CM RizwanColumn

گلزار امام شمبے اور 9مئی کے لفنگے

گلزار امام شمبے اور 9مئی کے لفنگے

سی ایم رضوان
وزیراعظم شہباز شریف نے علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم بی این اے کے رہنما گلزار امام شمبے کی گرفتاری پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ امن و امان کی بحالی کے لئے ڈی جی آئی ایس آئی انٹیلی جنس آپریشنز بہترین انداز سے انجام دے رہے ہیں۔ عسکری ماہرین نے بھی بلوچ نیشنل آرمی اور ’’ براس‘‘ کے اس بانی رہنما گلزار امام عرف شمبے کی گرفتاری کو آئی ایس آئی کی تاریخ کا بڑا کارنامہ قرار دیا ہے۔ شمبے کو گرفتاری کے بعد میڈیا کے سامنے بھی پیش کیا گیا، جس نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں پر معافی مانگی اور کہا کہ اس نے ’’ غلط راستے کا انتخاب کیا تھا، ساتھی بھی لڑائی میں وقت ضائع نہ کریں، ریاست ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے اصلاح کا موقع دے‘‘۔ خیال رہے کہ پنجگور سے تعلق رکھنے والا شمبے ان دہشت گردوں میں شمار ہوتا ہے جو دشمن کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے اپنے ہی ملک، صوبے اور عوام کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ یہ 2018 ء تک کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی میں براہمداغ بگٹی کا نائب رہا۔ بعد ازاں بلوچ ری پبلکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام سے بننے والی بلوچ نیشنلسٹ آرمی کا سربراہ منتخب ہوا۔ نومبر 2018ء میں 4کالعدم تنظیموں کے انضمام سے بننے والی براس نامی تنظیم کی بھی سربراہی کی۔ شمبے نے دسمبر 2017ء میں گل نوید کے نام سے افغان پاسپورٹ پر بھارت کا دورہ بھی کیا۔ انٹیلی جنس اداروں نے مسلسل اور انتھک کاوشوں کے بعد بالآخر اسے چند ہفتے قبل گرفتار کیا تھا۔ شمبے کی گرفتاری کالعدم تنظیموں اور دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ناپاک عزائم کے لئے بڑا دھچکا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس خطرناک دہشت گرد کی جدید انٹیلی جنس مہارتوں کے استعمال کے بعد گرفتاری پر مبارکباد دی اور ڈی جی آئی ایس آئی کے انٹیلی جنس آپریشنز کو سراہا، امن وامان کی بحالی کے لئے سکیورٹی فورسز کی خدمات یقیناً قابل صد ستائش ہیں۔ اس سیقبل عسکری ماہرین نے بھی شمبے کی گرفتاری کو آئی ایس آئی کی تاریخ کا بڑا کارنامہ اور ادارہ جاتی پروفیشنل ازم کا ثبوت قرار دیا تھا، واضح رہے کہ یہ گرفتاری دنیا میں اپنی نوعیت کی دوسری جبکہ پاکستانی تاریخ کی پہلی کارروائی ہے۔ انتہائی پیچیدہ، مشکل ترین، کئی مہینوں اور کئی جغرافیائی علاقوں پر محیط اس کامیاب آپریشن پر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو شاندار خراج تحسین پیش کیا گیا۔
واضح رہے کہ گلزار امام شمبے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھا۔ نہ صرف فوجی حکام بلکہ ملک بھر کے عوام و خواص اس گرفتاری کو ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے اسے گرفتار کیا جو بلوچستان میں مبینہ طور پر بدامنی پھیلانے اور کئی پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کی وجہ سے قومی سلامتی کے اداروں کے لئے چیلنج بنا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی کی جانب سے دھوکہ دینے کی غرض سے گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ شمبے لاپتہ ہوگیا ہے۔ اس پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ شمبے کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے تحویل میں لے لیا ہے۔ بلوچ طلبا تنظیم ( بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے قوم پرست سیاست کا آغاز کرنے والا یہ نوجوان گلزار امام حکومت کی جانب سے بی ایس او کے خلاف کریک ڈائون کے بعد پہاڑوں پر چلا گیا تھا اور وہاں اس نے حکومت کو مطلوب ایک اور علیحدگی پسند رہنما برہمداغ بگٹی کی مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس دوران شمبے نے اپنی دہشت گردانہ کارکردگی کی بنیاد پر نا صرف برہمداغ بگٹی کا اعتماد حاصل کیا بلکہ اس تنظیم کی کمانڈ بھی سنبھال لی لیکن برہمداغ اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی خبروں کے بعد جہاں میدان پر موجود عسکریت پسندوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی وہاں برہمداغ بگٹی سے اختلافات کے بعد گلزار امام نے بھی دیگر عسکریت پسند گروہوں کو ساتھ ملا کر بلوچ نیشنلسٹ آرمی نامی ایک اور مسلح تنظیم قائم کرلی۔ اس گروپ میں زیادہ تر ایسے نوجوان شامل تھے جو بی ایس او کے پلیٹ فارم پر ایک ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے تھے۔ ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ برہمداغ بگٹی اور حربیار مری جیسے لوگ خود تو بیرون ممالک میں بیٹھے ہیں جبکہ میدان میں موجود ہم لوگ پاکستانی فوج سے برسر پیکار ہیں۔ یاد رہے کہ گلزار امام شمببے کا بھائی ناصر امام بھی عسکریت پسند بلوچ تنظیم المجید بریگیڈ کا حصہ رہ چکا تھا اور گزشتہ برس پنجگور میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر حملے میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک ہوگیا تھا۔ ان عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے بعد گلزار امام بھی سکیورٹی اداروں کی ہٹ لسٹ پر تھا۔ شمبے مبینہ طور پر کراچی اسٹاک ایکسچینج، چینی قونصل خانے سمیت کئی حملوں میں ہدایات اور معاونت نیز لاہور کے معروف انار کلی بازار میں ایک بڑی دہشت گردانہ کارروائی کا ماسٹر مائنڈ بھی سمجھا جاتا تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق گلزار امام شمبے نے مسلح بلوچ تنظیم داجی آجوٹی سانگر کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ شمبے نے مبینہ طور پر افغانستان اور بھارت کے بھی متعدد دورے کیے تھے اسی بناء پر پاک فوج نے اس کی گرفتاری کو دشمن ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے لئے ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ سکیورٹی حکام نے شمبے کی گرفتاری کو علیحدگی پسند مسلح بلوچ گروہوں کے لئی بھی ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق شمبے سے اب تک ہونے والی تحقیقات میں مبینہ طور پر بھارت کے بلوچستان میں عسکریت پسند گروہوں سے تعلق اور بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے اہم ارکان سے متعلق معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ ان معلومات کی روشنی میں مزید اہم انکشافات، کارروائیوں اور گرفتاریوں کا بھی امکان ہے۔
