Columnمحمد مبشر انوار

دو راستے۔۔۔ محمد مبشر انوار

دو راستے۔۔۔

محمد مبشر انوار( ریاض)
قدرت انسانوں کو انفرادی طور پر اور گروہی و اجتماعی و بطور قوم، زندگی گزارنے کے لئے، ہمیشہ دو راستے دیتی ہے کہ کسی بھی حیثیت میں انسان کو ان میں سے ایک راستہ چننا ہوتا ہے جو اس کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ انفرادی طور پر غلط راستہ چنے تو صرف اس کی زندگی تباہ و برباد ہوتی ہے جبکہ باقی معاملات میں اپنے حلقہ اثر کے مطابق تباہی و بربادی سے متاثر کرتا ہے بالخصوص بطور حکمران یا بااختیار ہوتے ہوئے غلط فیصلے ملک و قوم کو تباہی و بربادی کے راستے پر چلاتے ہوئے کھڈے بلکہ لحد میں اتار دیتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے کسی بھی شخص کو اپنے فیصلے اپنے تئیں سب سے زیادہ موزوں نظر آتے ہیں اور سامنے ہوتی تباہی، خوشامدیوں اور واہ واہ کرنے والے طبلچیوں کی بنائی ہوئی تصویر میں دکھائی نہیں دیتی تاوقتیکہ سب کچھ زمین بوس نہ ہوجائے۔ وطن عزیز میں یہ کھیل مسلسل جاری ہے اور پسند و ناپسند میں ملک و قوم کی تقدیر سے اتنی بری طرح کھیلا جار ہا ہے کہ الامان الحفیظ کہنے کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچتا، تقریبا ہر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی معکوس کی طرف بگٹٹ دوڑے جا رہے ہیں، لگتا ہے کہ انا و ضد نے آنکھوں کے ساتھ ساتھ باطنی بصیرت و بصارت کی بینائی بھی ختم کر دی ہے کہ سامنے کی تباہی دیکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ ترقی معکوس کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دو ایسے سیاسی قائدین کو ’’ مساوی حیثیت‘‘ دینے کے لئے ملک میں موجود سیاسی رہنما کو ہر صورت قانونی مسائل میں پھنسانے کی کوشش اس لئے کی جا رہی ہے کہ اس سے بیرون ملک موجود سیاسی قائد کو وطن واپس لانے کے لئے مذاکرات کئے جائیں اور دونوں قائدین کو یا سیاسی کھیل سے باہر کیا جائے یا دونوں رہنمائوں کو قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سیاسی کھیل کا اس طرح حصہ بنایا جائے کہ دونوں قائدین ہمیشہ کے لئے سرنگوں رہیں، لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ اختیار کا نشہ اذہان پر ایسا سوار ہے کہ بغیر حیل و حجت، بغیر کسی قانونی کارروائی یا کسی عدالتی کارروائی، اشارہ ابرو سے کسی کو بھی ملزم کی بجائے براہ راست مجرم بنانے پر تلے ہیں۔ کوئی بھی محب وطن پاکستانی نو مئی کے واقعات کی کسی بھی صورت ستائش نہیں کر سکتا اور نہ ہی ایسے عناصر کو سزا کے بغیر دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس ایک دن ہونے والے مختلف واقعات کی روشنی میں کم از کم اتنا سوال ضرور کر سکتا ہے کہ جو حفاظتی انتظامات، اہم و دفاعی و قومی مقامات پر اس روز کئے گئے تھے کیا عام حالات میں بھی حفاظتی انتظامات ایسے ہی ہوتے ہیں؟۔ اگر عام حالات کے برابر بھی ایسے حفاظتی انتظامات نہیں تھے تو کیوں اور کس کے کہنے پر یہ لاپرواہی کی گئی؟۔ اس کا ذمہ دار کون تھا؟۔ ایک وفاقی وزیر، وزیر داخلہ کا گھر تو اس توڑ پھوڑ کے ماحول میں بھی پنجاب پولیس نذر آتش ہونے سے بچا لیتی ہے لیکن اہم فوجی رہائش، جہاں اہلکاروں کی ڈیوٹی بھی ہوتی ہے، اس سے کہیں پہلے پنجاب پولیس کی امن و امان کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن اس گھر کو مکینوں کی موجودگی کے باوجود ( بعد ازاں سنگین صورتحال کے پیش نظر نکل جاتے ہیں) ہجوم سے بچانے میں ناکام کیوں ہوتی ہے؟۔ یہ سوالات یقینی طور پر ہر اس شخص کے ذہن میں کلبلاتے ہیں، جو اقتدار کی غلام گردشوں کو تھوڑا سا بھی جانتا ہے، سمجھتا ہے۔ بعد ازاں اس ساری توڑ پھوڑ، آتشزدگی کے فورا بعد تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنان کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے اور اس کی صف اول کی قیادت بھی گرفتاری کا سامنا کرتی ہے۔
