ColumnImtiaz Ahmad Shad

ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے

ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے

امتیاز احمد شاد
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: لوگوں پر بہت سے سال ایسے آئیں گے جن میں دھوکہ ہی دھوکہ ہو گا۔ اس وقت جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا۔ بددیانت کو امانت دار تصور کیا جائے گا اور امانت دار کو بددیانت اور ’’ رویبضہ‘‘ یعنی نااہل اور فاسق و فاجر لوگ قوم کی نمائندگی کریں گے۔ کسی بھی معاشرے کی تباہی کا سبب ناانصافی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ بددیانت اور نااہل حکمران ہمیشہ انصاف کا دروازہ بند کرتے ہیں تاکہ وہ کسی گرفت میں نہ آسکیں۔ طبقاتی تقسیم ان کا منشور ہوتا ہے اور لوٹ مار کی دولت بچانا ان کا مقصد حیات۔ ان حالات میں ریاست اور ریاستی ادارے کمزور ہوتے ہیں اور عوام بد دل ہو کر ریاست کے ساتھ ٹکرائو کی ٹھان لیتی ہے جس کا نتیجہ ملک میں انتشار کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ انصاف قوموں کی زندگی کو توانا اور متحد رکھتا ہے۔ بے شک اِس حقیقت میں کوئی شُبہ نہیں لیکن اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کو دیکھیں تو معاملہ اِس سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’ کوئی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں‘‘۔ ظلم اور نا انصافی ایسے ناسور ہیں جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر ریاست کو کھوکھلا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ عظیم چینی فلسفی کنفیوشس سے کسی نے پوچھا کہ ’’ اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں ہوں۔ انصاف، معیشت اور دفاع اور بہ وجہ مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟‘‘۔ کنفیوشس نے جواب دیا’’ دفاع کو ترک کر دو‘‘۔ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا ’’ اگر باقی ماندہ دو چیزوں انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے؟ ‘‘۔کنفیوشس نے جواب دیا : ’’ معیشت کو چھوڑدو‘‘ ۔ اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا۔ ’’ معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کر دینگے؟‘‘۔ تب کنفیوشس نے جواب دیا۔ ’’ نہیں! ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ ایسا ہوگا کہ انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے‘‘۔ کنفیوشس کی اس فلاسفی کا عملی مظاہرہ تاریخ اسلام میں غزوہ خندق کے موقع پر پیارے آقاؐ کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی اس جماعت میں دیکھا جا سکتا ہے جنہوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کردن رات خندق کھودی اور ہر لحاظ سے مضبوط دشمن کو شکست دی۔ آج ہمارے ملک میں نا انصافی کا دور، دورہ ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم کہیں اپنا وجود کھو ہی نہ بیٹھیں۔ قوم سستی اور کاہلی کا شکار ہو چکی، حکمران غافل اور فاسق ہو چکے ان حالات میں ترقی اور خوشحالی کی بحث نادانی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ قومیں زمین میں دھنس جاتی ہیں جو کاہلی کو اپنا وتیرہ بنا لیتی ہیں۔ جو مال جمع کرتی اور چیونٹیوں کی طرح اپنے اپنے زمین دوز گودام بھرتی رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے لیے فرماتے ہیں: ’’ پس ہم نے اُنہیں زمین میں دھنسا دیا‘‘۔ زمین پر رینگتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرح مرگِ مفاجات کا شکار ہوجانے سے تو کہیں بہتر ہے کہ آگ کے دریا میں چھلانگ لگا دی جائے۔ ضد، انا اور بدلے کی آگ نے ہمیں اس قدر اندھا کر رکھا ہے کہ ریاست مٹھی میں ریت کی ماند کھسک رہی ہے اور ہم نادانوں کی طرح اپنے گر د خود فریبی کا جال بنے جا رہے ہیں۔ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ غور کریں ریاست پاکستان کے باشندوں نے 76سال میں76 ماہ بھی امن اور سکون کے نہیں گزارے۔
