Editorial

غریب عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کی ضرورت

غریب عوام کو خوشحالی سے
ہمکنار کرنے کی ضرورت
پاکستان کے عوام اس وقت انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران ہونے والی مہنگائی نے اُن کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا ہے۔ غریبوں کے لیے ہر نیا دن کٹھن آزمائش کا حامل ہوتا ہے۔ پچھلے برسوں کے دوران مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری کے عفریت نے بھی اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں۔ سابق حکومت مسائل کے حل کی جانب وہ توجہ نہ دے سکی، جس کی ضرورت تھی۔ معیشت کے لیے ناقص پالیسیوں کے باعث مشکل صورت حال پیدا کی گئی۔ لاتعداد چھوٹے کاروباروں کو لوگوں کو نقصانات کے باعث بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہر شے کے دام دو تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ آٹا، چینی، چاول، چائے کی پتی، تیل، گھی، دودھ وغیرہ کے نرخ آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر براجمان ہیں۔ اس صورت حال میں غریبوں کے لیے اپنے گھر کا معاشی نظام چلانا کسی طور آسان نہیں۔ اُنہیں بے پناہ پاپڑ بیلنے پڑتے اور کڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے، تب جاکے وہ دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن بنا پاتے ہیں۔ آمدن وہی ہے، تاہم مہنگائی کی وجہ سے اخراجات حد درجہ تجاوز کرچکے ہیں۔ موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے، معیشت کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اُسے بعض مشکل فیصلے بھی لینے پڑے ہیں، جن کے ثمرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔ موجودہ حکومت ملک بھر کے عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہے اور اس حوالے سے کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو عوامی مسائل کا ادراک ہے اور وہ اس حوالے سے بارہا اظہار خیال کرچکے ہیں۔ وزیراعظم نے گزشتہ روز کراچی میں کے فور منصوبے کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کی اور خطاب میں کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا، کراچی کے کروڑوں لوگوں کو پانی پہنچانے کیلئے وزیراعلیٰ کا ہاتھ پکڑا جاتا، اس کو (عمران خان) کوئی فکر نہ تھی، پاکستان کے ہر منصوبے پر ان کی یہی انا پرور سوچ تھی، چور کا نعرہ لگانے والا اب خود کیس میں آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج چیلنج ہے کہ ہمیں اس منصوبے کو فی الفور مکمل کروانا ہے، میں یقین دلاتا ہوں کہ میرے لیے کے فور منصوبہ تمام منصوبوں سے اہم ہے، اگر صاف پانی پینے کیلئے نہیں تو کہاں کی آسودہ زندگی، جو شہر سب سے بڑا کمائو شہر ماں کی طرح سب کو گود میں لیا ہو، جو شہر سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہوں وہاں پانی پر سیاست ظلم عظیم ہے، جو ہوگیا وہ ہوگیا، یقین دلاتا ہوں کہ بجٹ میں کے فور کو پہلی ترجیح دوں گا۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ ہم مل کر مسائل کو حل کریں گے اور پاکستان کی نائو کو کنارے لگائیں گے، ان شاء اللہ ہم تمام مسائل کو شکست فاش دیں گے اور پاکستان کو کھویا ہوا مقام دلائیں گے۔ ملک کی ترقی و خوش حالی کا راز اتحاد و یکجہتی میں ہے۔ مزید برآں وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں مہنگائی اتنی ہے کہ سمجھ نہیں آتا منہ چھپاکر کہاں جائوں؟، سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ناممکن ہے، 9مئی کو وہ ہوگیا جو دشمن کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، قوموں کی زندگیوں میں حادثات ہوتے ہیں لیکن کبھی ایسے واقعات نہیں ہوئے، پاکستان میں احتجاج ہوئے لیکن کبھی کسی نے اس طرح ملک دشمنی نہیں کی، 1965ء میں بھارت بھی ایسا نہ کر سکا۔ جمعہ کو کاروباری شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ بزنس مین طبقے کی پاکستان کے لیے بہت بڑی خدمات ہیں، جب ہم نے حکومت سنبھالی تو مہنگائی زوروں پر تھی، گزشتہ سال تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آیا جس نے تباہی مچائی، حالیہ سیلاب کا اکانومی پر تباہ کن اثر پڑا۔ وزیراعظم نے کہا کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا، کرونا کے دوران ایل این جی کی قیمتیں تین ڈالر تھیں لیکن معاہدے نہیں کئے گئے، ایل این جی معاہدے نہ کرنے پر پاکستان کو نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کو توڑ دیا تھا، جس کے بعد آئی ایم ایف نے کڑی شرائط لگائیں، آئی ایم ایف کی تباہ کن شرائط ماننا پڑیں، دوست ممالک کی مدد سے آئی ایم ایف معاہدے میں جو گیپ تھے پورے کر دئیے۔ شہباز شریف نے کہا کہ دوست ممالک پاکستان کے لیے بے پناہ اچھی خواہشات رکھتے ہیں، چین نے اپنے کمرشل لون رول اوور کرکے دوستی کی مثال قائم کی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں ایک سال سے سیاسی عدم استحکام سب کے سامنے ہے، جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا معاشی استحکام کیسے آئے گا؟ اقتصادی طور پر بے پناہ چیلنجز ہیں، بجٹ آرہا ہے، تسلیم کر رہا ہوں مہنگائی اتنی ہے کہ سمجھ نہیں آتا منہ چھپا کر کہاں جائوں۔ شہباز شریف نے کہا کہ غریب کے منہ میں نوالہ نہیں، غریب چاہتا ہے اسے ریلیف ملے، جذبات سے بھرا ہوا ہوں، دل سے باتیں کررہا ہوں، وہی زمانہ آنا چاہیے جب پاکستان کا دنیا میں طوطی بولتا تھا، کہاں گیا وہ وقت اس وقت کو واپس لانا چاہیے۔ شہباز شریف نے کہا کہ تب تک ترقی نہیں ہوسکتی جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا، ترقی پاکستان کے سیاسی استحکام سے جڑی ہوئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف غریب عوام کے مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ضروری ہے کہ وہ غریبوں کی زندگیوں میں آسانی لانے کے لیے موثر اقدامات کریں، آنے والے وفاقی بجٹ میں اُن کو بڑا ریلیف فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ عوام کو خوش حالی کی راہ پر ہرصورت گامزن کیا جائے۔ مہنگائی کے عفریت کو قابو کیا جائے۔ پاکستانی روپے کی بے وقعتی کا مستقل حل نکالا جائے اور بے قابو ہوتے ڈالر کے نرخ کو کنٹرول کیا جائے۔ معیشت کے پہیے کو تیزی سے رواں دواں رکھنے کا بندوبست کیا جائے۔ توانائی کی سستے ذرائع پر توجہ مرکوز کی جائے۔ مسائل کا حل وسائل کے ذریعے نکالا جائے۔ قرضوں کے بجائے وسائل کے درست استعمال پر انحصار کیا جائے۔ ملک عزیز قدرت کے عظیم خزانوں سے مالا مال ہے۔ زرعی ملک ہونے کے سبب یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ زراعت پر خصوصی توجہ دی جائی۔ زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کاشتکاروں کو جدید طریقوں سے آشنا کرایا جائے۔ ملکی سرزمین پر چھپے قدرتی خزانوں کی کھوج کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور انہیں صحیح خطوط پر بروئے کار لایا جائے۔ سیاحت کے حوالے سے پاکستان دُنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ سیاحت کی صنعت کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ دوسری جانب کے فور منصوبے کا افتتاح یقیناً ایک اہم کامیابی ہے۔ ضروری ہے کہ اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرکے اہلیان کراچی کو پانی کی قلت سے نجات دلائی جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ حکومت نے نیک نیتی کے ساتھ مسائل کے حل کی جانب توجہ دی تو ضرور تمام تر مسائل حل ہوسکیں گے اور ملک و قوم ترقی اور خوش حالی کی جانب گامزن ہوسکے گی۔