اپنے مذموم مقاصدِ اور بے جا طاقت کے حصول کے لئے نامناسب اہداف مقرر کر کے اپنے ہی ملک، قوم اور ارض وطن کی پامالی کرنا، قومی عظمت و سطوت پر مجرمانہ حملوں جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہوجانا اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مصروف ہوجانا ایک منفی سوچ والے منتقم مزاج ذہن کا آخری حربہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے جب یہ ذہن خاص طور پر طاقت کے زعم میں مبتلا کسی نام نہاد کمانڈر، عسکریت پسند لیڈر اور منتقم مزاج سیاستدان یا نیم سیاسی قائد کے ہتھے چڑھ جانے ہیں تو ایک عسکری جماعت اور عسکریت پسند گروہ وجود میں آ جاتا ہے۔ ہمارے ملک کی بدنصیبی کہ اپنے سیاسی مخالفین کو چور قرار دے کر ان کو خوفناک اور عبرتناک انجام سے دوچار کر دینے کا عزم لے کر میدان سیاست اور پھر اقتدار میں آنے والے ایک سیاست دان نے 2017میں نعرہ لگایا کہ ’’ میں ان کو رلائوں گا ‘‘ ، پھر 2018ء میں اقتدارِ میں آنے کے بعد کہا کہ میں ان چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا پھر جب تحریک عدم اعتماد کا شکار ہو گیا تو کہا کہ میں اقتدارِ سے باہر آ کر مزید خطرناک ہو جائوں گا۔ اس سارے عرصے میں جہاں سابقہ حکمرانوں کے کچھ سیاسی مخالفین یا کچھ عام ووٹر اس کے ساتھ آ ملے وہاں کثیر تعداد میں ایسے نوجوان بھی ڈی ٹریک ہو کر اور ڈنڈے اٹھا کر اس کے فدائیوں میں شامل ہو گئے جو کچے ذہن اور عسکری مزاج کے حامل تھے۔ یہ سیاست دان اگر مثبت سیاسی سوجھ بوجھ اور امن پسند سیاسی جدوجہد کا قائل ہوتا تو ان نوجوانوں کو مثبت انداز میں اپنی سیاسی طاقت بناتا اور تعمیری انداز میں اپنی سیاسی طاقت میں اضافے کے لئے استعمال کرنا مگر ایسا کرنے کی بجائے اس نے اور اس کے دیگر ساتھیوں نے ان نوجوانوں کو جلادو، آگ لگا دو، تباہی کر دو کی ترغیب دی۔ یہ ترغیب بھی دی کہ مخالفین کے گھروں پر حملے کرو، یہ راہ بھی دکھائی کہ مخالفین کو جینے کا حق بھی نہ دو۔ یہ بھی کہا کہ مخالفین اگر مدینہ منورہ میں بھی نظر آئیں تو چور چور کے آوازے بلند کرو۔ اس دوران خود ہر قسم کی چوری بھی کی اور ہیرا پھیری بھی۔ مال بھی لوٹا اور سرکاری خزانے پر بھی ہاتھ صاف کئے۔ مگر ڈنڈا فورس کو ہر وقت مشتعل کئے رکھا۔ عدالت ہو یا کوئی سرکاری عمارت، مسجد ہو یا کوئی سکول، مریضوں کی ایمبولینس ہو یا کسی فوتگی پر جانے والے معزز شہریوں کی گاڑی ان ڈنڈا بردار نوجوانوں نے صرف اپنے قائد، اس منتقم مزاج سیاستدان کی ہدایات پر عمل کیا اور پٹرول بم بھی چلائے اور آتشزنی بھی جی بھر کے کی۔ نہ کوئی ضابطہ ذہن میں رکھا، نہ کسی قانون کی پروا کی اور نہ ہی کسی اخلاقی جواز پر کان دھرے۔ دوسری جانب اس گروہ کے سہولت کار بھی ان کو خوب طاقت، حوصلہ اور کمک فراہم کرتے رہے۔ یہاں تک کہ نو مئی جیسا پراشوب اور افسوسناک سانحہ رونما ہوا۔ اس روز کے ظلم، ستم اور قومی غیرت و حمیت پر ناپاک حملوں کا ذکر کرنا بھی انتہائی تکلیف دہ ہے کہ کس طرح پاک فوج کے شہداء کی یادگاریں پامال کی گئیں، پاک فوج کی حساس تنصیبات کو تباہ کیا گیا، قومی املاک کو آگ لگائی گئی۔ یہاں تک کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے تبرکات کو توڑا گیا ان کو آگ لگادی گئی اور قومی عظمت و طہارت کے حامل شہ پاروں کا تقدس پامال کیا گیا۔ صرف ایک مقصد کی خاطر کہ اس ذہنی مریض سیاستدان کو تحفظ، تسکین اور کچھ سیاسی مفاد مل سکے جس نے انہیں یہ سب کچھ کی ترغیب، تربیت اور منصوبہ بندی فراہم کر رکھی تھی۔ شمبے کی گرفتاری پر ملک و قوم اور وزیر اعظم کی جانب سے جب اظہار تشکر کیا گیا تو بھی اس گروہ کے کچھ سوشل میڈیا ورکرز نے اس ہدیہ تبریک کا مذاق اڑایا، حالانکہ یہ اسی ذہنیت کی گرفتاری پر اظہار اطمینان تھا جس ذہنیت کے یہ خود مالک ہیں۔ یقیناً ان سیاسی دہشت گردوں کا انجام بھی دہشت گردوں جیسا ہونا چاہیے۔ جنہوں نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button