بقول منیر نیازی:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
بدقسمتی ہے پاکستان جب بھی ترقی کی جانب قدم اٹھاتا ہے، زنجیریں اس کے پائوں جکڑ لیتی ہیں۔ کیا ہمیں یاد نہیں کہ ماضی میں ہمارے ساتھ کیا کیا ہوتا رہا؟ جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں تاریخ کے اوراق میں اس قوم کا کبھی تذکرہ تک نہیں ہوتا۔
16 دسمبر کا دن پاکستان کی تاریخ میں شہیدوں کے لہو، دشمنوں کی دشمنی کی لگائی آگ سے اٹھتے دھوئیں میں بسا ہوا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے بچوں پر ڈھائی جانی والی قیامت نے پوری قوم کو دہشت گردوں کے خلاف یکجا کر دیا۔ سیاسی و عسکری قیادت، ارباب علم و دانش، سیاسی و مذہبی جماعتوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئی بلاامتیاز و بلاتفریق انسانیت دشمنوں کے خاتمے کا عزم مصمم کیا۔ تاریخ ہمیں اس قیامت خیز سانحہ کی ہمیشہ یاد دلاتی ہے جس دن پاکستان دو لخت ہوا اس تاریخ سے بہت تلخ یادیں وابستہ ہیں اس سانحہ کو سانحہ مشرقی پاکستان، سقوط ڈھاکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہماری تاریخ میں کئی سانحے رونما ہوئے مگر ہم نے ان سانحات سے سبق کیوں نہیں سیکھا یہ سوال ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں آتا ہے؟ یاد رہے جو قومیں اپنے ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتیں، غلطیوں کا ازالہ نہیں کرتیں، اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتی ہیں وہ تاریخ کے اوراق سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہیں۔ صاحبان فکر ونظر نے سانحہ کے اسباب و واقعات کی چشم کشا یادداشتوں پر بہت کچھ لکھا ہے جو آنکھوں کو پرنم کر دیتا ہے۔ دسمبر 1971ء کو جہاں نوے ہزار پاکستانی فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا گیا وہیں پاکستان کی محبت میں سرشار لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ خواتین کی عزتوں کو پامال کیا گیا جو تین لاکھ پاکستانی وہاں بچ گئے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گے، ان کو مہاجرین کے کیمپوں میں محصور کر دیا گیا، جہاں پر وہ آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہماری تاریخ گواہ ہے جب ہم متحد ہوتے ہیں بڑے سے بڑے سانحات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور جب ہم بکھرتے ہیں تو پھر بکھر کر ٹوٹ جاتے ہیں۔9مئی کا دن یقینا پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ جو ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر یاد رہے جو اس وقت ہو رہا ہے وہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ قوم سمجھتی ہے کہ شرپسند عناصر کی اس حرکت سے ملک و قوم کا سر شرم سے جھکا ہے مگر قوم یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ اس کی آڑ میں وہ لوگ بھی شہیدوں میں اپنا نام لکھوا رہے ہیں جو کل تک اینٹ سے اینٹ بجانے اور ڈان لیکس، میمو گیٹ میں ملوث تھے۔ افسوس واقعات سے بڑے سانحات یہ ہورہی ہیں کہ وطن عزیز میں لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کی بد ترین لپیٹ میں ہیں، نا انصافی کا بازار اس حد تک گرم ہے کہ کمزور آدمی ظلم کی حدت میں جل کر بھسم ہو چکا۔ تعلیم، صحت اور انصاف ریاست پاکستان سے کب کے رخصت ہو چکے۔ دہشت گردی کی وجہ سے ہونے والے سانحات ہوں یا سانحہ مشرقی پاکستان ہو یا پھر 9مئی کے دلخراش واقعات سب کے سب نے ریاست کو کمزور کیا اور عوام کو مایوس۔ ابھی وقت ہے ریاست کے باشندوں کو جوڑا جائے، اعتماد کی فضا قائم کی جائے، چند لوگوں کی خوشی کی خاطر ریاست کو آگ میں نہ جھونکا جائے۔ صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔ یاد رکھیں اجڑے گلشن میں بہار آ سکتی ہے مگر ٹوٹے دل کبھی نہیں جڑتے۔ دل توڑنے کے بجائے جوڑنے میں پہل کرنی ہو گی۔ ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button