ڈرگ مافیا کیخلاف کارروائیوں کا احسن فیصلہ
کئی عشروں سے ملک بھر میں منشیات کا عفریت بڑے پیمانے پر تباہیاں مچا رہا ہے۔ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ منشیات کی لت کا شکار ہے۔ لاتعداد نوجوان نشے کی عادت میں پڑ کر اپنی زندگیاں برباد کر چکے، بے شمار ایسے ہیں جو اَب اپنے اردگرد کے حالات سے بے خبر نشے کی طلب پوری کر رہے ہوتے ہیں، اُن کو اس کی چنداں پروا نہیں ہوتی کہ ان کے آس پاس کیا ہورہا ہے، ان کی اس حرکت سے ان کے اہل خانہ کس کرب سے گزر رہے ہیں۔ کتنے ہی قابل ذہن نشے کے باعث اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ آج بھی ملک کے طول و عرض میں منشیات کی فروخت کا گھنائونا دھندا جاری ہے۔ کم عمر بچوں سے لے کر جوان تک نشے کی جانب تیزی سے راغب ہورہے ہیں۔ اسی طرح نشے کی لت کا شکار ایسے لوگ بھی ہیں، جو بظاہر نارمل زندگی گزار رہے ہیں، لیکن وہ باقاعدگی سے نشہ کرتے ہیں۔ ملکی آبادی کا بہت بڑا حصہ منشیات کی عادت کا شکار ہے۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ اگر اب بھی اس صورت حال کا تدارک نہ کیا گیا تو آگے چل کر حالات مزید سنگین شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اچھی اطلاع یہ آئی ہے کہ پنجاب میں منشیات کے خلاف اقدامات کے حوالے سے بڑے فیصلے کیے گئے ہیں۔ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے وزیراعلیٰ آفس میں وفاقی وزیر نارکوٹکس کنٹرول نواب زادہ شاہ زین بگٹی نے ملاقات کی۔ محسن نقوی اور شاہ زین بگٹی نے شہدائے وطن اور ان کے خاندانوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ محسن نقوی نے تمام شرپسندوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ شہدائے وطن کی یادگاروں کو نقصان پہنچا کر پاکستان کی اساس پر حملہ کیا گیا۔ کوئی بھی شرپسند قانون کے مطابق قرار واقعی سزا سے نہیں بچ پائے گا۔ محسن نقوی اور شاہ زین بگٹی کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں منشیات کی خرید و فروخت اور استعمال روکنے کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ منشیات کی خرید و فروخت اور استعمال روکنے کے لیے مزید موثر اقدامات کیے جائیں گے اور پنجاب کے داخلی و خارجی راستوں کی کڑی مانیٹرنگ کی جائے گی۔ اجلاس میں منشیات کے کالے کاروبار اور استعمال کی روک تھام کے لیے سخت چیک اینڈ بیلنس اور ڈرگ مافیا کے خلاف آپریشن مزید تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ نگراں وزیراعلیٰ نے کہا کہ تعلیمی اداروں کے باہراور آن لائن منشیات فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون جاری رہے گا۔ پنجاب حکومت منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے اسپتال کی تعمیر کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گی۔ منشیات کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے فیصلے لائق تحسین ہیں۔ ضروری ہے کہ ان پر من و عن عمل درآمد ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ اسی طرح ملک کے دیگر صوبوں کی حکومتیں بھی پنجاب حکومت کی تقلید کرتے ہوئے منشیات فروشوں کے خلاف گھیرا تنگ کریں۔ ان کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے۔ کارروائیاں تسلسل کے ساتھ جاری رکھی جائیں۔ ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ منشیات فروشوں کا قلع قمع کرنے کے ساتھ معاشرے میں ہر قسم کی منشیات کی خرید و فروخت کا راستہ روکا جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button