ColumnImtiaz Ahmad Shad

کیا ہمارا شمار ظالموں میں ہو چکا؟

کیا ہمارا شمار ظالموں میں ہو چکا؟

امتیاز احمد شاد
جب قوموں میں بد عملی، بد خلقی، غفلت، بے راہ روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور تاریخ نے ایسے کئی مناظر دیکھے ہیں۔ قرآن کریم نے بھی مختلف قوموں کی تباہی کا ذِکر کیا ہے جن میں اخلاقی خرابیاں اجتماعی طور پر گھر کر گئی تھیں۔
سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا جنہیں ہم نے زمین میں ایسا مضبوط و پائیدار اقتدار دیا تھا کہ ایسا اقتدار تمہیں بھی نہیں دیا اور ہم نے ان پر لگا تار برسنے والی بارش بھیجی اور ہم نے ان ( کے مکانات و محلات) کے نیچے سے نہریں بہائیں پھر ( اتنی پرعیش و عشرت والی زندگی دینے کے باوجود) ہم نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں ہلاک کر دیا اور ان کے بعد ہم نے دوسری امتوں کو پیدا کیا‘‘۔ معاشرتی مجموعی ناانصافی کے سبب اقوام پر جو تباہی آتی رہی قرآن مجید میں سورۃ الحج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انہیں تباہ کر دیا تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک بیکار کنویں اور کتنے ہی مضبوط محل ویران پڑے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ اُن کے دل اِن باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان کی باتیں سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف ان کی آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوئیں ( یعنی یہ لوگ اپنی آنکھوں سے تاریخ پر نظر دوڑا کر عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوا ہم سے غافل ہونے کے سبب) بلکہ ان کے دل بھی اندھے ہو چکے ہیں جو سینوں میں پڑے ہیں ( مردہ حالت میں جنہیں کوئی سوجھ بوجھ نہیں)‘‘۔ تاریخ کے سبھی ادوار کھنگال کر دیکھ لیں نتیجہ یہی ہے کہ بحیثیت مجموعی انسان کی معاشرتی زندگی میں جب بگاڑ غالب رہا قومیں زوال پذیر ہوئیں اور اپنے انجام کو پہنچیں۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ واضح ہے کہ قدرت قوموں کے عروج و زوال اور تباہی و بربادی کے قوانین کے اطلاق میں قوموں کے درمیان فرق نہیں کرتی، جو قوانین یہود و نصاریٰ کیلئے ہیں وہی امتِ مسلمہ کیلئے ہیں، جو اصول اہل باطل کیلئے ہیں وہی اہل حق کیلئے ہیں، جو ضابطے اہل کفر کیلئے ہیں وہی اہل ایمان کیلئے ہیں۔ قرآن کریم میں بیان کردہ قوانین اٹل ہیں جن میں تبدیلی نہیں ہوا کرتی ہے۔ ان کو ’’ سن اللہ‘‘ کہا گیا ہے۔’’ تم اللہ کے قانون و ضابطے میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں پائو گے۔ ( الاحزاب: 62)۔ جب قرآن کا پیمانہ ہمارے سامنے ہے تو اس سے ہم خود کو پرکھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟ اس وقت ملت اسلامیہ کئی بڑے بڑے فتنوں اور صدموں میں گھری ہے۔ ہر بڑا فتنہ چاہے وہ ملکی سطح پر ہو یا عالمی سطح پر، سقوطِ بغداد ہو یا سقوطِ اندلس یا خلافت ِعثمانیہ کا خاتمہ ہو یا مسئلہ فلسطین اور کشمیر کا، چیچنیا، بوسینیا، کوسوئو، سرب اور برمی مسلمانوں کی نسل کشی ہو یا افغانستان و عراق، شام، لیبیا کی مسماری یا ہندوستان میں اٹھتے مسلم کش فسادات ہوں، یہ سب امتِ مسلمہ کو بیدار کرنے، آزمائش اور انہیں خوابِ غفلت سے جگانے کیلئے رونما ہورہے ہیں کہ یہ سب دیکھ کے ان کا خون کھولتا ہے یا نہیں؟ ان کا سویا ضمیر جاگتا ہے یا نہیں؟ ان کی سوئی ہوئی غیرت جاگتی ہے یا نہیں؟