بتدریج گرفتار قائدین جیلوں سے رہا ہوتے ہیں اور تواتر سے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ،اپنے قائد عمران خان پر اس ساری صورتحال کی ذمہ داری ڈالتے نظر آتے ہیں اور اس کے ساتھ ریاست پاکستان کے وجود کو بنیادی قرار دیتے ہوئے سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسی صورتحال کا سامنا کئی دیگر سیاسی جماعتوں کو رہا ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی جماعت اپنے قد سے زیادہ اٹھنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے پر کاٹنے کے لئے یہی مشق کی جاتی رہی ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو بھی عوام سے ختم نہیں کیا جا سکا تاوقتیکہ اس کی قیادت کی اپنی پالیسیوں نے اس سیاسی جماعت کی عوامی حمایت کو ختم نہیں کیا۔ بہرکیف تحریک انصاف سے نکلنے والے سیاسی رہنما بظاہر صرف تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کر رہے بلکہ وہ سیاست سے ہی کنارہ کش ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں، جس پر کم از کم میں ذاتی طور پر یقین کرنے کے لئے قطعی تیار نہیں، کہ یہ سب سیاستدان بغیر سیاست کے زندہ نہیں رہ سکتے البتہ ان کا رخ، سمت یا وفاداری اسی طرف ہو گی جہاں ان کی سیاست کو آکسیجن فراہم کرنے والے اشارہ کریں گے یا اجازت دیں گے، بدقسمتی سے یہی ہماری سیاسی تاریخ ہے کہ عین وقت پر جب قیام کا وقت آتا ہے، ہمارے سیاسی قائدین سجدے میں نظر آتے ہیں۔ بہرحال عمران خان نے اپنے سیاسی رفقاء کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے اور واضح کہہ دیا ہے کہ اپنی جان، مال، عزت و آبرو بچانے کے لئے جو کہا جا رہا ہے، وہ کر لیں۔ کنگز پارٹی کے لئے اس وقت کئی ایک مہرے بڑھائے جا چکے ہیں، تحریک انصاف سے الگ ہونے والے سیاسی پرندوں کے لئے دانہ دنکا ڈالا جا رہا ہے۔ ان سیاسی پرندوں کے لئے کسی بھی جال پر بیٹھنے کا مطلب صرف ایک ہی ہے کہ منصوبہ سازوں نے عمران خان کی سیاسی طاقت کو کمزور کر دیا ہے اور اس کے بعد انتخابات سے قبل ہی اپنے طور پر انتخابی نتائج متعین کر لئے ہیں لیکن اس کے باوجود عمران خان کا خوف انہیں کسی طور چین نہیں لینے دے رہا ۔ عمران خان پر مسلسل دبائو بڑھایا جا رہا ہے اور شنید ہے کہ عمران خان کو غیر علانیہ طور پر زمان پارک میں نظر بند کیا جا چکا ہے، اس میں کس حد تک سچائی ہے ، اس کا اظہار ہونے میں زیادہ دیر باقی نہیں اور کچھ عرصہ بعد حقیقت منظر عام پر آ جائے گی۔ البتہ یہ حقیقت سامنے ہے کہ عوام اس وقت بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور گزشتہ انتخابات میں الیکٹ ایبلز کی بیساکھیوں کے بغیر بھی عمران خان واضح اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جو منصوبہ سازوں کو قطعی قابل قبول نہیں جبکہ ماضی کی مشق کے مطابق منصوبہ ساز ایسا کوئی انتہائی اقدام کرنے سے بھی گریز کرر ہے ہیں کہ جس کے باعث لمبے عرصہ کے لئے پاکستانی سیاست لاشوں کے گرد گھومتی رہے۔ جناب حسن نثار نے اس صورتحال پر حسب روایت انتہائی دلچسپ، گہرا اور معنی خیز تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عمران خان کو لمبے عرصہ کے لئے زنداں میں رکھا جاتا ہے تو وہ نیلسن منڈیلا بن کر نکلے گا اور اگر عمران خان کو جبرا جلاوطن کیا جاتا ہے تو وہ امام خمینی بن کر واپس آئے گا۔
اس پس منظر میں عمران خان کے سامنے دو راستے ہیں کہ آیا وہ سیاست سے کنارہ کش ہو جائے، یا ملک و قوم کو منصوبہ سازوں پر چھوڑ دے کہ جو عوام کو یہ اختیار دینے پر تیار نہیں کہ وہ اپنے نمائندے خود چنیں۔ بصورت دیگر عمران خان سیاست میں رہے اور اسیری کی زندگی گزارے ، جس کی کوئی ضمانت نہیں کہ اسے کب رہائی مل سکے گی جبکہ دوسری طرف اسیری کے بغیر ہی جبری جلاوطنی کی پیشکش کو قبول کر لے اور اپنی باقی ماندہ زندگی پاکستانی سیاست سے دور رہ کر پرسکون گزارے۔ عمران خان یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاسی میدان میں عوام سے جو پذیرائی انہیں ملی ہے، وہ ملک و قوم سے محبت کے عوض ان کا نصیب ہوئی ہے، ملک میں رہتے ہوئے ہر طرح کے مصائب کا سامنا کرنے پر ملی ہے جبکہ ان کے حریف اس عوامی حمایت سے صرف اس لئے محروم ہو چکے ہیں کہ وہ ابتلاء میں ’’ سودے بازی‘‘ کرکے بیرون ملک رہائش پذیر ہوئے ہیں۔ بظاہر اس وقت یہی دو راستے عمران خان کے سامنے نظر آتے ہیں، عمران خان اس اہم ترین موقع پر کیا فیصلہ کرتے ہیں، ان کی سیاسی زندگی کا انحصار ان کے فیصلے سے مشروط ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button