ColumnNasir Naqvi

زندگی بھر کا دُکھ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

آنا جانا، میل ملاقات دستورِ دنیا ہے لیکن دنیا میں آنا ضروری نہیں، واپس جانا ایک لازمی امر ہے۔ نظامِ قدرت کا یہ سلسلہ ازل سے ابد کے لیے یعنی آنا جانا کبھی بند نہیں ہو گا جسے رب نے زندگی دی، اسے موت کا ذائقہ بھی چکھنا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے رنگین دنیا میں آمد اور زندگی کی آخری سزا موت ہے۔ شاید وہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ نہیں جانتے زندگی کے بعد موت اور پھر… ایک نئی زندگی۔ پھر بھی ہم اپنے پیاروں کی رخصتی پر غمگین ہو کر آنسو بہاتے ہیں اس لیے کہ جانے والے سے ایک نہیں، کئی رشتے تھے، ہم بھول جاتے ہیں کہ یہی رسمِ دنیا ہے، یہی دستور ہے کہ جس نے آنا ہے اسے جلد یا بدیر اسی مالک کے حضور واپس جا کر پیش بھی ہونا ہے کیونکہ جان و جہان کا وہی حقیقی مالک ہیں ہم تو جان کے کیئر ٹیکر اور دنیا کے مسافر ہیں اور حقیقت میں زندگی ایک سفر جو نہ جانے کس مقام پر ختم ہو جائے، جانے والے کچھ جان اور چند جانِ جاناں، یہی نہیں کچھ جان سے بھی عزیز ہوتے ہیں لہٰذا برسوں کے پیار کی کہانی کا کوئی کردار اچانک دنیا سے روٹھ جائے تو دل دہل جاتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ رشتے ناطے ہی نہیں، زندگی کی جہد مسلسل اور شام و سحر کے قصّے اور داستانیں ایسے وابستہ ہوتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اس کے بنا اب زندگی کیسے گزرے گی؟ لیکن حقیقت یہی ہے کہ کوئی کتنا بھی پیارا کیوں نہ ہو، کسی کو اس کے ساتھ قبر میں اترتے نہیں دیکھا، بلکہ جو دم رخصت اسے لحد کی آغوش میں سپرد کرنے کے لیے اترتے بھی ہیں وہ بھی چند منٹوں میں باہر نکل کر ہاتھوں کی مٹی جھاڑتے ہوئے کہتے ہیں ’’سب ، سیٹ ہو گیا‘‘ ماشاء اللہ۔ اب مٹی ڈالو۔ پھر مٹی کے پتلے کو مٹی کے سپرد کر کے اپنے پرائے، دوست دشمن واپس لوٹ جاتے ہیں اور غم دنیا میں بڑے سے بڑا غم بھول کر کاروبارِ حیات میں مست ہو جاتے ہیں۔تاہم ان سب حقیقتوں کے باوجود کچھ ایسے خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں ایسی کار ہائے نمایاں انجام دئیے ہوتے ہیں ،انہیں کوئی بھولنا چاہے بھی تو بھول نہیں سکتا اور لاتعداد لوگوں کی دنیا میں گنتی کے ہوتے ہیں جو خود تو چلے جاتے ہیں لیکن ان کی کرامات آنے والی نسلوں کے لیے روشن چراغ ہوتے ہیں اور ان چراغوں کی روشنی میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ مٹی میں مٹی ہونے کے باوجود چراغ سے چراغ جلتا رہتا ہے اور آنے والی نسلیں ان سے کامیابی کے راستوں کو تلاش کرتے ہیں، ایسی شخصیات کی دنیا سے واپسی یقیناً زندگی بھر کا دکھ ہی ہوتا ہے حالانکہ’’ آنا جانا‘‘ لگا رہتا ہے، بہت سے ایسے منفرد لوگ ہمارے سامنے چلے گئے اور جو بچے ہیں وہ بھی تیار بیٹھے ہیں اس لیے کہ وہ جانتے ہیں دنیا میں کسی کا آنا ضروری نہیں، واپس جانا لازمی سروس ہے۔
اردو ادب کا ایک بڑا اور منفرد نام امجد اسلام امجد رخصت ہوئے تو ابھی نہ ان کا کفن میلا ہوا تھا اور نہ ہی غم بھولا تھا کہ ایک اور ناقابل فراموش صداکار، اداکار، رائٹر اور ڈائریکٹر، بین الاقوامی شہرت کے مالک ضیاء محی الدین بھی راہی اجل ہو گئے۔ امجد صاحب 80اور ضیاء صاحب اللہ کے فضل سے 92سال کے تھے۔ دونوں نے اپنے کام سے نام کمایا، صلاحیتوں کو منوایا۔ شہرت، دولت اور عزت ان کے گھروں کی لونڈی تھی، لیکن ان کی رخصتی اہلِ ذوق اور فن و ادب کے پرستاروں کو بھلی نہیں لگی، ہر کوئی یہی چاہتا تھا ایسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے اس لیے ابھی انہیں ہمارے درمیان ہی رہنا چاہیے تھا۔ پھر یہ ایسا وقت ہے کہ اسے ٹالا نہیں جاسکتا، اس لیے کہ یہ فیصلہ جان جہان کے حقیقی مالک کا ہوتا ہے اس لیے کوئی اسے مانے یا نہ مانے فیصلے کے سامنے سر تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے دنیا والوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان سا کوئی اور نہیں، انہیں صبر و استقامات کے ساتھ امانت خداوندی جانتے ہوئے سپرد خاک کر دیا۔ تاہم انہیں ان کی ادبی اور ثقافتی خدمات کے صلے میں برسوں فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔دنیا ادا س ہے کیونکہ امجد اسلام امجد جیسی شاعری، ڈرامہ نگاری، کالم نویسی اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی کتابیں، اشعار برسوں پکار پکار کر ادب نوازوں کو یاد دلاتی رہیں گی کہ ’’ایک تھا امجد اسلام امجد‘‘ وہ دنیا سے چلا گیا لیکن نہ مرا ہے اور نہ ہی اسے مارا جا سکتا ہے اسی طرح ضیاء محی الدین ان سے بھی آگے موجود رہیں گے۔ انہوں نے پاکستان میں ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر اپنی اداکاری اور صدا کاری کا ڈنکا بجایا، ٹی وی کی تاریخ میں ’’ ضیا محی الدین شو‘‘ تھا جس نے ضیاء صاحب کو شہرت نہیں دی بلکہ ضیاء محی الدین نے ٹی وی کو پاکستان میں معتبر بنایا، ان کے منفرد انداز نے اردو شاعری، تحت اللفظ اور صداکاری کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا، وہ بابائے ڈرامہ شیکسپیئر سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ انہوں نے اپنی ایک تحریر میں اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنی عمر کے آخری حصّے میں بھی شیکسپیئر کو پڑھتے ہوئے ایسی سنسنی خیزی محسوس کرتا ہوں کہ وہ میرا پیمانہ بن چکا ہے۔ وجدانی اور غیر وجدانی پہچان کرنے کا، اس کی وجہ یہی ہے کہ چار صدیاں گزرنے کے باوجود شیکسپیئر کے تحریر کردہ ڈرامے ابھی تک سٹیج ہو رہے ہیں بلکہ آج بھی ان کے جیتے جاگتے کرداروں کو داد دی جا رہی ہے۔
ان دونوں منفرد و یادگار شخصیات کی رحلت پر بہت کچھ لکھا گیا اور برسوں لکھا بھی جائے گا اس لیے کہ ان کی خدمات اگر ہماری زندگیوں کا اثاثہ ہیں تو زندگی بھر کا دکھ بھی، جسے ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی مصلحت خداوندی میں تسلیم کیا ہے وہ تھے ، بشری تقاضے بھی اب یہی ہیں لیکن دونوں کی قائم کردہ یادگاریں ہمیں ہمیشہ ان کی یاد سے محروم نہیں ہونے دیں گے میں نے اپنے عزیز دوست نامور شاعر اور دانشور ایوب خاور سے تعزیت کی تو انہوں نے دو تحریریں مجھے بھیجی ہیں، آپ کی نذر کر رہا ہوں …ہردل عزیز امجد اسلام امجد لیے…
اے پیارے امجد، ہمارے امجد
کہاں گئے ہو
ہم اپنی اپنی روایتوں میں کہاں پہ پہنچے
تم اپنی دھن میں کہاں چھپے ہو
یہ کس سے پوچھیں
تھکن سفر کی ہمارے پیروں سے دل تک آئی
تو مُڑ کے دیکھا
مُڑ کے دیکھا تو
تم نہیں تھے، کہاں چھپے ہو!
اے پیارے امجد
ہمارے امجد
تم تو بھائی یہیں ، کہیں
اس ہجوم یاراں کے بیچ بیٹھے کوئی لطیفہ سنا رہے تھے
نہ جانے کس شام کی اتھاہ میں
اترگئے ہو
بھلا کوئی اس طرح بھی جاتا ہے جانِ یاراں!
بلا کے ڈرامہ نگار ہو تم،
ہنسی ہنسی میں رُلا گئے ہو
ہماری آنکھوں سے آنسو ٹپکے تو ہم نے جانا
کہ جیسے تم
اشک ہجر بن کر
ہماری آنکھوں کی پتلیوں پر ہی جم گئے ہوں
اے پیارے امجد!
ہمارے امجد!
اب ملاحظہ کریں…’’ضیاء محی الدین کے لیے چند آنسو‘‘
ضیاء محی الدین پاکستان کی واحد ایسی بین الاقوامی شخصیت تھے جن کی ’’Creativity‘‘ ملٹی ڈائمنشنل تھی، ان کی دوسری خاصیت یہ تھی کہ وہ بہت اعلیٰ درجے کے منفرد موضوعات کو پیش کرتے ہوئے جس فنکارانہ تخلیقیت کے لیول کو ٹچ کرتے تھے ، وہ شاید اب تک میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی ، البتہ ان کے متاثرین اپنی جگہ قابل قدر ہیں، میں اردو ادب اور زبان و بیان کی صحیح ترین ادائیگی کو ان کی تخلیقی شخصیت کا امتیازی نشان مانتا ہوں، ضیاء صاحب انگریزی تہذیب میں پلے بڑھے مگر ان کی روح میں پاکستانی تہذیب نے ایک مثالی وقت گزارا،میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ٹی وی پر ان کے ساتھ بہت سے پسندیدہ پروگرام پروڈیوس کرنے کا موقع ملا لیکن ہمیشہ کے لیے ہم سب سے ان کا رخصت ہو جانے کا دکھ زندگی بھر رہے گا۔
اس میں دو رائے ہرگز نہیں کہ کام اور نام کے حوالے سے ایسے لوگوں کا دکھ دنوں اور سالوں کا نہیں ہوتا بلکہ زندگی بھر کا دُکھ ہے۔ خدا دونوں کی مغفرت فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button