مگر شاید ہم ان سب آزمائشوں میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کے بھی ہمارا خون نہیں کھولا، ہماری مردہ غیرت نہیں جاگی، ہمارے سوئے ضمیر بیدار نہیں ہوئے۔ بغداد جلتا رہا قوم سوئی رہی، کابل اجڑتا رہا قوم مدہوش تھی، عراق برباد ہو گیا قوم بے غیرتی کی چادر اوڑھے رہی، لیبیا پر آگ و آہن کی بارش ہوئی قوم غفلت سے بیدار نہ ہوئی، فلسطین و کشمیر، برما میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے مگر قوم کی آنکھیں نہیں کھل رہیں۔ افسوس ہم نے دشمن کی للکار پر کان نہیں دھرے۔ ہم 313تھے تو زمانے کی کایا پلٹ دی، آج ہم ڈیڑھ ارب ہیں مگر کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ہم تعداد میں اربوں مگر بے جان اور مردہ مٹی کے ڈھیر بن چکے ہیں۔ ہمارے حکمر ان بے غیرتی و بے حسی کی چادر اوڑھ چکے ہیں۔ ان کی مذہبی حمیت اور غیرت ِدینی دم توڑ چکی ہے، انہیں دین و ملت کے ساتھ ہونے والی کسی بھی اونچ نیچ پر کوئی دکھ و صدمہ نہیں پہنچتا۔ المیہ یہ ہے کہ دشمن کو میر صادق اور میر جعفر ہر دور میں بہت سستے داموں میسر ہیں۔ جہاں بد دیانت حکومتیں ہوں، کرپٹ انتظامیہ، بے ضمیر رہنما، انصاف سے عاری نظام عدل، جھگڑالو، فسادی دین کے ٹھیکے دار، بے اثر پیر و مشائخ ہوں تو امت کی بیداری و اصلاح کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ چمن کے مالی خود ہی چمن کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور اس کے تنوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
آج کس کے گھر لوٹے جا رہے ہیں؟ کس کے وسائل پر قبضے ہو رہے ہیں؟ آج دنیا میں چار سُو کس کی نسل کشی کی جا رہی ہے؟ آج ہر سو جلی نعشیں، بکھرے لاشے، کٹے اعضائ، بین کرتی مائیں، سسکتی بہنیں، اجڑے سہاگ، بلکتے بے سہارا بچے کس ملت سے وابستہ ہیں؟ آج دنیا میں کونسی قوم ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی ہے؟ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا؟ کیا یہ سب کچھ دیکھ کے کبھی کسی کا خون کھولا؟
مگر بد نصیب قوم ایسی مدہوش نیند سوئی ہے کہ اتنے بڑے بڑے ٹارچر پہنچنے پر بھی قوم میں ذرا جنبش نہیں آئی کہ وہ کروٹ ہی بدل لے۔ جیسے کسی مردہ کو جتنا مرضی ٹارچر کرتے رہو اس میں ذرا جنبش نہیں آتی بالکل یہی حال ہمارا ہے۔ ہم غفلت میں پڑے اتنی گہری نیند سو رہے ہیں کہ ہماری ملت کے جسم پر کتنے بڑے بڑے ٹارچر اور زخم آئے مگر ہم میں ذرا حرکت و جنبش نہیں آئی۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم بیدار ہونے کیلئے اسرافیلٌ کے ثور پھونکنے کی آواز کے منتظر ہوں کہ ہمیں اگر ثور کی آواز سنائی دے گئی تو ہم اٹھیں گے۔ عشق رسول ٔ کا دعویٰ ہم کرتے ہیں مگر کبھی غور کیا ہے کہ مجموعی طور پر نبی اکرم ٔ کی کوئی ایک ادا بھی ہمارے اند رہے؟ ہم آپؐ کے کس اسوہ پر عمل پیرا ہیں؟ جواب یقینا کوئی نہیں، مگر اس کے برعکس آج وہ کونسی اخلاقی خرابیاں ہیں جو ہم میں، ہمارے معاشرہ میں اجتماعی طور پر موجود نہیں؟ وہ کونسی غلاظت، گندگی، بیہودگی ہے، وہ کون سے غلط اطوار ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے؟ ظلم و زیادتی، فساد، حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی کیا ہمارا اجتماعی فعل نہیں؟ منشیات کے بازار، ہوس کے اڈے، شراب خانے، جوا، چوری، ڈاکہ زنی، قتل و غارتگری، زنا کاری، رشوت خوری، سود ، حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ، خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سا اخلاقی مرض ہے جو ہم میں نہیں پایا جاتا؟ بد عنوانی و کرپشن اور خود غرضی کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی، فریب اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے معاشرے میں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کون سے مظاہرے ہیں جو ہمارے ہاں دیکھنے کو نہیں ملتے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button