Columnمحمد مبشر انوار

ہما

 

محمد مبشر انوار( ریاض)

قوموں پر مشکل وقت آنا کوئی بڑی بات نہیں کہ زندہ قومیں نہ صرف ایسے مشکل وقت سے بحیثیت مجموعی کامیابی سے نکل آتی ہیں بلکہ سمت کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی کی مضبوط بنیادیں بھی رکھ دیتی ہیں تا کہ آنے والے حکمران ان نشانات پر چلتے ہوئے ملک و قوم کی کشتی کو منجدھار سے کنارے پر بخوبی لے آئیں۔ بالعموم ہوتا یہی ہے کہ اہل جانشین اسلاف کے چھوڑے ہوئے نشانات پر یکسوئی کے ساتھ چلتے ہیں اور موقع و محل کی مناسبت اور وقت کی ضرورت کے تحت بروقت اقدامات کرتے ہوئے ملک و قوم کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ یوں ملک و قوم تعمیر و ترقی و خوشحالی کی ڈگر پر رواں دواں رہتا ہے، عوام خوشحال، مطمئن اور اپنے حکمرانوں سے خوش نظر آتی ہے بصورت دیگر حاکموں کی غلطیوں کی سزا نہ صرف قوم کو بھگتنا پڑتی ہے بلکہ بسا اوقات ملکی سالمیت و آزادی تک خطرے کی نذر ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی ایک خوبی ضرور ہے کہ قدرتی آفات کا مقابلہ پاکستانی بخوبی کرتے آئے ہیں اور دنیا بھر میں پاکستانیوں کی قوت مدافعت غیر معمولی رہی ہے لیکن بدقسمتی سے انسانی پیدا کئے گئے بحرانوں سے نمٹنا پاکستانیوں کے لئے کاروارد ہے کہ بقول منیر نیازی اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔۔ میں نے اک دریا کے پار اتر کے دیکھا، حقیقت یہی ہے کہ انسانی رویوں سے پیدا کردہ بحرانوں کے پیچ در پیچ خم سے الجھے، اس سے نکلنے کی ہر ہر کوشش میں مزید دلدل میں دھنستے جاتے ہیں۔ اسی طرح کے ایک بحران سے اس وقت بھی پاکستان اور پاکستانی نبرد آزما ہیں لیکن بظاہر یہ گتھی سلجھتی نظر نہیں آتی اور نہیں معلوم کہ اس گتھی کو سلجھانے کے لئے فقط ایک نو مئی کافی ہو گا یا خدانخواستہ بدنصیب عوام کو کسی اور ایسی صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا؟۔ کوئی بھی ذی شعور پاکستانی، کسی بھی حیثیت یا صورت میں نو مئی کے واقعات کی ستائش نہیں کر سکتا اور نہ کرنی چاہئے لیکن اس کی آڑ میں کوئی ناانصافی ہو یا بے گناہوں کو دار پر لٹکایا جائے یا ان کے مستقبل سے کھیلا جائے، یہ بھی کسی صورت کسی ذی شعور پاکستانی کی خواہش نہیں ہے۔ آرزو بس اتنی ہے کہ تمام تر واقعات کا انتہائی غیر جانبداری اور باریک بینی کے ساتھ تفتیش ہو، ذمہ دارا ن کو قرار واقعی سزا ملے تا کہ مستقبل میں کسی کو بھی ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو، بصورت دیگر بصد احترام جانبدارانہ کارروائی و تفتیش عوام کے دلوں کو متنفر تو ضرور کر سکتی ہے، راکھ میں سلگتی چنگاریاں تو چھوڑ سکتی ہے، اس کو خاک بنانے میں ناکام رہے گی کہ یہی قانون قدرت ہے۔ بارہا اس امر کا اظہار ہو چکا ہے کہ سیاسی قوتوں کو عقل کے ناخن لینا چاہئے اور ملک کی خاطر مل بیٹھ کر سیاسی معاملات کو حل کرنے کی طرف جانا چاہئے نہ کہ ایک دوسرے پر دبائو بڑھانے کی ضد میں سیاسی درجہ حرارت کو اس قدر بڑھا دیا جائے کہ سیاستدانوں کے ہاتھ کچھ بھی نہ رہے، جس کے امکانات بہر طور ہمیشہ پاکستانی سیاست میں رہتے ہیں۔ اس وقت بھی صورتحال انتہائی مخدوش نظر آتی ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت اس وقت تحریک انصاف کے حصے بخروں میں اپنا حصہ بقدر جثہ تلاش کرنے کی جستجو میں بائولی نظر آتی ہے، کسی سیاستدان کی طرف سے نظریات یا اخلاقیات کا مظاہرہ دیکھنے کو نہیں مل رہا بلکہ ہر سیاسی جماعت کوشش میں ہے کہ تحریک انصاف سے ٹوٹنے والے ہیوی ویٹ اس کی جماعت میں شامل ہو جائیں تا کہ اگلی حکومت میں ان کی جگہ پکی ہو جائے۔ دوسری طرف تحریک انصاف سے الگ ہونے والوں کی رفتار اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ اب یونین کونسل کی سطح تک کے عہدیدار اس سے علیحدگی اختیار کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں، زمان پارک کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں بلکہ بقول ریاستی اداروں اس کی اصل شکل کو بحال کیا جا رہا ہے، جو تحریک انصاف کے کارکنان سے وا گزار کرائی جا رہی ہے، عمران خان کی حفاظت کے نقطہ نظر سے وہاں بنی ہوئی چیک پوسٹس وغیرہ کو ختم کیا جار ہا ہے، تاکہ مکینوں کی آمدورفت کے لئے سہولت ہو۔ اس حوالے سے ضمنا عرض ہے کہ کیا اب عمران خان کی سیکیورٹی کا درپیش مسئلہ ختم ہو گیا یا نو مئی کے واقعات کے بعد اب عمران خان کی جان خطرے سے باہر آ چکی ہے؟۔ ویسے حیران کن طور پر عمران خان اب معمول کے مطابق عدالتوں میں بھی پیش ہو رہے ہیں اور ان کی آمد و رفت پر کسی قسم کا کوئی جلوس بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا، کارکنان بھی نظر نہیں آرہے اور عمران خان پر کسی قسم کا کوئی حملہ یا تشدد ہوتا بھی نظر نہیں آرہا، تو کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ نو مئی کے پیچھے یہی راز پوشیدہ تھا؟۔ بہرکیف تحریک انصاف سے نکلنے والوں اور ان کو اکٹھا کرنے والے اس وقت اپنی بھرپور کوششوں میں ہیں اور سب سے زیادہ پر امید زرداری نظر آتے ہیں کہ ان کے رابطے کہیں یا خواہش یا پس پردہ یقین دہانیاں کہ وہ لاہور میں بیٹھے منحرف اراکین کے ساتھ ملاقاتیں فرما رہے ہیں۔ زرداری کے علاوہ تحریک انصاف سے الگ ہونے والے اراکین کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے، اس وقت سب سے زیادہ متحرک فواد چودھری، فیصل واوڈا اور جہانگیر ترین نظر آ رہے ہیں، ان سب میں فی الوقت جہانگیر ترین کا پلڑا سب سے بھاری اس لئے لگ رہا ہے کہ جہانگیر ترین نے تحریک انصاف کی حکومت بنانے کے لئے سب سے زیادہ اپنے وسائل مہیا کئے تھے۔ اس پس منظر میں جہانگیر ترین کے تعلقات الیکٹ ایبلز سے قدرے زیادہ اور مضبوط نظر آتے ہیں تو دوسری طرف شنید یہ بھی ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں جہانگیر ترین کا گروپ بہرحال قومی اسمبلی میں تحریک انصاف سے ان کی شہ پر ٹوٹا تھا، گو کہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بعد ازاں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ کے امیدوار بن گئے تھے لیکن اس وقت تک جہانگیر ترین نئی جماعت بنانے پر رضامند نہیں تھے۔ دوسری اہم بات کہ راجہ ریاض کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کہ جس میں وہ مسلم لیگ ن کی قیادت سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت بناتے وقت مسلم لیگ ن ان کے ناز نخرے اٹھا رہی تھی اور اب انہیں ’’ پشانتی‘‘ بھی نہیں، راجہ ریاض کی مسلم لیگ ن سے ناراضی کا مظہر دکھائی دیتی ہے۔ تیسری اہم بات یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے تئیں اس وقت یہ سمجھ رہی ہے کہ اس کے پاس ایسے افراد کی گنجائش نہیں جس کا اظہار طلال چودھری اپنی پریس کانفرنس میں کر چکے ہیں کہ وہ تحریک انصاف سے الگ ہونے والے اراکین کو اپنی جماعت کا حصہ بنتے نہیں دیکھ رہے اور جماعت سوچ سمجھ کر اس کے متعلق فیصلہ کر ے گی۔ بات تو ٹھیک ہے کہ مسلم لیگ ن کے وہ اراکین جو ابتلاء میں اس کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، انتخابی ٹکٹ کے حقدار وہی ہیں علاوہ ازیں! پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن ووٹرز کا رویہ بھی بخوبی دیکھ چکی ہے کہ کس طرح ان منحرف اراکین کی درگت بنی ہے۔
سیاسی افق پر متحرک سیاسی قوتوں کو اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے نکالے جانے کے بعد اور ان کی سیاسی جماعت کے خلاف مسلسل اقدامات کے باعث فوری طور پر عمران خان کا اقتدار میں واپس آنا ممکن نہیں جبکہ دوسری طرف عمران کا اپنا رویہ، جسے ان کے مخالفین غلط قرار دے رہے ہیں البتہ جمہوری عمل میں حقائق کو آشکار کرنا اور جمہوریت کے فروغ کی خاطر دیگر سیاسی جماعتیں خود بھی ایسے روئیے کا اظہار کرتی رہی ہیں لیکن چونکہ اس وقت وقت کا دھارا عمران مخالف ہے، اس لئے تنقید کا رخ عمران خان کی طرف ہے۔ اس پس منظر میں زرداری صاحب اپنی پٹاری اٹھائے لاہور میں یونہی نہیں موجود کہ انہیں یقین ہے کہ جس طرح بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے کراچی ’’ فتح‘‘ کیا ہے بعینہ عام انتخابات میں بھی وہ کراچی سمیت سندھ فتح کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اگر جنوبی پنجاب کے الیکٹ ایبلز ان کے ساتھ مل جائیں تو وہ با آسانی وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت بناکر اپنے ولی عہد کو وزارت عظمیٰ پر براجمان کروانے کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکیں گے۔ شنید یہ بھی ہے کہ کسی حد تک طاقتوروں کا منصوبہ بھی ایسا ہی ہے، دیکھتے ہیں کہ اگلے اقتدار کا ہما کس کے سر سجتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button