Editorial

بارٹر ٹریڈ کا احسن فیصلہ

دُنیا بھر کی اقوام پر کبھی نہ کبھی بُرا وقت ضرور آتا ہے اور وہ بہترین اقدامات کرکے ان سے نکلتی اور پھر سے دُنیا بھر میں سرخرو ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے ڈھیروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چین کی مثال سب کے سامنے ہے۔ 20، 25سال پہلے چین بہت مشکل دور سے گزر رہا تھا اور آج اُس نے اپنی ترقی سے دُنیا بھر کو حیران کرکے رکھا ہوا ہے۔ امریکہ تین صدی قبل برطانیہ کے زیر تسلط تھا اور آج وہ دُنیا کا سپرپاور کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی نظیریں پیش کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان بھی اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس پر قرضوں کا بے پناہ بار ہے۔ یہاں ہر نومولود لاکھوں روپے کا مقروض جنم لیتا ہے۔ قوم تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کر رہی ہے۔ ہر شے کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ بنیادی ضروریات ( بجلی، گیس، ایندھن) کے نرخ بھی بلند ترین سطح پر براجمان ہیں۔ غریبوں کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا ازحد دُشوار گزار مرحلہ بن کر رہ گیا ہے۔ معیشت کی زبوں حالی سب کے سامنے عیاں ہے۔ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا ہوا ہے۔ پاکستانی روپیہ بدترین بے وقعتی کے دور سے گزر رہا اور اپنی بی توقیری پر ماتم کناں ہے۔ مانا حالات مشکل ہیں، لیکن ناممکن کچھ بھی نہیں۔ حکومت اگر بڑے فیصلے کرے، کفایت شعاری کی راہ اپنائے، غیر ضروری اخراجات پر قابو پایا جائے، قرضوں پر انحصار نہ کیا جائے، ملکی وسائل کو صحیح خطوط پر بروئے کار لایا جائے، انہی پر تمام تر انحصار کیا جائے، قوم بھی حکومت کا پوری طرح ساتھ دے، معیشت کی بہتری کے لیے حکومتی اقدامات پر لبیک کہے تو صورت حال کچھ ہی عرصے میں بہتر رُخ اختیار کر سکتی ہے۔ موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے، وہ پچھلے چار برسوں میں پیدا کی گئی خرابیوں کے سُدھار کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے اور اس حوالے سے وقتاً فوقتاً اہم اقدامات کررہی ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے توقیری کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو درآمدات کی صورت میں غیر ملکی کرنسی میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے، جس کا خزانے پر بھاری بھر کم بوجھ پڑتا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے، اب تین ممالک کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی جائے گی، اس کی ضرورت بھی خاصی شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔اطلاعات کے مطابق تجارت کے لیے نہ ڈالر، نہ روپیہ بلکہ سامان کے بدلے سامان دینا ہوگا۔ ایران، روس اور افغانستان سے اب بارٹر ٹریڈ ہوگی۔ وزارتِ تجارت نے تینوں ممالک سے بزنس کا طریقہ کار جاری کردیا۔ نجی اداروں کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کی ایکٹیو ٹیکس پیئرز لسٹ میں ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ایف بی آر کے آن لائن پورٹل کے ذریعے تجارت کے لیے درخواست دینا ہوگی۔ وزارتِ تجارت کے مطابق پاکستان سے دودھ، کریم، انڈے، سیریل، گوشت، پھل، سبزیاں، پرفیوم، کاسمیٹکس، ہوم اپلائنسز، موٹر سائیکلیں، سرجیکل آلات اور کھیلوں کا سامان برآمد کیا جائے گا۔ روس سے گندم، دالیں، پٹرولیم مصنوعات، کھاد اور ٹیکسٹائل مشینری جب کہ افغانستان اور ایران سے پھل، سبزیاں، مسالے اور خشک میوہ جات درآمد کیے جاسکیں گے۔ ایس آر او کے مطابق پاکستان اب ایران، افغانستان کو کھیلوں کا سامان بھی برآمد کر سکے گا، افغانستان سے پھل، میوہ جات، سبزیاں، دالیں، آئل سیڈز درآمد کر سکے گا۔ روس سے صنعتی مشینری بھی درآمد کی جاسکے گی۔ یہ انقلابی فیصلہ ہے۔ اس کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ ایسے ہی بڑے فیصلوں کی موجودہ حالات کے تناظر میں ضرورت بھی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کا بروقت اقدام ہے۔ بارٹر ٹریڈ کے طویل المدتی ثمرات ظاہر ہوں گے۔ پاکستان اپنی برآمدات کے بدلے ملکی ضروریات کے مطابق درآمدات حاصل کر سکے گا اور اس کا ملکی خزانے پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ ادائیگیوں کے ضمن میں حکومت کسی اُلجھن کا شکار بھی نہیں ہوگی۔ ضروری ہے کہ بارٹر ٹریڈ کو دوسرے ممالک تک بھی پھیلایا جائے۔ اس حوالے سے اُن سے گفت و شنید کی جائے اور معاملات کو حتمی شکل دی جائے۔ زیادہ ممالک کے ساتھ بارٹر ٹریڈ ہونے سے ملک کو بیش بہا فوائد حاصل ہوسکیں گے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں ملک و قوم کی بہتری کے لیے یہ بڑا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب حکومت کو اسی اقدام پر بس نہیں کرنا چاہیے، معیشت کی بہتری اور قوم کی خوش حالی کے لیے مزید بڑے فیصلوں کی طرف قدم بڑھانے چاہئیں۔ حکومتی اخراجات کو ازحد کم کیا جائے۔ کفایت شعاری کی راہ اختیار کی جائے۔ نمود و نمائش کی مشق ترک کی جائے۔ عالمی اداروں پر انحصار کرنے کے بجائے خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن ہوا جائے۔ قدرت کے خاص کرم سے پاکستان عظیم نعمتوں سے مالا مال ہے۔ زرعی معیشت ہونے کے ناتے یہاں کی زمینیں حقیقی معنوں میں سونا اُگلتی ہیں۔ زراعت کی بہتری پر توجہ دی جائے اور جدید ترین پیداوار کے طریقوں پر پورے ملک میں عمل درآمد کروایا جائے۔ اس حوالے سے کاشت کاروں کی مناسب تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ اسی طرح ملک کے طول و عرض کی زمینوں میں قدرت کے عظیم خزانے پوشیدہ ہیں۔ ان خزینوں کو تلاش کیا جائے اور صحیح خطوط پر بروئے کار لایا جائے۔ پاکستان کے بیشتر مقامات قدرت کے عطا کردہ حسین نظاروں سے مالا مال اور بیرون ممالک کی سیاحوں کے لیے خصوصی کشش کا باعث ہیں۔ سیاحت کی صنعت پر توجہ دی جائے اور اسے فروغ دیا جائے۔ بیرونی سیاحوں کے لیے سہولتیں متعارف کرائی جائیں۔ یقیناً نیک نیتی پر مبنی اقدامات ملک و قوم کو خوش حالی سے ہم کنار کرنے کا باعث ثابت ہوں گے۔
کانگو وائرس کے بڑھتے
خطرات، احتیاط ضروری ہے
عیدالاضحی کے موقع پر ملک بھر میں کانگو کے کیس بھی سامنے آتے ہیں۔ یہ انتہائی مہلک بخار گردانا جاتا ہے۔ کانگو وائرس مویشی گائے، بیل، بکری، بکرا، بھینس، اونٹ، دنبوں اور بھیڑ کی کھال سے چپکی چیچڑوں میں پایا جاتا ہے، چیچڑی کے کاٹنے سے وائرس انسان میں منتقل ہوجاتا ہے، قومی ادارۂ صحت کے مطابق نیرو نامی وائرس انسانی خون، تھوک اور فضلات میں پایا جاتا ہے جو انسانوں میں کانگو بخار پھیلاتا ہے، اس وائرس سے متاثرہ شخص ایک ہفتے کے اندر زندگی کی بازی ہار سکتا ہے۔ ماہرین کی مطابق کانگو وائرس گزشتہ 22؍23 سال سے پاکستان میں موجود ہے، یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ رواں ماہ کے آخر میں عیدالاضحیٰ کا تہوار آرہا ہے۔ اس سلسلے میں ملک بھر میں مویشی منڈیاں لگائی جاتی ہیں، شہریوں کی بڑی تعداد کی منڈیوں میں آمدورفت رہتی ہے، جس کے باعث ماہِ قرباں میں اس کے کیسز میں اضافہ دِکھائی دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق چیچڑ اگر کسی انسان کو کاٹ لے یا متاثرہ جانور ذبیحہ کے دوران کسی شخص کے ہاتھ میں کٹ لگ جائے تو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہوجاتا ہے اور پھر چھوت کے مرض کی طرح ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے، ماہرین اس وائرس کو کینسر سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں۔ اس کی علامات میں متاثرہ شخص کو تیز بخار، کمر، پٹھوں، گردن میں درد، قے، متلی، گلے کی سوزش اور جسم پر سرخ دھبے شامل ہیں۔ کانگو کے حوالے سے اطلاع ہے کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں اس وائرس کے باعث رواں سال 6افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق بلوچستان کے متعدد اضلاع ایک بار پھر کانگو وائرس کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ رواں سال وائرس سے خواتین اور بچوں سمیت 6 افراد جاں بحق ہوچکے۔ رواں سال کے دوران صوبے میں کانگو وائرس کے 35کیس رپورٹ ہوئے۔ 80ء کی دہائی کے آخر اور 90 کی دہائی کے وسط میں بھی اس وبا سے درجنوں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ حکومت کی وائرس کے پھیلائو اور روک تھام کے حوالے سے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے میں 4دہائیوں سے کوئی ریسرچ سیل ہی قائم نہ ہوسکا۔ 2001ء سے 2023ء کے دوران تو قریباً ہر سال ہی لورالائی اور موسیٰ خیل اضلاع سے کانگو وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ کانگو کی روک تھام کے لیے صوبائی حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ دوسری جانب ہم ان سطور کے ذریعے عوام الناس سے گزارش کریں گے کہ 24؍25روز بعد عیدالاضحیٰ کا تہوار آرہا ہے۔ اس مناسبت سے ملک کے طول و عرض میں لاکھوں لوگ قربانی کی غرض سے جانور لاتے ہیں۔ اس موقع پر خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ لوگ کانگو وائرس کی زد میں نہ آسکے۔ جانوروں کے پاس بچوں کو لے جانے سے گریز کریں۔ مویشیوں کی دیکھ بھال اچھے سے کریں۔ اُن کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔ غیر ضروری اُنہیں ہاتھ لگانے سے گریز کریں۔ اُنہیں اگر ہاتھ لگائیں تو اس کے لیے دستانوں کا استعمال کریں۔ پوری آستین کے کپڑے پہنیں۔ احتیاط کو افسوس سے بہتر کہا جاتا ہے۔ اس طرح وہ خود اور اُن کے پیارے کانگو وائرس سے محفوظ رہ سکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button