنے کلچر، تہذیب و تمدن اور اصول و روایات سے غداری کی اور اغیار کی تہذیب و کلچر کو اپنایا۔ آج ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں اغیار کا کلچر غالب نظر آتا ہے خواہ وہ معاشرت و رہن سہن ہو، لباس ہو یا وضع قطع، یا ظاہری شکل و صورت۔ جب ہم نے اپنے اسلاف سے منہ موڑ کر اغیار کی طرف دیکھا تو انہوں نے ہمیں اپنے ہر رنگ میں رنگ لیا بلکہ ہم تقلید و نقل میں اخلاقیات کی سب حدیں پار کر کے ان سے بھی آگے نکل گئے۔ ہم نے استقامت و ثابت قدمی کا دامن چھوڑ دیا۔ اپنے دنیاوی آقائوں کو خوش کرنے کے لئے فرائض و واجبات کو ترک کرنے پر بھی تیار ہوگئے۔
ان حالات میں ضرورت تھی کہ ہم رجوع الی اللہ ہوتے، اپنے آپ کو آزمائش کیلئے تیار کرتے اور اپنے اعمال درست کرتے ۔ مگر افسوس ہم نے عملی طور ایسا نہ کیا۔ یہ صرف کہہ دینے سے نہیں ہوگا بلکہ ہمیں اس کیلئے سب سے پہلے غوروخوض کرنا ہوگا کہ ہم سے کہاں کہاں کون کون سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ اس کے بعد ہمیں اپنے معاملات درست کرنے ہونگے۔ یاد رہے کہ زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں۔ در اصل ایمان کا راستہ امتحان سے گزرتا ہے۔ انبیاء علیہ السلام پر آزمائشوں کا آنا ہمارے لئے صبر کی بہترین مثالیں ہیں۔ بدقسمتی سے آج تھوڑی سی آزمائش آنے پر ہم چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں۔ دنیاوی خواہشات نے ہمیں اس قدر گھیر رکھا ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود شکر گزار نہیں بنتے۔ زیادہ سے زیادہ کے حصول نے ہمیں اسلام کے بنیادی فلسفے سے دور کر دیا ہے۔ کچھ لوگ تو اس حد تک پہنچ چکے کہ جب بھی ان کے سامنے اسلام سے جڑی کوئی مثال رکھی جائے تو حقارت ان کے چہروں پر عیاں ہوتی ہے۔ مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ان پر مصیبتیں آئیں اور وہ دنیاوی ذرائع سے نجات نہ پا سکیں تو پھر اسلام کی مثالوں سے خود کو تسکین دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے معاشرے میں باہمی احترام اور اچھے اخلاق کا درس دیا ہے، اسلام رشتے دار، عزیز و اقارب کا خیال رکھنے کا بھی درس دیتا ہے، اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہونا ہی تقویٰ ہے، قرآن مجید میں ہے کہ حضور اکرمؐ ہی آخری نبی ہیں، نبی کریمؐ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہی ایمان ہے، قرآن میں ہے کہ معمولی مصیبت کا مقصد بڑے عذاب سے آگاہی ہے۔ اسلام صدقہ وخیرات کے ذریعے مشکلات حل کرنے کا درس دیتا ہے۔ ہر بات میں دلیل ڈھونڈ کر دوسروں کو نیچ دکھانے کی روش نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا ء کردہ تمام نعمتوں کی فراوانی کے باوجود وطن عزیز پاکستان اغیار کے سامنے بے بس و لاچار دکھائی دیتا ہے۔ بد قسمتی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنا سالانہ بجٹ بھی ان کی اجازت کے بغیر نہیں بنا سکتے۔ افسوس ہمارے سیاسی رہنمائوں نے سیاست کو اس قدر پراگندہ کر دیا کہ وہ ہماری معیشت کو بھی نگل گئی۔ سیاسی، معاشی اور اخلاقی لحاظ سے ہم اس قدر گر چکے کہ صومالیہ ایسا ملک بھی ہم سے بہتر قرار پایا ہے۔76سال میں قوم تو ہر لحاظ سے صابر واقع ہوئی ہے مگر قوم کے نمائندے اس قدر بے صبرے پائے گئے ہیں کہ تھوڑی سی مصیبت بھی آجائے تو ریاست پاکستان میں ٹھہرنے کے بجائے دیار غیر کا رخ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یاد رکھیں آزمائشیں ایمان کو مضبوط کرتی ہیں۔ ہر کامیاب قوم کو آزمائش کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے جب کہ ناکارہ قومیں ہمیشہ گھبرا کر اغیار کے تلوے چاٹنے میں عافیت تصور کرتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button