ColumnRoshan Lal

چیئرمین نیب کا استعفیٰ .. روشن لعل

روشن لعل

 

پاکستان بننے کے فوراً بعد جو نعرے یہاں خاص مقاصد کے تحت مقبول بنائے گئے ان میں سے ایک نعرہ ’’ انتخاب سے پہلے احتساب‘‘ بھی تھا ۔ گزشتہ 75برس کی پاکستانی تاریخ کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ’’ انتخاب سے پہلے احتساب‘‘ کا نعرہ یہاں احتساب کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے لگایا جاتا رہا۔ جس مقصد کے تحت یہ نعرہ لگایا گیا اسی مقصد کے تحت یہاں احتساب کے ادارے بنائے جاتے رہے۔ جب احتساب کے ادارے بے لاگ محاسبہ کرنے کی بجائے دیگر مقاصد کے تحت بنائے جاتے ہوں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان اداروں کا سربراہ مقرر کرنے کے لیے کیسے لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہوگی۔ یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ اپنی متنازعہ کارکردگی کی وجہ سے احتساب کا ادارہ یہاں کس قدرر ناقابل اعتبار تصور جاتاہے۔ احتساب کے متنازعہ تصور کیے جانے والے ادارے کے گزشتہ برس جولائی میںمقرر گئے سربراہ آفتاب سلطان نے اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ آفتاب سلطان کے استعفیٰ سے متعلق یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ انہیں کیونکہ اپنے مزاج کے مطابق کام کرنے کا ماحول میسر نہیں تھا اس لیے انہوں نے چیئرمین نیب کا عہدہ چھوڑنا مناسب سمجھا۔ آفتاب سلطان کے مستعفی ہونے کی مذکورہ توجیہہ پیش کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کی وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ بطور بیوروکریٹ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے دوران انتہائی شفاف اور غیر متنازعہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے۔جہاں تک پاکستانی بیورو کریسی کی شہرت کا تعلق ہے تو اس کے متعلق عمومی خیال یہی ہے کہ اس شعبے میں قائم ہوچکے فریم ورک کے مطابق کام کرتے ہوئے کسی افسر کا مثالی کردار کا حامل ہونا غیر ممکن حد تک مشکل ہے۔
بیوروکریسی کے متعلق قائم ہونے والے اس خیال کوہر گز خام تصور نہیں کیا جاسکتامگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس شعبے میں کام کرنے والے تمام افسرایک ہی طرح کے دقیانوسی رویے کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ بات ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہی جارہی ہے کہ پاکستانی بیوروکریسی میں بعض اوقات ایسے قابل ستائش کردار کے حامل افسر بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں کہ خود کو چٹکی کاٹ کر یہ محسوس کرنا پڑتا ہے کہ جو کچھ دیکھا جارہا وہ خواب نہیں حقیقت ہے۔ شاید آفتاب سلطان کا شمار بھی قابل ستائش کردار کے حامل افسروں میں ہی کیا جاسکتا ہو۔
آفتاب سلطان اگر بیورو کریسی میں خاص شہرت کے حامل ہیں تو شریف برادران بھی پاکستانی حکمرانوں میں اپنی ایک الگ شہرت رکھتے ہیں۔ آفتاب سلطان کو شہبازشریف نے بطور وزیر اعظم اور راجہ ریاض
نے بحیثیت لیڈر آف دی اپوزیشن ، باہمی رضامندی سے چیئرمین نیب مقرر کیا تھا۔یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں اس باہمی رضامندی میں راجہ ریاض کی رضا کا کس حد تک عمل دخل رہا ہوگا۔ اگرچہ کتابوں میں یہی درج ہے کہ چیئرمین نیب کا عہدہ حکومتی اثرورسوخ سے ماورا اور مطلق خود مختار ہوتا ہے مگر اس کتابی بات کو کوئی بھی سچ نہیں مانتا کیونکہ یہاں قریباً ہر سابقہ چیئرمین نیب حکومتوں کا اطاعت گزار ہی نظر آتا رہا ۔ مشرف دور میں چار لوگ چیئرمین نیب بنائے گئے، یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ یہ چاروں شفاف احتساب کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توانائیاں مشرف کا اقتدار مستحکم کرنے میں صرف کرتے رہے۔ مشرف کا تقرر کردہ آخری چیئر مین نیب 2008 میں بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کو ورثے میں ملا، اس چیئرمین نیب سمیت پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دو مزید نیب چیئرمینوں کو سپریم کورٹ کے حکم پر اپنے عہدے، مدت ختم ہونے سے پہلے چھوڑنے پڑے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر تین نیب چیئرمینوں کے اس طرح آنے جانے کی وجہ سے کسی چیئرمین کو بھی اپنی خود مختاری قائم رکھنے یا پیپلزپارٹی کی حکومت کے زیر اثر رہتے ہوئے کام کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں قمر الزمان چودھری کو اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور اپوزیشن لیڈر چودھری نثار نے اتفاق رائے سے چیئرمین نیب بنایا۔ قمر الزمان نے مسلم لیگ نون کی
حکومت کا خاص خیال رکھتے ہوئے چیئرمین نیب کی حیثیت سے اپنے عہدے کی مدت پوری کی۔ بطور چیئرمین نیب انہوں نے شریف برادران اور مسلم لیگ نون کی حکومت کا کس طرح خیال رکھا اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جب لاہورہائیکورٹ نے شریف بردران کے خلاف حدیبیہ ریفرنس کو ناقابل سماعت قرار دیا تو انہوں نے اس فیصلے کے خلاف معینہ مدت کے دوران سپریم کورٹ میں درخواست دائر نہ کی جس کی وجہ سے یہ کیس ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا۔ جس طرح قمر الزمان چودھری پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں چیئرمین نیب بنے تھے اسی طرح جسٹس (ر) جاوید اقبال کو نون لیگ کی حکومت کے آخری سال میں نیب کا چیئرمین بنایا گیا۔ عمران خان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے اور بعد میں جاوید اقبال نے شفاف احتساب کے جو دعوے کیے وہ محض دعوے ہی رہے۔اس طرح کی دعوے کرتے ہوئے ایک مرتبہ جب انہوں نے یہ کہا کہ جس دن حکومت میں شامل لوگوں کا احتساب شروع ہو،ا س دن عمران خان کی حکومت کا قائم رہنا مشکل ہو جائے گا تو فوراً ان کی ایک متنازعہ ویڈیو منظر عام پر آگئی۔ اس کے بعد پھر اپوزیشن مسلسل پیٹتی رہی کہ ان کے خلاف دائر ریفرنسوں کی طرح بلین ٹری، مالم جبہ اور بی آر ٹی جیسے کیسوں میں تحریک انصاف کے لوگوں کے خلاف بھی کارروائی شروع کی جائے مگر جاوید اقبال نے ایسی باتوںکے لیے اپنے کان بند کیے رکھے۔ عمران خان نے اس طرح کے مفید چیئرمین نیب کو اس کے عہدے کی آئینی مدت ختم ہونے بعد بھی احتساب کا سربراہ بنائے رکھا۔ عمران حکومت کی رخصتی کے بعد جب شہباز شریف اور راجہ ریاض نے آفتاب سلطان کو چیئرمین نیب بنایا تو شریف برادران کو اچانک نیب کیسوں میں رعایتیں ملنا شروع ہو گئیں۔ آفتاب سلطان کے چیئرمین نیب بننے کے بعد نہ صرف شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ اور سلمان کو رعایتیں ملی بلکہ فواد حسن فواد کی رہائی کی درخواست کو نیب عدالت نے ان کی منشا کے عین مطابق منظور کر لیا۔ یاد رہے کہ اس درخواست سے ملتی جلتی ایک درخواست قبل ازیں نیب عدالت رد کر چکی تھی۔ اب یہ بات سمجھ سے ماورا ہے کہ جب نیب میں معاملات اس طرح آگے بڑھ رہے تھے تو ایسا کیا ہوا کہ آفتاب سلطان کو اچانک استعفیٰ دینے کی ضرورت محسوس ہو گئی۔ یہ بات ایک اسرارہے کہ کیا شریف خاندان کوملنے والی رعایتوں کے دوران آفتاب سلطان نے بلین ٹری، مالم جبہ اور بی آر ٹی جیسے کیسوں کے ریفرنس دائر کرنے سے انکار کیا یا پھر میاں نوازشریف کو ملنے والی سزائوں کے خلاف جو اپیلیں اعلیٰ عدالتوں میں دائر ہیں ان کی سماعت کے دوران نیب کے وکیلوں کو مفلوج بنائے رکھنے سے معذرت کر لی۔ ہو سکتا ہے کہ اچھی شہرت کے حامل آفتاب سلطان نے یہ سوچ کر معذرت کر لی ہو کہ حدیبیہ کیس کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کرنے کی وجہ سے جو شہرت اس وقت قمر الزمان چودھری کی ہے کہیں مستقبل میں وہی شہرت کہیں ان کے کردار کا حصہ بھی نہ بن جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button